نانگاپربت کیا ہے؟
نانگا پربت دراصل کسی ایک پہاڑ یا پہاڑی چوٹی کا نام نہیں۔یہ قطار اندر قطار چوٹیوں کے ایک حسین مجموعہ کا نام ہے۔ ان چوٹیوں میں جیلی پور،گنالو،بولدار،چونگرہ اور رائے کوٹ پیک شامل ہیں۔جن کا سب سے بہترین نظارہ فری میڈو ز سے ہوتا ہے گلشیئر ویو پوائنٹ، جرمن ویو پوائنٹ اور بیس کیمپ(سگھر) سے بھی ہوتا ہے۔نانگا پربت8125 میٹر بلند ہے۔ اس کو قاتل پہاڑ یا کلرموؤنٹین بھی کہا جاتا ہے۔نانگا پربت کو پہلے مقامی لوگ دیامورئی کہتے تھے۔ اب بھی بڑے بوڑھے یہی کہتے ہیں۔ اگر آپ کے کے ایچ سے نانگا پربت کا نظارہ کرنا چاہتے ہیں تو تھلیچی سب سے اچھا ویو پوائنٹ ہے۔قاتل پہاڑ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس پہاڑ کو سرکرنے والے بہت سارے مہم جو اور کوہ پیما برف کا رزق ہوئے ہیں۔نانگاپربت کے خونی برف کا رزق سب سے پہلی بار برطانوی مہم کے لیڈر ممری بنا۔وہ 1895ء کو نانگا پربت کی طرف آئی۔
سب سے پہلے کس نے سرکیا؟
سب سے پہلے جرمن اسٹرین ہرمن بہل نے 3 جولائی 1953 میں اس قاتل پہاڑ کو سر کیا۔ تاہم تب تک پچاس کے قریب لوگ مرگئے تھے۔ 1978 میں میسنر نے اس قاتل پہاڑ کو اکیلے سر کیا۔نانگا پربت کے ساتھ جرمن بہت متعلق ہیں بلکہ جرمن عاشق ہیں۔ اس لیے جرمن پہاڑ بھی کہا جاتا ہے۔
سب سے پہلے سرکرنے والی پاکستانی خواتین
پاکستانی کوہ پیماؤں نے اتوار دو جولائی 3023 کو نانگاپربت کی چوٹی سر کرلی۔ کوہ پیما واجداللہ نگری، ثمینہ بیگ اور نائلہ کیانی نے اتوار دو جولائی صبح گیارہ بجے آٹھ منٹ میں نانگا پربت کی چوٹی سرکرکے پہلے چوٹی سرکرنے والی پاکستانی خواتین کا اعزاز حاصل کرلیا۔ یہ ہماری کرامات ہی سمجھیں کہ جیسے ہی ہم فیری میڈوز میں داخل ہوئے ویسے ہی انہوں نے نانگاپربت سرکرلیا۔نائلہ کیانی پہلی آئینی پاکستانی خاتون جبکہ ثمینہ بیگ پہلی غیرآئینی پاکستانی یعنی گلگت بلتستانی خاتون ہیں جنہوں نےنانگاپربت سرکرلیا۔جب ہم جیپ اسٹاپ پہنچے تو یہ خبریں نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا میں چل رہی تھی۔یوں ہم نے اپنی کرامات جانا۔
نانگاپربت کی عبادت اور زیارت
ایک خیال یہ بھی ہے کہ دنیا میں ایک بڑا طبقہ پہاڑوں کی عبادت کرتا ہے۔ شاید نانگا پربت ا ن کا کوئی مقدس پہاڑ ہے جس کے عشق و عبادت اور زیارت کے لیے یہ لوگ مارے مارے آرہے ہیں۔ ایک لوکل آدمی نے تو یہاں تک کہا کہ جیسے ہم وارفتگی کے عالم میں مکہ و مدینہ جاتے ہیں ایسے ہی بہت سارے لوگ نانگا پربت کے لیے بیقرار ہوجاتے ہیں اور استور سائڈ اور بونر سائڈ سے بھی اس کی زیارت کرتے ہیں۔واللہ اعلم
فیری میڈو سے گلیشیئر ویو ائنٹ کے لیے روانگی
آئی بیکس لاج میں رات دیر تک جاگتے رہے۔ صبح سویرے آنکھ کھلی تھی پھر لگ گئی۔ پھر کیا تھا ٹھیک آٹھ بجے آنکھ کھلی تو برکت اللہ کا چھوٹا بیٹا ، بھتیجا صفت اللہ ہمارا منتظر تھا۔وہ ہمیں ناشتہ دے گیا۔ برکت اللہ اور سیف الرحمان کا خیال تھا کہ ہم آج فیری میڈو میں ہی آرام کریں جبکہ آگے بیال کیمپ اور گلشیئر ویو پوائنٹ کی طرف نہ نکلیں۔سیف الرحمان ایک سیاح کو لے کر گھوڑے سمیت بیس کیمپ کی طرف نکلا تھا۔ ٹھیک دس بجے فیصلہ کیا کہ آج ہی ویو پوائنٹ کی طرف رخت سفر باندھ لیا جائے۔ سیف الرحمان کا چھوٹا بھائی مجیب اب ہمارا گائیڈ تھا۔ہم ساڑھے دس بجے فیری میڈو سے نکلے اور سیدھا کاٹیج ہوٹل پہنچے۔وہاں قاری رحمت اللہ صاحب کے بیٹے ثاقب اور دیگر احباب پہلے سے ہمارے منتظر تھے۔ وہ شاکی ہوئے کہ ہم رات گزارنے ان کے پاس نہیں پہنچے۔ہم نے ساری صورت حال ان کے سامنے رکھا اور ایک دودھ پتی کڑک چائے پی کرمجیب کی معیت میں بیال کیمپ کی طرف روانہ ہوئے۔راستے میں ہر ،ہریالی اور بہتے جھرنے میں رکتے گئے اور خوب انجوائی کیا۔فیری میڈو کاٹیج کے متصل پیدل ٹریک کے ایک پوائنٹ سے نانگا پربت گلیشئر کا انتہائی خوبصورت نظارہ ہورہا تھا۔ دیر تک اس میں کھوگئے۔ٹھیک ڈیڑھ بجے ہم بیال کیمپ پہنچ چکے تھے۔
بیال کیمپ میں لسی کے چسکے
بیال کیمپ بھی فطرت اور سادگی کا حسین امتزاج ہے۔بیال کیمپ کے درمیان سے پانی بہتا ہے۔ دائیں طرف پرانی آبادی ہے جہاں لوگ مال مویشیوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ بائیں طرف پھیلا سبزہ ہے جس میں اب ہوٹل بن رہے ہیں۔ یہاں بھی بغیر پلاننگ کے ہوٹل تعمیر ہورہے ہیں۔بجلی کے ٹربائن بھی ہیں۔بیال کیمپ دائیں بائیں سے سبزہ پر مشتمل پہاڑیوں کے درمیان ایک وسیع چراہ گاہ ہے۔ مختلف اطراف سے برف پگھل کر درمیان سے پانی جھرنوں کی شکل میں فیری میڈو تک آتا ہے۔
شروع شروع جرمن اور دیگر کوہ پیما ٹیمیں اور مہم جو آتے تھے، اپریل مئی میں وہاں قیام کرتے ، وہاں سے آگے صبح سویرے یا رات کو بیس کیمپ کی طرف جاتے۔وہ اس لیے کہ ان دونوں اوقات میں برف جم سی جاتی ہے۔ چلنے سے ٹوٹتی نہیں۔ راستے میں ہمیں نظام الدین ملاتھا، ان کا خیال تھا کہ آج ہم بیال کیمپ میں ان کے ہوٹل میں رکیں یا کم از کم دوپہر کا کھانا ہی ان کے ہاں تناول کریں مگر پہلی ملاقات میں ہمارے لیے یہ مشکل تھا۔ ہم چل دیے۔ مجیب نے بتایا کہ میں ان کے گھر والوں کو بھی جانتا ہوں۔ ہم نے ارادہ کیا کہ ان کے ہوٹل میں نہیں گھر سے لسی منگوا کر پی لی جائے۔بیال کیمپ کے ابتدا میں ہی پہلے ہوٹل میں ایک نوجوان کھانا کھا رہا تھا، سلام سے پہلے ہی کھانے پر مدعو کیا۔ ہم نے معذرت کی تاہم ان کے ہوٹل میں موبائل چارجنگ پر لگا دیا اور بیگ بھی وہی رکھ دیا۔ یہ کیسے لوگ ہیں جو فوری طور پر کھانے کی دعوت دیتے ہیں۔مقامی باشندوں کی یہ عادت بڑی اچھی لگی۔ ہم نے نظام الدین کے گھر مجیب کو بھیجا تو پتہ چلا کہ وہ لوگ ابھی گونرفارم سے آئے ہی نہیں۔ کسی اور گھر سے مجیب نے لسی لے آیا جو جی بھر کر پیا۔
بیال کیمپ میں بارش اور موسم کی چھیڑخانیاں
بیال کیمپ جسے لوکل لوگ” بیالاہ” کہتے ہیں میں پہنچتے ہی آسمان ابرآلود ہونے لگا۔بالکل سامنے نانگا پر پت کی چوٹی بادلوں سے ڈھک گئی۔ اتنے میں بوندا باندی شروع ہوگئی۔سیاحوں کی ایک بڑی تعداد گلشیئر ویو پوائنٹ پر موجود تھی جو قطار در قطار واپسی کا رخ کرنے لگے۔ ابھی ہم اسی کشمکش میں تھی کہ ویو پوائنٹ کی طرف جانے کے لیے ہرحال میں کمر کس لی جائے یا بارش سے خوفزدہ ہوتے ہوئے واپسی کی راہ لیں۔لمحوں میں فیصلہ کیا۔ کچھ بھی ہو رائیکوٹ گلشیئرویو پوائنٹ کی طرف جائیں گے اور چل دیے۔ہمارا گائیڈ مجیب لسی کی جگ واپس دینے گئے تھے۔ ہم نے اس کا انتظار کیے بیال کیمپ سے ویو پوائنٹ کی طرف تیز تیز چلنا شروع کیا۔ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ ویو پوائنٹ تک کتنا سفر باقی ہے تاہم بیال کیمپ میں لسی پیتے ہوئے مجیب بار بار کہہ رہا تھا، تھوڑا سا راستہ ہے، ہم آگے چلتے رہے اور کئی ایک سیاح گروپوں کی شکل میں واپس دوڑ رہے تھے ، ہر کوئی ڈرا رہا تھا کہ آپ کیساتھ فیملی ہے ، کسی صورت آگے نہ جائیں، چڑھائی بھی ہے۔ راستے میں پانی بھی نہیں۔خوف اور بادلوں کے سائے میں چلتے رہے۔ اتنے میں ایک گجر بھائی ایک گروپ کو لے کر آیا، اس کے ساتھ موجود گروپ کے احباب بھی منع کررہے تھے مگر گجر بھائی نے شینا زبان میں کہا کہ صرف پندرہ منٹ کا راستہ ہے ہرحال میں جائیں ، ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہی کشمکش میں تھے ہمارا گائیڈ مجیب بھی پہنچا اور کہہ دیا کہ تھوڑا سا آگے ہے۔ ہم بیٹھ کر تبصرہ کررہے تھے۔ مجیب اور لبنی بار بار کہہ رہے تھے کہ آپ کوئی دم کرو جی، یہ بادل چھٹ جائیں اور دھوپ نکل آئے، ہم نے ان کے اعتماد کی لاج رکھی اور مختلف وظائف پڑھ پڑھ کر نانگا پربت کی طرف منہ کرکے پھونکیں مارنا شروع کیا۔اللہ کا کرنا یہی ہوا کہ ابھی ہم گلیشئر ویو پوائنٹ میں پہنچے تھے ، نہ صرف بارش تھمی بلکہ پورا مطلع صاف ہوا تھا، ہر طرف دھوپ ہی دھوپ تھی۔اندازہ ہوا کہ رائیکوٹ میں ایس کام موبائل سگنل اور بارش کا کچھ پتہ نہیں چلتا، کب آئے اور کب جائے۔دونوں کی چھیڑخانیاں مسلسل چلتی رہتی ہیں اور لوگ انجوائے بھی کرتے ہیں اور خوشی خوشی سہہ بھی جاتے ہیں۔
رائے کوٹ گلیشیئرویو پوائنٹ
جس کو نانگا پربت ویو پوائنٹ کہا جاتا ہے یہ دراصل رائیکوٹ گلیشئر ویو پوائنٹ ہے۔یہاں ایک بہت بڑا پتھر بلکہ چٹان ہے، جس پر ہمہ وقت پاکستان کا سبز ہلالی پرچم معلق رہتا ہے۔ نانگا پربت کا اچھا نظارہ فیرمی میڈو سے ہی ہوتا ہے۔اس ویو پوائنٹ سے تو بہتر نظارہ بیال کیمپ سے ہوتا ہے۔ البتہ یہاں سے گلیشئر کا نظارہ بہت ہی شاندار ہوتا ہے۔ اس لیے اس کو گلشیئر وویو پوائنٹ کا نام دیا جائے تو بہتر ہے۔
لاکھوں ٹن نر اور مادہ برف
یہاں ایگل نسٹ ہوٹل ہے جس کے مالک حنان ہیں۔ انہیں اپنا تعارف کروایا اور کڑک چائے بنانے کی فرمائش کی۔ اور پھر ناننگا پربت اور رائیکوٹ گلیشئر دیکھنے میں مصروف ہوا۔ میرے بالکل سامنے نانگا پربت ایستادہ تھا،اور اس کی چوٹی۔ اور نانگا پربت کے اوپر لاکھوں ٹن برف کی چادر تھی اور اس کے دامن میں رائیکوٹ گلیشیئر تھا۔ یہ برف ہی برف کا ایک وسیع میدان کی شکل میں ڈھیر تھا۔ رائیکوٹ گلیشئر نر اور مادہ برف پر مشتمل ہے۔نر برف کا رنگ مٹیالا ہے جبکہ مادہ کا کلر سفید۔ رائیکوٹ گلیشئر کا ایک سرا فیری میڈو کے پاس ہے اور دوسرا ، سر ا ناننگا پربت کے دامن میں۔نر اور مادہ کے ملاپ سے یہ گلیشیئر بڑھتا رہتا ہے۔ویو پوائنٹ سے نانگا پربت کی طرف نظریں بڑھا یا تو بالکل سامنے نانگا پربت کی چوٹیاں ہیں۔یہاں سے تین چوٹیاں واضح نظرآتی ہیں۔ ایک کو سلور پیک کہا جاتا ہے ، دھوپ یہی سے نمودار ہوتا۔آٹھ ہزار ایک سو پچیس میٹر بلندی پر موجود اس چوٹی کو نہ جانے کتنی بار دیکھا۔ مگر اس کی ہیبت دل سے اتری نہیں۔
دیو قامت پہاڑ اور گلیشیئر کے مہیب کڑاکے
یہ پورا دیوقامت پہاڑ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ہماری طرف دیکھ رہا تھا۔ ظالم کا بچہ، کتنوں کی جان لے گا۔دھوپ جب تیز ہونی لگی تو نانگاپربت کی برف چاندی کی طرح چمکنے لگی۔جولائی کے ابتدائی ایام میں دھوپ جب نکلے تو بہت تیز ہوتی ہے۔ برف پگل رہا ہے اور پانی بہہ رہا ہے۔ رائیکوٹ گلیشئر میں موجود لاکھوں ٹن برف کے اوپر بڑے اور چھوٹے پتھروں کا ذخیرہ موجود ہے۔ درمیان درمیان سے جب برف پگل کی نیچے گرنے لگتی ہے یا دب جاتی ہے تو اوپر سے پتھر بھی گرنے لگتے ہیں جسے ایک ڈروانی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے شاہراہ قراقرم میں اوپر سے پتھر گر رہے ہیں۔گلیشئر کا برف پگل کر ٹوٹے تو ایک خوفناک سی آواز پیدا ہوتی۔چھر چھر۔یوں لگتا کہ کسی بڑی عمارت کے شیشے کرچی کرچی ہوکر بکھررہے ہیں۔
آسودہ خیالات کی آمد اور چائے نوشی
لبنی یہ سب دیکھ کر حیرت میں مبتلا تھی۔ نہ جانے کیا سوچتی ہوگی۔آسودہ خیالات تو وارد ہوتے ہونگے ہر ایک کے دل و دماغ پر۔ ہم بھی اسی کیفیت سے گزررہے تھے۔ شاید ہر کوئی گزر رہا ہوگا۔نہ جانے وویو پوائنٹ سے نانگا پربت اور رائیکوٹ گلیشئر کا کتنی بار نظارہ کیا۔ سچ کہوں دل نہیں بھرا۔ اتنے میں حنان کی چائے آگئی اور ہم جرمن ویو پوائنٹ کے راستے میں ایک طرف سبزے پر آلتی پالتی مار کر بیٹھے۔ چائے کے کپ دیکھ کر دل بڑا خوش ہوا۔ رائیکوٹ کے پورے سفر میں اتنی شاندار چائے کہیں پینے کو نہیں ملی۔ چائے کی چاہ پہلے سے تھی لیکن حنان کاکا ، کی چائے اتنی شاندار بنی تھی کہ مزہ دوبالا ہوگیا۔وہ ہوٹل کے مالک بھی ہیں اور خود کک بھی۔ بلکہ وہ کسی سرکاری محکمے میں باقاعدہ پروفیشنل کک ہیں۔
بیس کیمپ کے راستے سے واپسی
چائے نوشی کے بعد ہمیں جرمن ویو پوائنٹ کی طرف جانا چاہیے تھا، ہم نیچلے راستے سے بیس کیمپ کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔کافی دیر تک چلتے رہے تو اوپر سے وافر مقدار میں آبشار کا پانی گر رہا تھا جو گلیشیئر کے اندر غائب ہورہا تھا۔ویو پوائنٹ سے بیس کیمپ تک تین جگہوں میں نانگا پربت کی چوٹیوں سے برف پگل کر پانی آتا ہے۔ظہر کے بعد یہ پانی بہت تیز اور زیادہ ہوجاتا ہے جو کراس کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ہم نے پہلے پانی سے واپسی کا فیصلہ کرلیا ، اتنے میں مجیب کا بڑا بھائی فضل مالک ایک گروپ اور اپنا گھوڑا لے کرآیا ،وہ گھوڑا ہمیں دینا چاہتے تھے مگر ہمارے انکار پر وہ ویو پوائنٹ کی طرف چل دیے اور ہم آہستہ آہستہ واپس ہونے لگے۔ وہ لوگ بیس کیمپ سے آئے تھے، ہمیں بہت دیر ہوچکی تھی اس لیے بیس کیمپ کا ارادہ ملتوی کردیا، سفر بھی کافی کٹھن تھا راستہ بھی مشکل۔ گلیشئیر وویو پوائنٹ سے بیس کیمپ تک کا راستہ ناہموار اور ڈھلوانی ہے۔واپس ویو پوائنٹ پر آئےفضل مالک وہاں منتظر تھے۔ حنان نے اپنے ہوٹل کا کمرہ کھلوایا اور ہمیں کھانا وہی دیا۔دیر تک میں اور لبنی وہی بیٹھے رہے۔بہت انجوائی کیا۔ کھانا بھی بڑا لذیذ تھا۔
جرمن ویوپوائنٹ
گلیشیئرویو پوائنٹ سے تیس منٹ کی مسافت پر، ذرا ڈھلوانی راستے پر جرمن ویوپوائنٹ بھی موجود ہے۔ یہاں جرمنوں نے کبھی کیمپنگ کی تھی اس لیے اس کو جرمن ویوو پوائنٹ کا نام دیا جاتا ہے۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک جرمن وہاں فوت ہوگیا تھا اس لیے اس کا نام جرمن ویوپوائنٹ سے مشہور ہے۔ بیال کیمپ میں ایک دو یادگاریں ہیں جو جرمنوں کی قبریں بتائی جاتی ہیں جو مہم کے دوران فوت ہوئے ہیں۔بہر حال چار بجے ہم گلیشئر ویوو پوائنٹ سے واپس فیری میڈو کی طرف روانہ ہوئے۔اب چلنا ہی چلنا تھا۔ پورے تین گھنٹوں میں ہم فیری میڈو کاٹیج پہنچے۔مغرب سے ادھا گھنٹہ پہلے۔
نانگاپربت پر طلوع و غروب آفتاب اور البیلا نظارہ
سنا تھا کہ نانگا پربت کی چوٹیوں پر طلوع و غروب آفتاب کا بڑا البیلا نظارہ ہوتا ہے۔اور یہ نظارہ فیری میڈو سے ہو تو کمال ہوتا ہے۔اب کی بار ہم نے فیری میڈو کاٹیج سے غروب آفتاب کا نظارہ کیا اور بہت دیر تلک کیا۔خوب تصاویر بنائی۔یہ ایک حسین منظر ہوتا ہے۔ اس قدرتی حقیقت کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ سورج سرخ ہوگیا ہے مگر شاید ایسا نہ ہو۔
غروب آفتا ب کا نظارہ اور شاعرانہ تخیلات
فیری میڈو کاٹیج کے سبزہ سےغروب آفتاب کا یہ منظر دیکھا تو قدرتی طور پرشاعرانہ تخیلات نے پیدا ہونا تھا۔ شاعرانہ تخیل صرف شاعروں پر پیدا نہیں ہوتا، ہر دل والا یہ کیفیت محسوس کرلیتا ہے۔ شاعر اور قلم کار بس اس کیفیت یا تخیل کو الفاظ کا جامہ پہناتے ہیں۔ جب یہ کیفیت پیدا ہو تو ہر طرف رومانیت جھلک رہی ہوتی ہے۔دل و دماغ میں جذبات کی لہریں اٹھ رہی ہوتی ہیں۔ ایسے جذبات جو ناقابل رقم ہیں۔
سائنسی و قرآنی حقیقت اور ہم جیسے عام لوگ
ہم جیسے سماجی و دینی علوم کے طالب علم ایسے مواقعوں کو کسی اور اینگل سے دیکھتے ہیں لیکن سائنسی علوم کے ماہرین کچھ اور کہتے ہیں۔ کہا یہی جاتا ہے کہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب ایک خالص سائنسی حقیقت ہے۔ مگر سچ کہوں تو مجھے اس حقیقت کو جاننا بھی نہیں۔ قرآنیات میں بھی اس کی بڑی تفصیلات ہیں۔ میں اس طرف بھی نہیں جانا چاہتا۔ میں تو بس غروب آفتاب کا منظر دیکھنا چاہتا تھا دیکھ لیا اور ہمیشہ کے لیے اپنے دل کے صفحات پر اس منظر کو نقش کرلیا۔جو شاید محو ہو۔
یہ اللہ کا کائناتی نظم ہے۔ اہل علم و اصحاب سائنس اس کی گھتیاں سلجھتاتے رہیں گے۔سلجھانا بھی چاہیے۔ ایسے مناظر دیکھ کر اہل دل پر بھی کچھ منکشف ہوتا ہوگا۔مگر ہم جیسے عام لوگ بس خدا کے اس کائناتی نظام سے اتنا اثر لیتے ہیں کہ اس پر مزید ایمان پختہ ہوتا جاتا ہے۔یہی فیری میڈو کاٹیج سے صبح صبح طلوع آفتاب کا منظر بھی دیکھا۔یہ پیراگراف لکھ کر رات گئے نیند کی آغوش میں چلا گیا تھا، اور خواب میں نانگاپربت کی چونگرہ پیک پر طلوع آفتاب کا منظر دیکھا۔اللہ اللہ ، ان جادوائی مناظر نے ہر جگہ محظوظ کیا۔
(آخری قسط باقی ہے)۔