آپ کی تحریریںسفرنامہ

آو ! فیری میڈوز  چلیں – پہلی قسط

سالوں سے فیری میڈو دیکھنا خواب تھا۔ کئی بار اس خواب کی تعبیر ہوتے ہوتے  رہ گیا تھا۔رائیکوٹ فیری میڈوز  میں میرے کئی تلامذہ تھے، اور کئی احباب بھی ، ہر ایک سے یہی خواہش کا اظہار کیا اور ہر ایک نے خلوص سے دعوت دیا۔ معروف سیاحتی شخصیت برادرم غلام نبی سے کہا تو انہوں نے مائنڈ کیا کہ” اپنے گھر میں مجھ سے پوچھ کر جارہے ہو”۔ رائیکوٹ تمہارا گھر ہے جب جی چاہیے، اٹھ کھڑے ہوجائے اور نکل جائے۔بہرحال دو جولائی 2023 کو اپنی رفیق حیات کیساتھ فیری میڈو کے لیے کمر کس لیا۔عید الاضحیٰ سے پہلے ہی  اپنے شاگرد سیف الرحمان المعروف سیفور سے طے ہوا تھا کہ عید کے چوتھے دن پریوں کا مسکن،برف زاروں ، بہتے پانیوں،ابلتے چشموں ، مہیب پہاڑوں ،بلند و بالا چوٹیوں  ، گھنے جنگلات  اور پھیلے سبزوں کی وادی رائیکوٹ تاتو بالخصوص فیری میڈو(جُت)، پھونگٹوری(فنتوری)، بیال کیمپ(بیالاہ)، گلیشئر ویو پوائنٹ، جرمن ویو پوائنٹ، بیس کیمپ(سگھر) میں زندگی کے چند حسین لمحات گزارے جائیں۔

گلگت سے روانگی

سیاحت آج کل پوری انڈسٹری بن چکی ہے۔ کمرشل سیاحت کے اس دور میں ایک عالمی سیاحتی مقام کی طرف رخت سفر باندھنا  مشکل نہیں تو آسان بھی نہیں تھا مگر ہم نے عزم صمیم کرلیا تھا اس لیے اپنے تلمیذ سیف الرحمان کی رہنمائی پرصبح صادق  کو ہی گلگت  سے رائیکوٹ پل کی  طرف چل دیے۔ رائیکوٹ پل میں رحمت میر ہمارے منتظر تھے۔ موٹربائیک ان کے اڈے میں پارک کی ۔ انہوں نے انتہائی احترام سے ایک ٹوٹاگاڑی میں بٹھا دیا۔ گلگت کشروٹ کے چند نوعمر لڑکے بھی تھے۔ ہم سب گاڑی پر سوار ہوئے۔ہم نے رائیکوٹ پل سے جیپ اسٹاپ ، جیل تک جانا تھا۔یہاں تک تقریبا چودہ پندرہ کلومیٹر کا سفر ہے۔یہ سفر دو گھنٹوں پر طے ہوا۔ سچ کہوں تو پل صراط پر گاڑی چل رہی تھی۔اس روڈ پر جیپ چلانے والے ڈرائیور یقینا بڑے دل کے لوگ ہیں ورنا ہم جیسوں کی تو جان نکل جاتی ہے۔

جیپ اسٹاپ، جیل میں

فیری میڈوز سائٹ رائیکوٹ میں  چھوٹے بڑے گیارہ گاؤں ہیں جہاں موسم سرما میں لوگ کچھ عرصہ کے لیے قیام پذیر ہوتے ہیں۔ پہلا گاؤں رائیکوٹ تاتو ہے۔ تاتو میں ایک گرم چشمہ بھی ہے جہاں پانی اتنا گرم ہے کہ پانچ منٹ میں آلو اُبل کر تیار ہوجاتا ہے۔ تاتو گاؤں میں سردیوں میں بھی لوگ قیام پذیر رہتے ہیں۔ تاتو میں ایک پرائمری اسکول ہے جو نیم سرکاری ہے۔ لاہور کی ایک یونیورسٹی نے یہ اسکول بنایا ہے۔ ایک عمارت حکومت گلگت بلتستان نے بنائی جو اس سال سیلاب کی نذر ہوئی۔ ہم نے تاتو کو کراس  کرکے اگلے گاؤں جیل میں رکنا تھا، جیل میں ہی جیپ اسٹاپ ہے۔یہاں سے آگے جیپ نہیں جاسکتی، صرف پیدل ٹرینکنگ ہے۔ جیل گاؤں میں کبھی گھنے جنگلات ہوتے تھے۔ سیلاب اور جنگلات دشمنوں نے ان گھنے جنگلات کا خاتمہ کردیا ہے۔ شینا زبان میں جنگلات کو جیل کہا جاتا ہے اس لیےاس گاؤں کا نام جیل ہے۔ ہم جیسے ہی جیپ سے اترے، ہمارے میزبان سیف الرحمان ہمارا انتظار کررہے تھے۔ انہوں نے ہمارا سامان لیا اور چل دیے۔جیپ اسٹاپ سے  پگڈنڈی پل کراس کیا اورفیری پوائنٹ ہوٹل پر ایک کٹرک چائے کا اہتمام کیا۔ ہمارا بیگ ایک گھوڑے والے کے ذریعے فیری میڈو روانہ کیا تھا۔ ہم نے ہوٹل کے کمرے میں کڑک چائے اور بسکٹ نوش کیے اور  چل دیے۔جیل اسٹاپ پر کئی غیرملکیوں سے بھی تبادلہ خیال ہوا۔ تھائی لینڈ کی کچھ خواتین کیساتھ لبنی نے کافی دیر انگلش میں گفتگو کی۔ بڑے ملنسار لوگ ہوتے ہیں۔ ہنس ہنس کر بات کرتے ہیں۔وہ فیری میڈوز میں میں کچھ قیام کرکے واپس جیپ اسٹاپ پہنچے تھے۔

جیل سے فیری میڈو تک دو ٹریکس

سیف الرحمان نے کہا” میں فیری میڈو سے ابھی ابھی یہاں پہنچا ہوں، پھونگٹوری کے راستے سے آیا ہوں۔ جیل اسٹاپ سے فیری میڈو جانے کے لیے دو ٹریک ہیں۔ ایک پھونگٹوری سے پیدل ٹریک ہے۔ یہ  راستہ شارٹ ضرور ہے لیکن انتہائی ڈھلوان اور اونچائی پر  ہے۔ جب کہ ایک ٹریک دریائے رائیکوٹ کے ساتھ ساتھ ہے جو بھلے وقتوں میں برگیڈر اسلم نے رائیکوٹ سے جنگل کی لکڑی لانے کے لیے روڈ بنوایا تھا۔ اب یہ روڈ تو نہیں رہا  البتہ سیاحوں کے لیے پیدل ٹریک ہے۔ سارے سیاح اسی ٹریک پر سفر کرتے ہیں اس لیے ہم بھی وہی سے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ دو ڈھائی گھنٹے کا سفر ہے مگر ہم ٹھیک پانچ گھنٹوں میں فیری میڈو میں پہنچے۔شدید تھکن کے باوجود فیری میڈوز میں پہنچ کر ہم ریلکس تھے۔

ہم نے فیری میڈو نکلنے سے تین چار دن پہلے اپنے جماعتی(کلاس فیلو) برکت اللہ کو اطلاع دیا تھا۔ انہوں نے ہمیں خوش آمدید کہا تھا۔ایک دن پہلے رائے کوٹ سرائے کے مالک برادرم  رحمت نبی سے بھی فیری میڈو جانے  کا پلان شیئر کیا تھا۔ انہوں نے  بھی خوشی کا اظہار کیا۔ بہر حال ہم جیپ اسٹاپ سے برگیڈر اسلم کی بنوائی ہوئی سڑک نما ٹریک  سے فیری میڈو روانہ ہوئے۔ راستے میں کامران اور حضرت موسی کے چائے خانے پر چائے نوشی کی۔

راستے میں دو انگریزوں سے ملاقات

کامران کے چائے خانہ میں دو نوجوان انگریزوں سے ملاقات ہوئی، ایک میڈیکل سائنس کا طالب علم تھا جبکہ دوسراالیکٹرک انجینئرنگ کا، وہ فیری میڈوز  اور نانگاپربت دیکھنے آئے تھے۔ہنزہ سے واپسی پر فیری میڈوز کا رخ کیا تھا۔ بہت دیر تک ان کیساتھ گپ شپ رہی۔دونوں کا تعلق انگلینڈ سے تھا۔ سیف الرحمان ہمیں مختلف جگہوں میں چائے اور جوس کا بندوبست کرتے رہے۔ اگر آپ لوکل ہیں تو یہ سب کچھ مفت میں کیا جاتا ہے یا ہمارے لیے مفت تھا۔

قاری رحمت اللہ کی آفر اور ہمارا پلان

ہم نے راستے سے ہی فیری میڈو کاٹیج کے مالک برادرم قاری رحمت اللہ سے رابطہ کیا اور خواہش ظاہر کی کہ اگر وہ رائیکوٹ میں ہیں تو ان سے ملاقات ہوجائے گی۔ وہ رائیکوٹ میں نہیں تھے مگر انہوں نے صفا صفا کہا دیا کہ ”آپ چونکہ فیملی کے ساتھ ہیں لہذا آپ ہمارے گھر میں قیام کریں گے اگر نہیں تو پھر فیری میڈو کاٹیج میں ہی قیام و طعام کا بندوبست کیا جائے گا”۔انہوں نے اپنے بھانجے اور ہمارے میزبان سیف الرحمان کو بھی یہی حکم صادر کیا اور ہوٹل میں موجود اپنے بیٹوں اور ہوٹل منیجر کو بھی مطلع کردیا کہ ” مولوی امیرجان حقانی کے لیےقیام و طعام کا بندوبست کیا جائے”۔

ہمارے میزبان نے ہمارا انتظام براڈ  ویو ہوٹل میں کررکھا تھا ۔ ہم نے یہی طے کیا تھا کہ ایک دن براڈ  ویو میں، ایک دن برکت اللہ کے  آئی بیکس لاج فیری میڈو  اور ایک دن فیری میڈو کاٹیج میں گزاریں گے۔تاہم برکت اللہ جماعتی کے حتمی فیصلے کے بعد ہمیں فیری میڈو لاج شفٹ ہونا پڑا۔

رائیکوٹ کے دو حصے: تاتو اور مٹھاٹ اور نمبرداری

رائیکوٹ دو حصوں پر مشتمل ہے۔یہ دونوں بڑے گاؤں ہیں۔دونوں رائیکوٹ  موضع گوہرآباد کا حصہ ہیں۔ اب گوہرآباد تحصیل کا درجہ پاچکا ہے۔ ان میں  ایک کو رائیکوٹ تاتو جبکہ دوسرے حصے کو رائیکوٹ مٹھاٹ کہتے ہیں۔ یہ دونوں نالے دراصل گرمائی نالے ہیں۔ موسم بہار اور گرما میں لوگ یہاں مال مویشیوں کے ساتھ رہتے ہیں ۔ سردیوں میں گونرفارم، ڈرن ، گلگت اور چلاس کے مختلف مقامات کی طرف شفٹ ہوتے ہیں۔انگریز نے مٹھاٹ اور تاتو کے لیے ایک ایک نمبردار مقرر کیا ہے۔ مٹھاٹ کا نمبردار محمدحسین ہیں جو معروف نمبردار راش خان مرحوم کے بیٹے ہیں ۔ جبکہ تاتو کا نمبردار شکور رحمت ہیں۔شکور رحمت صاحب تاتو کے باسی ہیں۔ گوہرآباد کے نمبرداروں میں نمایاں نام ہے۔ میرے شاگر یاسین اعظم  ضلع دیامر کے جرگہ سسٹم اور نمبرداروں کے نظم و نسق پر اپنے یوٹیوب چینل کے لیے انٹرویو کرنا چاہتے تھے تو مجھ سے رابطہ کیا۔ بہت غور و خوض کے بعد نمبردار شکور رحمت مناسب اور موزوں لگے۔ ان سے رابطہ کرایا اور انہوں نے بہترین انٹرویو ریکارڈ کرایا۔گزشتہ چند سالوں سے ڈی سی دیامر اور دیامر انتظامیہ نے دھڑا دھڑ نمبردار بنانے کا عمل شروع کیا ہے۔ہر دوسرے ہفتے کسی نہ کسی کا نمبرادری کا نوٹیفیکشن نکل جاتا ہے جو یقینا ایک المیہ سے کم نہیں۔ ہمارا ایک مضبوط سسٹم تھا۔ پرانے اور خاندانی نمبرداران علاقائی معاملات کو سمجھتے تھے اور کلچر اور روایات سے بھی آگاہ تھے۔ ان کی بڑی خدمات بھی ہیں۔ مگر اب ڈی سی نوٹیفیکشن والے نمبرداران کی وجہ سے اصل نمبرداران پس منظرمیں چلے گئے ہیں۔نمبرداری کے اس سیل  رواں کو روکنے کی ضرورت ہے۔

فیری میڈوز سائٹ رائیکوٹ کے گاؤں  اور گروپس

فیری میڈوز سائٹ رائیکوٹ  میں چھوٹے بڑے  گیارہ گاؤں ہیں۔تاتو، جیل(جہاں جیپ اسٹاپ ہے)، بیزر،فری ،  جُت(فیری میڈو)، پھنگٹوری(فنتوری)، دو نوں  بتھریٹ، وتر، بیالا(بیال کیمپ) کھیرے بیالاہ ۔ ان تمام چھوٹے بڑے گاؤں میں ایک ایک مسجد بھی ہے یعنی گیارہ مساجد ہیں۔فیری میڈو خاص میں تبلیغی جوڑ بھی ہوتا ہے۔

رائیکوٹ تاتو میں سات  ہیٹیے( گروپپس)  کے لوگ قیام پذیر ہیں۔نگرے ، ریسے، لوئیے، نقیبے،خنوے، جرگدرے اور حجتے  ہیٹی والے ہیں۔ رائیکوٹ کی زمینیں انہیں کی ہیں۔تمام اہم مقامات آپس میں تقسیم کرچکے ہیں۔ البتہ رائیکوٹ کے جنگلات میں پورے گوہرآباد کا حصہ ہے۔ رائیکوٹ تاتو، فیری میڈو سائٹ پر شین قبائل کے لوگ بستے ہیں۔ بیزر میں بڑی تعداد میں گجر برادری بھی مستقل قیام پذیر ہے۔رائیکوٹ مٹھاٹ میں یشکن قبائل کے لوگ ہیں۔تاتو اور مٹھاٹ کے لیے یونین کونسل کی ایک ایک سیٹ مختص ہیں۔ گزشتہ بیس سال سے بلدیاتی انتخابات بھی نہیں ہوئے ہیں۔اور یہ علاقے ان ان دو سیٹوں سے بھی محروم ہیں ۔

فیری میڈوسے پہلا نظارہ اور سونچل سبزی

 براڈ  ویو ہوٹل میں  دوپہر تین بجے  لنچ کیا۔سیف الرحمان نے چکن کڑاہی کیساتھ  سونچل سبزی،لسی اور مکئی کی روٹی کا انتظام کیا تھا۔تھکاوٹ کیساتھ بھوک اور ہماری پسندیدہ  لوکل ڈش، واہ کیا کہنا۔ملک کے دیگر حصوں سے تشریف لانے والے سیاح ایک دفعہ سونچل سبزی، مکئی کی روٹی اور لوکل بنی لسی کو ضرور انجوائی کریں۔یہ گلگت بلتستان کی یونیک ڈش ہے جو ہر گھر میں پسند کی جاتی ہے۔ آجکل شہروں میں نایاب ہے البتہ دیہاتوں میں آسانی سے اس کا انتظام ہوجاتا ہے۔فیری میڈوز کے ہوٹل انتظامیہ کو سونچل، مکئی اور لسی کو نیشنل اور انٹرنیشنل سیاحوں کے لیے ایک  مقامی ڈش کے طور پر مستقل مینو کا حصہ بنانا چاہیے۔ اسے مقامی لوگ سبزیاں اُگا کر ٹھیک ٹھاک کماسکتے ہیں اور سیاحوں کے لیے بھی ایک یونیک ڈش انجوائی کرنے کاموقع ملے گا۔ لنچ کے بعد تھوڑا ساآرام کرنے کا ارادہ تھا، دفعتا ہم ہوٹل کے ویو پوائنٹ سے نانگا پربت کی چوٹی، نانگا پربت گلیشئر،گھنے جنگلات، بہتے پانوں اور نیلگوں آسمان کا نظارہ کرنے بیٹھ گئے۔یہ نانگا پربت اور رائے کوٹ گلشیئر کو باقاعدہ پہلا نظارہ تھا۔جو کچھ ہم دیکھ رہے تھے وہ الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ لبنی بھی بہت ہی لطف اندوز ہورہی  تھی۔ فطرت کی ہزاروں پرتیں ہوتی ہیں۔آج فطرت  اپنی تمام پرتوں کیساتھ ہمارے سامنے براجمان تھی۔ اسی سحر میں کھوئے ہوئے تھے ،سیف الرحمان نے آواز دی کہ ہم ابھی فیری میڈو گراؤنڈ کی طرف جائیں گے، شام کو واپسی ہوگی۔ میں نے کہا کہ  جرگہ دار برکت اللہ سے بھی آج ہی ملنا ہے۔


فیری میڈو گراؤنڈ میں انٹری

 یوں ہم نے برگیڈر اسلم کے باقیات کی لگائی ہوئی،  آہنی باڑ کو کراس کرکے فیری میڈو گراؤنڈ  میں داخل ہوئے۔ میرے سامنے ایک وسیع و عریض میدان  تھا۔ جس میں سبزہ ہی سبزہ تھا۔ کئی ایک گھوڑے اور ننھے منے بچے اور سینکڑوں سیاح فیری میڈو  گراؤنڈ میں دنیا و مافیہا سے بے خبر فطرت الہی کی رعنائیوں سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ ہم نے بھی خیالوں کے سمندر میں فیری میڈو(جُت) میں قدم رنجیدہ کیا۔میرے بالکل سامنے آئی بیکس لاج فیری میڈو کی خوبصورت بلڈنگ نظر آرہی تھی۔ہم نظاروں کی دنیا میں از خود فیری میڈو لاج کی طرف بڑھ رہے تھے۔

برکت اللہ سے ملاقات اور مہمان نوازی

 آئی بیکس  لاج کے پروپرائٹر برکت اللہ نے اپنی کاٹیج سے ہمیں دیکھ لیا اور ہمارے طرف روانہ ہوئے۔ یوں فیری میڈو گراؤنڈ کے درمیان بہنے والا شفاف جاری پانی کے پاس ہمیں آ لیا۔ ہم دونوں نے  چوبیس سال پہلے گوہرآباد ہائی اسکو ل میں چھٹی ، ساتویں  اور آٹھویں ساتھ پڑھا تھا۔ پھر میں دینی اور عصری تعلیم کے لیے کراچی سدھار گیا اور برکت اللہ جی بی سکاوٹ میں بھرتی ہوئے۔ انہوں نے جاب مکمل کرکے ریٹائرمنٹ لی اور آئی بیک لاج بنایا جبکہ ہم سرکاری ملازمت میں ہیں۔ لبنی کو سیف الرحمان کی والدہ اور بہنوں سے ملاقات کے لیے ان کے گھر جانا پڑا، جبکہ میں اور برکت اللہ آئی بیکس لاج میں چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے دائیں بائیں کے مناظر سے لطف اندوز ہونے لگے۔ آئی بیکس لاج سے فیری میڈو اور نانگا پربت کا نظارہ خوب ہورہا تھا، عصر کے بعد کا وقت تھا مگر نانگا پربت نے بادلوں کی چادر اوڑھی تھی اس لیے ہم پہلے دن  غروب آفتاب کے نظارہ سے محروم رہے۔ارادہ یہی تھا کہ رات کو واپسی براڈ  ویو کی طرف جائیں گے لیکن برکت اللہ کے دو ٹوک فیصلے نے ہمیں یہی  آئی بیکس لاج میں رکنے پر مجبور کردیا۔ انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا، انکل کو کمرے کی چابی دیں، اور جب تک یہاں رہیں گے ان کے کھانے پینے اور آرام کا بندوبست کریں اور فوری طور پر اپنے بیٹےصفت اللہ کو  پیسے دیے کہ وہاں سے بکرا لے آئیں ۔ ”میرے بھائی آئے ہیں تو بکرا کٹے گا ”۔ ہزار منع کرنے کے باوجود برکت اللہ نے اک نہیں سنی ، بلکہ شٹ آپ کال دی۔یوں واپسی تک ہم جرگہ دار  برکت اللہ، آئی بیک لا ج اوراس کے تمام احباب کی مہمان نوازیوں کو انجوائے کرتے رہے۔جزاکم اللہ۔

سیاحوں سے گفتگو اور آگ کا الاؤ

 پہلی شام ہم آئی بیکس لاج میں  بیٹھے تھے۔ پنجاب سے کئی گروپ فیملی کیساتھ موجود تھے ، ظہیر رضا  راولپنڈی سے  پانچ فیملی ممبران کیساتھ آئے تھے۔ان کے بچے اور بیوی بہت خوش تھے۔ ظہیر نے کہا ”نہیں یہاں ذہنی آسودگی ملی ہے، سبزہ، برف کے پہاڑوں اور گلیشئر سے بہنے والے پانیوں کو خوب انجوایا کیا”۔غروب آفتاب کا وقت تھا، دھوپ مدہم ہورہی تھی۔ ہوا میں قدرے خنکی تھی۔برکت اللہ نے ہوٹل کے لان میں آگ کے   الاؤ  سے خنکی کو گرمی میں تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی۔آگ تاپی جارہی تھی۔الاو کے ارگرد  حسرتوں کے بھیڑ جمع تھے۔ہر ایک کے دل پر گہرا گھاؤ تھا۔اس گھاؤ   کے گہرے زخموں کو مندمل کرنے کے لیے پروانے  آگ کے الاو کے چاروں طرف جمع تھے۔ انجینئر میر گل بھی مدعو تھے جو فیری میڈو کے باسی ہیں لیکن لاہور میں قیا م پذیر ہیں۔ملٹی نیشنل کمپنی پیپسی کے مینٹینینس  منیجر ہیں۔ کچھ لاہوریے فیملی کیساتھ  الاؤ سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ میں ان سے فیری میڈوز  اور رائیکوٹ کے متعلق مکالمہ میں مصروف تھا۔ یہ بڑا جادوائی منظر تھا، کمرے سے لبنی کو بھی بلا لیا تاکہ وہ بھی ذرا آگ تاپے اور سیاحوں کی گفتگو سنیں اور خواتین سےان کے جذبات دریافت کریں۔درمیان درمیان میں نانگا پربت اور رائیکوٹ کی پہاڑیوں سے مدہم سی گڑگڑاہٹ اور آسمانوں پر چلتی بجلیوں کی کڑک آوازیں اپنی طرف متوجہ کررہی تھیں۔اس کیفیت میں مجھ پر سینکڑوں ہزاروں تخیلات  وارد ہورہے تھے۔تب کے تخیلات شاید اب لکھ نہ پاؤں۔لکھتا بھی کیسے ! میرے پاس  الفاظ کا وہ خزینہ بھی تو نہیں۔مجھے فطرت کا ہر راز جاننے کا شوق ہے۔اور فطرت  فیری میڈو ز اور ناننگا پربت کی شکل میں میرے سامنے ننگی تھی مگر میری آنکھیں خیرہ اور الفاظ  کم پڑ گئے ہیں اس فطرت کو جاننے اورقلمبند کرنے کے لیے۔ میں صرف محسوس کرسکتا تھا بیان نہیں۔ آپ بھی جائیں اور فطرت کو محسوس کریں، بیان کرنے کی کوشش قطعا نہ کریں۔نانگاپربت اور فیری میڈو ز کے حسن کو کبھی ہم نے جہاز سے گزرتے ہوئے بھی دیکھا تھا اور تب بھی صرف محسوس کیا تھا کسی سے عرض کرنے کی ہمت نہیں تھی۔

فیری میڈو ایک چراہ گاہ، ایک میدان

فیری میڈو  خاص ایک  انتہائی حسین و جمیل اور خوبصورت ، سطح مرتفع پر  بچھا ایک چراہ گاہ   اور کھلا میدان ہے۔اپنی فطری ساخت کے اعتبار سے یہ جگہ واقعتابے حد خوبصورت ہے۔نانگا پربت کے عشق میں بین الاقوامی سیاح اور کوہ پیما  بہت پہلے سے آتے رہتے ہیں۔ 1932 میں جرمن امریکی مہم کے سربراہ  ولی مرکل نے رائیکوٹ  ”جُت” کو فیری میڈو کا نا م دیا۔ جُت(فیری میڈو) جیسے درجنوں اور فیری میڈوز ہیں رائیکوٹ میں۔ فیری میڈو  سطح سمندر سے 3300 میٹر یعنی 10827 فٹ بلندی پر واقع ہے۔ وہ اس جگہ سے اتنا متاثر ہوا کہ اس کا نام فیری میڈو(Fairy meadow) یعنی پریوں کی چراگاہ  رکھا۔اس کا اصل نام  ”جُت” ہے ،تاہم  اب یہ فیری میڈو ہی کہلائے گا۔

فیری میڈوز کے ساتھ وابستہ دیومالائی کہانیاں

میں جب تک فیری میڈوز نہیں گیا تھا ، فیری میڈوز کے متعلق دنیا بھر کے لٹریچر میں اساطیری اور دیومالائی کہانیاں سن اور پڑھ کر  مبہوت رہ جاتا تھا۔لیکن یوں ہی فیری میڈو میں داخل ہوا، مجھے وہ اسطورات   بہت سطحی دکھائی دینے لگی۔فیری میڈو اور اس کے مضافات واقعتا  پریوں کی چراگاہیں ہیں۔یہاں نانگا پربت ہے۔سرسبز کوہسار ہیں۔ گرتے آبشار اور بہتے جھرنے  ہیں۔ شفاف پانی ہے۔آبی و جنگلی جانور ہیں۔ گھنے جنگلات ہیں۔ بہت بڑا گلیشئر ہے۔جھیلیں ہیں۔سطح مرتفع پر پھیلے بڑے بڑے سبزے اور چراگاہیں ہیں۔ سینکڑوں قسم کے پھول اور جڑی بوٹیاں ہیں۔ الپائن،جینیپر،صنوبراور نوع بنوع کے پھلدار و پھولدار درخت اور جڑی بوٹیاں اور بیل بوٹے موجود ہیں۔

قدرتی لیبارٹری

ماہرین نباتات، وجنگلات اورجنگلی حیات سے تعلق رکھنے والے اہل علم کے لیے فیری میڈوز  اور اس کے مضافات قدرتی لیبارٹی کی حیثیت رکھتا ہے۔ کروڈوں ٹن نر اور مادہ برف ہے۔اس پر سائنسی تحقیقات ہورہی ہیں۔اس پر مستزاد فیری میڈو ز کے حسین، ملنسار اورحس مزاح سے مملوء لوگ ہیں۔ یہ سب چیزیں جمع ہوجائیں تو فیری میڈوز  بنتا ہے اور یہ سب چیزیں ایک جگہ میں جمع ہونا ناممکن ہے۔قدرت اس چھوٹے سے خطے پر بے انتہا  مہربان ہوئی ہے اور انگریز بلاوجہ کسی علاقے پر عاشق نہیں ہوتے۔کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ فرصت کے ایام میں ان  برفیلے پانیوں کو غور سے پڑھنا چاہیے جو ہزاروں سال سے بہہ رہے ہیں، پگل رہے ہیں اور ایک دنیا کو سیراب کررہے ہیں۔ ان برفیلے اور نشیلے پانیوں میں ہزاروں لاکھوں  پریوں کے معشوقے ہیں۔ان سے جُڑی دیومالائی کہانیاں ہیں۔پانی کی ان تحریروں میں ہزاروں راز ہیں۔ ہر راز اور کہانی میں ایک مکمل فسانہ ہے۔

بشیر بدر نے خوب کہا ہے:

اگر فرصت ملے پانی کی تحریروں کو پڑھ لینا

ہر ایک دریا ہزاروں سال کا افسانہ لکھتا ہے۔

پھنگٹوری( فنتوری) ایک حسین جگہ

فیری میڈو کے حسن کو دوبالا کرنے کے لیے متصل فنتوری ہے جس کو مقامی لوگ پھنگٹوری کہتے ہیں۔ ہم نے تیسرے دن،  اپنے گائیڈ چھوٹو مجیب کو ساتھ لیا اور فنتوری کا چبہ چبہ دیکھا۔فنتوری میں جو، مکئی، آلو اور دیسی مٹرکاشت کیا جاتا ہے۔ فتنوری سے رائیکوٹ کے گاؤں   بیزر اور فری کا منظر بھی بہت صاف دکھائی دیتا ہے۔یہ پورا علاقہ سبزہ ہی سبزہ ہے۔فنتوری میں ایک چشمہ بھی ہے جس کا پانی سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ یہ چشمہ آب زم زم کی طرح ابلتا رہتا ہے جاری نہیں ہوتا۔ کبھی کھبار چشمے کا پانی خشک ہوجاتا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے یہ تب ہوتا ہے جب کوئی گندگی اس ابلتے پانی میں ڈالی جائے یا کوئی جنبی یہاں نہائے۔ پھر لوگ صدقہ خیرات کرتے ہیں تو چشمہ کا پانی ابلنے لگتا ہے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو چشمہ خشک ہونے کو تھا۔ شاید پہلے بھی ایک دفعہ ایسا ہوا تھا۔ چشمے صاف بھی ہوتے ہیں اور بابرکت بھی۔ جب لوگ ناقدری کریں ، گند  پھیلائیں اور غلاظتیں ڈالیں تو شاید روٹھ جاتے ہیں۔فنتوری میں سیاح نہیں جاسکتے۔مقامی لوگ کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔خواتین بھی کام کرتی ہیں۔ سیاح عموما ان کی پرائیویسی کا خیال نہیں کرتے اس لیے وہاں جانا منع ہے۔ ہم چونکہ مقامی بھی تھے اور پھر پھونگٹوری کا مجیب بھی ساتھ تھا۔ اس لیے اس جنت گم گشتہ  کی خاک چھاننے کے لیے نکلے۔لبنی نے راستے میں قدرتی پھول اور بوٹے جمع کرنے شروع کیے۔اس کو بھی پھولوں سے بڑی رغبت ہے۔ یہاں ہم نے بہت سے پھول دیکھے۔ میں علم نباتات کا طالب علم ہوتا تو ان تمام پھولوں کے نام اور خصوصیات لکھ دیتا، اگر فوٹوگرافر ہوتا تو کیمرے کی آنکھ میں ان پھولوں اور جڑی بوٹیوں  کی رعنائی کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کرتا، اگر ویڈیو میکر ہوتا تو ویڈیو کلپس بنا کر دنیا کو دکھاتا۔ میں جسٹ ایک رائٹر ہوں ۔ آپ کو خبر دے رہا ہوں۔ وہاں پھول ہیں،بوٹے ہیں اور ان کی رعنائیاں بھی۔ آپ بھی دیکھنے کے لیے جائیں۔پھر نہ کہنا خبر نہیں ہوئی۔

پھونگٹوری میں بارش اور کھیتوں کی شوخی

پھونگٹوری سے واپسی پر بارش ہونے لگی۔بارش کیا تھی کہ پودوں، پھولوں، کھیتوں  کی ہریالی اور سبزہ،  بارش کی وجہ سے شوخ ہوتا گیا بلکہ نازنینوں کی طرح شوخی پر اتر گیا۔ہوا میں بھرپور تازگی آگئی۔ہم کھیتوں اور ہریالی کے درمیان سے بھاگم بھاگ بارش سے بچنے کے لیے مجیب کے گھر پہنچے۔ مجیب کا ایک گھر پھونگٹوری میں ہے۔وہاں خالہ(مجیب کی والدہ) ہمیں خوش آمدید کہہ رہی تھی۔ وہ فنتوری میں کھیتوں کو پانی دینے آئی تھی۔ ہمارا  دوپہر کا کھانا ان کے گھر فیری میڈو میں طے تھا، وہ کہہ رہی تھی جلدی جائیں اور کھانا وقت پر کھائیں۔ کھانا  دیر سے کھانا درست نہیں۔دیہاتی لوگ کتنے مخلص ہوتے ہیں نا۔؟ یہ خالہ ماں کا روپ دھار رہی تھی۔ اگلے دن ہمیں فیری میڈوز  کی سبزیوں اوردیسی اونی ٹوپی کے گفٹ اور ڈھیرساری دعاؤں کیساتھ رخصت کیا۔خالہ جی سدا سلامت رہیں۔

مستنصرحسین تارڑ جھیل

فیری میڈو گراؤنڈ کے دائیں بائیں گھنے جنگلات ہیں۔درمیان سےشفاف پانی کی نہر ہے جو  فنتوری کو سیراب کررہا ہے۔ فیری میڈو کے بالکل دامن میں  ایک جھیل ہے۔مقامی لوگ اس کو  ”سروٹ” کہتے ہیں یعنی چھوٹی سی جھیل۔شاید اسی جھیل کو تاڑ جھیل کا نام دیا گیا ہے۔  فیری میڈو ، فنتوری اور رائیکوٹ میں ملکی سطح پر ڈسکور کرنے میں مستنصرحسین تارڈ کا بڑا ہاتھ ہے۔انہوں نے گلگت بلتستان کی سیاحت پر ناول نما سفرنامہ لکھا ہے جس کا نام ہی نانگاپربت رکھا ہے۔اس میں رائیکوٹ کا سفرنامہ بھی شامل ہے۔فنتوری سے واپسی پر مجیب نے ہمیں تاڑ جھیل کا وزٹ کرایا۔ اس جھیل کے ایک کونے میں ایک سوراخ ہے جہاں سے پانی کا اخراج ہوتا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سوراخ انسان خور ہے۔ کسی زمانے میں ایک شخص کو نگل لیا ہے۔ اس کو بند کرنا ممکن نہیں۔اس جھیل کو مختلف سمتوں سے دیکھا جائے تو  دل کا نظارہ پیش کررہی ہے۔

فیری میڈو کی مسجد اور تعلیم قرآن

 فیری میڈو میں ایک مسجد بھی ہے۔شاید ابھی تک مسجد کا نام نہیں رکھا گیا۔ یہ بہت پرانی مسجد ہے۔ نگری فیملی نے مسجد کے ساتھ مدرسہ کے لیے بھی زمین وقف کر رکھا ہے۔ مجھے اس مسجد میں کئی نمازوں کی امامت کرانے اور نمازیوں سے دعوت دین اور اسلامی تعلیمات پر گفتگو کرنے کا موقع ملا۔دل میں ایک حسین خیال آیا، اگر یہ مسجد اور ملحقہ مدرسہ کی جگہ میرے حوالے کی گئی تو میں اپنے ادارے کا سمرکیمپس بناؤنگا۔ میرے بھی عجیب خیالات ہیں نا۔ اس مسجد کے امام صاحب مولوی خالق جان آج کل گونرفارم میں ایک مسجد کی تعمیر میں مصروف ہیں۔فیری میڈو میں ایک عالمہ  بنت فرمان ولی محلے کے بچوں کو ناظرہ قرآن پڑھانے کی خدمت انجام دے رہی ہے۔ فیری میڈو میں لوگ زیادہ سے زیادہ فیملی کیساتھ چھ ماہ قیام کرتے ہیں۔ البتہ ہوٹل مالکان اور عملہ مارچ سے نومبر تک فیری میڈو میں مقیم رہتے ہیں۔

فیری میڈو کے بے ہنگھم ہوٹل  اور ماسٹرپلان کی ضرورت

فیری میڈو گراؤنڈ کے دائیں بائیں دھڑا دھڑ ہوٹل بن رہے ہیں۔ مقامی لوگوں نے زمینیں تقسیم کی ہیں۔ جس کی بھی مالی گنجائش ہو وہ ہوٹل تعمیر کررہا ہے۔ فیری میڈو اور رائیکوٹ کے سارے ہوٹل لکڑی سے بنے ہوئے ہیں۔ فن تعمیر کے عجوبے ہیں۔ فرش، پلر، دیواریں، چھت، سیڑھیاں، غرض ہر چیز لکڑی سے بنایا گیا ہے۔جس ہوٹل کو بھی دیکھا فن تعمیر کا شکار نظرآیا۔ فیری میڈو میں سب سے پہلے 1992 میں غلام نبی نے رائیکوٹ سرائے ہوٹل کا قیام عمل میں لایا۔اس کے بعد ہمارے میزبان قاری رحمت اللہ کا فیری میڈو کاٹیج بنا ہے۔رائیکوٹ میں سیاحت کے فروغ کے لیے ان لوگوں کی ابتدائی کاوشیں تھی۔ اس کے بعد سلسلہ بڑھتا رہا۔ اس وقت فیری میڈو میں اٹھارہ ہوٹل ہیں۔یہ سارے ہوٹل بغیر پلاننگ کے بنائے گئے ہیں جس کی وجہ سے فیری میڈو کا حسن ماند پڑگیا ہے۔کسی اچھے آرکیٹکٹ سے پورے فیری میڈو کا ماسٹر پلان بنوانا چاہیے تھا۔ہوٹل والوں کی کوئی ایسوسی ایشن بھی نہیں۔ جلد ہی کوئی ایسوسی ایشن قائم کرنی چاہیے تاکہ اصول و ضوابط باہمی اتفاق رائے سے طے کیے جاسکیں اور کمیونتی بیسڈ معاونت سے سیاحت کو مزید بہتر طریقے سے فروغ دیا جاسکے اور ایسے اصول و ضوابط وضع کیے جائیں کہ کسی کی حق تلفی نہ ہو اور نہ ہی کوئی فرد یا گروپ من مانی کرسکے۔

برگیڈر اسلم  کی زمین اور مقامی لوگوں کا رویہ

فیری میڈو کے بالکل دامن میں میں سب سے خوبصورت جگہ پر برگیڈر اسلم کا قبضہ ہے۔ برگیڈر اسلم نے رائیکوٹ جنگل خریدا، اس کے لیے روڈ بنوایا اور جنگل کی لکڑی ترسیل کی، سادہ لوح لوگوں نے انہیں  فیری میڈو میں دس  کنال خوبصورت جگہ  ہدیہ کردیا۔یہ دراصل دیہاتی لوگوں کی طرف سے اپنے پردیسی مہمان کے لیے ایک اعزاز تھا۔ اس نے ڈاکومنٹس بنوالیے جس میں پچاس کنال لکھوا دیا۔ پچیس کنال فیری میڈو میں اور پچیس کنال بیال کیمپ میں۔ اور سال 2022 میں  جب برگیڈر صاحب کی باقیات نے وہاں ہوٹل بنانے کا پروگرام بنایا تو تب مقامی لوگ سیانے ہوچکے تھے۔ لوگ احتجاج کرنے لگے اور پھر انتظامیہ کی مدد سے بہت ساری مہنگی اراضی پر باڑ لگاکر بند کردیا گیا، لیکن مقامی لوگوں نے پانی اور لکڑی نہ دینے کا معاہدہ کیساتھ زمین پر انہیں قبضہ دے دیا۔ مجھے یہی لگتا ہے چند سال بعد ان کو پانی بھی ملے گا اور لکڑی بھی۔ اس کی بڑی وجہ مقامی لوگوں کی آپس میں ناچاکیاں اور حسد و عناد ہے جو فیری میڈو کی سیر میں ، میں نے محسوس کیا۔یاد رہے گوہرآباد کی ساری بنجر اراضی، پہاڑ اور جنگلات  گوہرآبادیوں کی ملکیت ہے۔ یہ ملکیت قیام پاکستان سے پہلے انگریز حکومت نے تسلیم کیا ہے۔تحریری معاہدات اور ڈاکومنٹس موجود ہیں۔

فیری میڈوز میں لوگوں سے خوش گپیاں

ہم فیری میڈوز کے سفرمیں مختلف احباب اورمقامی لوگوں سے خوش گپیاں کرتے رہے۔برکت وکیل  اور ان کے احباب سے ان کے ہوٹل سنبھالا میں چائے پر دیر تک خوش گپیاں کرتے رہے۔ ہارٹ موضوع   ”عقد ثانی ” رہا۔ان کے والد نے بھی دو شادیاں کی ہے۔ ان سے گھر میں نوجوانوں کی ایک ٹیم کی معیت میں بڑی دیر تک گپ شپ ہوئی۔ محفل کے آدمی ہیں۔ شینا میں گالیاں بھی خوب بکتے ہیں۔دیامبری ہوٹل کے شاہ فرمان نے گھر میں  مدعو کیا اور لوکل ڈش  گھی دودھ کی ثرید سے تواضع کیا۔ لبنی بھی نگری فیملی کی خواتین سے باتیں کرتی رہی اور ان سے ملاقاتیں ہوئی۔انہوں نے لبنی کو دیسی چکی بھی دکھائی اور مختلف گھروں کا وزٹ بھی کرایا۔فیری میڈوز میں گھڑ سواری کی ہمت نہیں ہوئی۔ انجانا سا ڈر لگا، ورنا گھوڑے تیار تھے۔کچھ دکانوں سے خریداری بھی کی۔کچھ ہمارے جاننے والے بھی ملے جو ہمیں فیملی کیساتھ دیکھ کر حیرت میں مبتلا تھے۔ کسی نے بتایا کہ آپ  گوہرآباد کے پہلے شخص ہیں جو فیملی کیساتھ گھومنے  کے لیے آئے ہیں۔اسلام نے اس کی ممانعت نہیں کی اور نہ ہی ہمارے بڑوں اور اکابر نے منع کیا البتہ وہ جہاں کہیں جاتے ہیں فیملی کیساتھ جاتے ہیں۔بہتوں کو حیرت ہورہی تھی مگر ہمیں اس طرح کے مصنوعی چیزوں سے باہر نکل کر دیکھنا ہوگا۔ڈائریکٹر مجید اپنے گروپ کے احباب سے کہہ رہے تھے کہ ”حقانی ڈیجیٹل اور روشن خیال مولانا ہیں”۔ بہر حال میں لائف انجوائی کرنے میں اسلام کی دی ہوئی تمام  رخصتوں اور اجازتوں  پر عمل کرتا ہوں۔ اس باب میں کوئی لوکل روایت، علاقائی قدغن،خودساختہ دینی رکاوٹ اور پابندی کو بالائے طاق رکھ کرزندگی گزارتا ہوں۔بہتوں کے تیروں کا نشانہ بھی بنتا مگر کوئی پروا نہیں۔آپ بھی وہی کیجیے جو اسلام نے آپ کے لیے گنجائش رکھا ہے۔ خود پر بے جا پابندیاں لگا کر اسلام کا نام تو نہ دیں۔

سفر ایک اوپن یونیورسٹی ہے

جب انسان کے ساتھ بہت سارے غم، مشکلات، رنج اور مصیبتیں لاحق ہوں، پریشانیوں نے آگھیرا ہو تو اسے سفر پر نکلنا چاہیے۔ سفر ایک اوپن یونیورسٹی ہے۔ اور بیماریوں، پریشانیوں اور دکھوں کے لیے  ایک کھلا ہسپتال۔میں جب بھی پریشان ہوتا ہوں تو کتاب کا مطالعہ شروع کرتا، کالم لکھتا یا پھر سفر پر نکلتا ہوں۔اور اب کی بار اپنے علم اور مشاہدہ میں اضافہ اور بیماریوں، پریشانیوں اور دکھوں کا مدوا  فیری میڈو زکے سفر کے ذریعے کرنے نکلا تھا۔ اور پھر زندگی کے چند لمحات یادگار بھی بنانے تھے۔ ان امور میں فیری میڈو ز کا ایک ایک ذرہ  میرا ممد و معاون رہا۔فیری میڈوز ، یاد رکھیں، میں دوبارہ آؤنگا، بار بار آؤنگا، اپنے تعلیمی ادارے کا چھوٹا سا  کیمپس بھی بناؤنگا ان شاء اللہ۔

(جاری ہے۔دو مزید قسطیں ہیں)

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button