ترقی کا حقیقی معیار
گذشتہ تحریر میں میں نے "ہنزہ کی بظاہر زرخیز زمین دانشوروں اور قائدین کو پیدا نہ کر سکی” کا عنوان دیا تھا جس میں ہنزہ میں تا حال حقیقی ترقی نہ ہو سکنے کی بات کی گئی تھی۔ اس حوالے سے ہمارے بہت سارے احباب اور ارباب دانش نے تعریفی کلمات کہے تھے جبکہ بعض نے اپنے تحفظات کا بھی اظہار کیا تھا اور ایک لحاظ سے اس کی وضاحت کا تقاضا کیا گیا تھا۔ کسی فرد کو اتفاق کرنے کے ساتھ اور اختلاف کرنے کا بھی حق حاصل ہے۔ چنانچہ اس مذکورہ تحریر کی مناسبت سے چند باتیں یہاں قید قلم کی جا رہی ہیں۔
جدید دور میں ترقی کا حقیقی یا اعلٰی معیار یہ نہیں ہے کہ کسی ملک یا خطے میں عظیم الشان عمارتیں،جدید معیار کی سڑکیں اور پل اور بڑے بڑے ادارے موجود ہوں اور معاشی و اقتصادی سرگرمیاں زور و شور سے جاری ہوں۔ یا یہ کہ اس کے ہونہار افراد بڑے عہدوں پر فائز ہوں۔ بلکہ حقیقی ترقی و پیشرفت کا معیار یہ قرار دیا جاتا ہے کہ کسی ملک یا خطے میں علمی، ادبی اور عقلی سرگرمیاں تیز تر ہوں اور کتب و رسائل کی اشاعت کا اعلٰی انتظام ہو۔ روس کے ایک مفکر و دانشور نے تو یہاں تک کہا ہے کہ کسی ملک کی حقیقی ترقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ اس ملک میں کتب و رسائل اور اخبارات و جرائد کی طباعت و اشاعت کی تعداد کتنی ہے اور ملک میں ان مطبوعات کو زیر مطالعہ لانے والے لوگ کتنے ہیں۔ نیز حالیہ وقتوں میں شائع ہونے والی رپورٹوں کے سرسری مطالعے سے ہی یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ تیسری دنیا، خاص طور پر مسلمان ملکوں میں مطالعے کی شرح یورپ و امریکہ سمیت ترقی یافتہ دنیا میں مطالعے کی شرح کے عشر عشیر کے برابر بھی نہیں ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں بھی پاکستان کی شرح خواندگی اور شرح مطالعہ دونوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ گلگت۔ بلتستان تو پاکستان کا دور افتادہ اور پسماندہ بے علاقہ ہے، جسے سرزمین بے آئین بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں بھی صورت حال قریب قریب وہی ہے جو ملک کے دوسرے علاقوں کی ہے۔
جہاں تک وادی ہنزہ میں تعلیم و تعلم اور مطالعے کی بات ہے تو یہاں دوسرے علاقوں کے مقابلے میں شرح خواندگی زیادہ ہے اور یہاں کے ہونہار افراد بڑے مناصب پر بھی فائز ہیں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں نمایاں کام کرتے ہیں۔ ہنزائیوں کی محنت و مشقت اور انسان دوستی پورے خطہ شمال میں ضرب المثل بن چکی ہے۔تاہم، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ شرح مطالعہ کی حالت ہنزہ میں بھی دگرگوں ہے۔ یہاں صورت حال یہ ہے کہ لوگ دس روپے کا اخبار خرید کر پڑھنا گوارا نہیں کرتے ہیں۔ کتاب پڑھنے، کتاب خریدنے اور کتاب لکھنے کی روایت نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہنزہ میں کتب فروشی کا کاروبار خسارے کا کاروبار سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے لوگ کتب فروشی کی بجائے "چھپ شرو” بنا کر فروخت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کیونکہ شپ شرو کھانے والے بہت زیادہ ہیں اور کتاب لینے والا شاید ہی کوئی ہو۔
ہم ہنزہ والے حکیم ناصر خسرو (متوفی481ھ / 1088ء) کے مرید ہونے پر بھی فخر کرتے ہیں لیکن ان کے کردار اور تعلیمات پر کماحقہ عمل نہیں کرتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ناصر خسرو اپنے سات سالہ سفر کے مشکل ترین حالات کے دوران بھی اپنی کتابیں اونٹ پر لاد کر خود اپنے بھائی کے ساتھ پیدل چلتے تھے۔ کتاب دانی، کتاب خوانی، کتاب فہمی اور کتاب نویسی ان کی عادت ثانیہ تھی، وہ کتاب کے بغیر رہ نہیں سکتے تھے۔ جبکہ ہم مریدان ناصر خسرو اس عادت و خصلت نیک سے کوسوں دور ہیں۔ لہٰذا، ہم نہ ناصر خسرو کے مرید ہونے کا حق ادا کر رہے ہیں اور نہ ہمارا یہ دعوٰی درست ہے کہ ہم ترقی یافتہ قوم ہیں۔
یہ دور خوش فہمی کا نہیں بلکہ خود احتسابی کا ہے۔ہمیں اپنی کمزوریوں پر قابو پانا ہوگا۔ ترقہ یافتہ قوم بننے کے لئےعلم و دانش اور حکمت و بصیرت کےحصول کے لئے بلا مزد و معاوضہ دیوانہ وار کوشش کرنا ہوگی، کتاب کو دوست اور مطالعے کو اپنی عادت ثانیہ بنا ہوگی۔ تب ایک علمی و ادبی اور دانشورانہ روایت فروغ پا سکے گی اور قوم میں مصنفین، مفکرین، سائنس دان،فلسفہ دان،مورخین، اور سیاسی و سماجی مدبرین پیدا ہوں گے۔وہ اپنی تخلیقی، تحقیقی اور تصنیفی صلاحیتوں کو کام میں لا کر دنیا کے سامنے ایک غنی علمی و ادبی ورثہ کتب و رسائل کی صورت میں پیش کریں گے۔ نامور برطانوی مورخ اور فلسفہ تاریخ کے عالمی شہرت یافتہ ماہر آرنلڈ ٹائن ۔ بی (Arnold Toynbee)نے اس قبیل کے تخلیق کاروں اور تحقیق کے شہسواروں کو عقلی یا دانشورانہ اقلیت یعنی Intellectual minority کا نام دیا ہے اور ان کے بقول دانشور طبقہ تہذیبوں کی آبیاری کرتا رہتا ہے اور اسی کے سبب قومیں عروج و ارتقاء کی منزلیں طے کرتی ہیں۔ اور جب یہ دانشورانہ عقلیت اپنی قوت کھو دیتی ہے تو تخلیق و تحقیق کے سوتے خشک ہوجاتے ہیں جس کے نتیجے میں تہذیبیں اور قومیں شکست و زوال سے دوچار ہوجاتی ہیں۔
بہر حال، ان مذکورہ حقائق کو پیش نظر اس وقت یہ کہنا محل نظر ہوگا کہ ہم ترقی یافتہ قوم ہیں۔ اس محل و مقام تک پہنچنے کے لئے جہد پیہم اور تگا پوئے دمادم کی ضرورت ہے۔احباب و قارئین کو سلام کہتے ہوئے میں اپنی تحریر کو اختتام تک پہنچاتا ہوں۔