کالمز

ہنزہ کی سیاسی و سماجی بہتری کے لئے ایک تنظیم (تھنک ٹینک) کی تشکیل کی ضرورت

ہمارے محترم بزرگ جناب عالیجاہ حور شاہ صاحب نے اپنے ایک پوسٹ میں ہنزہ کے سیاسی و سماجی تنظیم کی تشکیل کے لئے پر خلوص تجاویز تحریر کی صورت میں پیش کی ہیں جن کی قدر کی جانی چاہیے۔ بلاشبہ، ہنزہ کے دانشوروں پر مشتمل فورم کی تشکیل وقت کی اہم ضرورت ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ قوموں نے ایسی تنظیموں کی تشکیل اور ان کی آراء، تجاویز اور کاموں پر عمل درآمد کے ذریعے ترقی کی منزلیں طے کی ہیں۔ ایسی تنظیموں کی کامیابی کا دار و مدار جمہوری اصولوں،  رواداری و روشن خیالی اور آزادی فکر و رائے  کی اقدار و روایات پر عمل کرنے پر ہے۔اس کے لئے کوشش پیہم اور صبر و تحمل کی بےحدضرورت ہوتی ہے۔

       جہاں تک ریاست کے خاتمے کے بعد ہنزہ میں سیاسی و سماجی اور انتظامی لحاظ سے خلا پیدا ہونے کی بات ہے تو یہ خلا،جو ہنزائیوں کا ذہنی اختراع تھا، اور کمزوری نہ حکومت وقت اور ملکی سیاسی نظام  کی خامی کی وجہ سے پیدا ہوئی اور نہ کسی دوسرے خارجی عوامل کے باعث۔ بلکہ ہنزہ کے لوگوں کی کم علمی، عاقبت نا اندیشی، کم ظرفی اور سب سے بڑھ کر روح عصر اور جمہوریت سے عدم واقفیت کے سبب دستیاب مواقع سے فائدہ نہ اٹھا سکنے کے باعث یہ خود ساختہ بے چینی پیدا ہوئی۔ آمریت کی جگہ جمہوریت قائم ہوئی تو یہ زریں موقع ہنزہ بلکہ پورے شمالی علاقہ جات کے پس ماندہ اور پسے ہوئے لوگوں کے لئے نوید جانفزا سے کم نہ تھا۔لیکن ستم ظریفی یہ ہوئی کہ ہنزہ کے لوگوں کی اکثریت، جس میں پڑھے لکھے لوگ بھی شامل تھے، نے جمہوریت اور انتخابات کے عمل کو "شیطانے شرو” یعنی شیطانی عمل سے تعبیر کیا۔ اور میری نظام،جو فرسودہ اور از کار رفتہ ہو کا تھا، کی قباحتوں اور بشر دشمنیوں کی عرصے تک قصیدہ خوانی کی جاتی رہی۔ اس کے نتیجے میں صحتمند جمہوری سیاسی نظام کی آبیاری نہ ہوسکی جس کا خمیازہ اہالیان ہنزہ اب تک بھگت رہے ہیں اور اپنے لئے” سیاسی یتیم” جیسی اصطلاحات بھی استعمال کر رہے ہیں۔

       اب وقت کا تقاضا ہے کہ ہنزہ والے روح عصر کو پہچان لیں، جمہوریت کے انسان دوست نظام کو جان لیں اور اس کے ثمرات کو سمیٹنے کی کوشش کریں ۔ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والی سیاسی، سماجی اور معاشی تبدیلیوں کو بھانپ لیں، رنگ و نسل، مذہب و مسلک اور زبان و علاقائیت کے امتیازات کو ختم کریں اور اجتماعی سوچ، سب کے مفادات، تنوع اور گوناگونی اور رواداری و روشن خیالی کو فروغ دیں۔ تب ایک صحتمند معاشرہ قائم ہوسکتا ہے اور ترقی پسند اور باوقار قوم تشکیل پا سکتی ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button