سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں توازن کا فقدان اوردیگر معاشرتی مسائل
بہت سے ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان کو بھی سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں توازن اور کام کرنے کا متوازن ماحول پیدا کرنے کے جیسےاہم چیلنجز کا سامنا ہے، جس کی وجہ سےاقتصادی، سماجی بہبود اور پائیدار ترقی کمزور اور بےیقینی کا شکار ہے۔ ان پیچیدہ چیلینز سے نمٹنے کے لیے، حکومت اور غیر سرکاری اداروں کے لیے ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنا اور مؤثر طریقے سےایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا بہت ضروری ہے۔ اپنی متعلقہ طاقتوں اور تجربوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، یہ دونوں ادارے باہمی اشتراک سےایک ایسے ماحول کو فروغ دے سکتے ہیں، جو کام کے توازن کو فروغ دے کر، افرادی قوت کو بااختیار بناتے ہوئے، معاشرے کو ایک خوشحال مستقبل کی طرف لے جاسکتے ہیں۔
مالی استحکام یا اپنے پیشہ ورانہ زندگی کو محفوظ بنانے کے لئے ہمارے زیادہ تر نوجوانوں کا رجحان سرکاری ملازمتوں کی طرف ہے، جس کی وجہ سے غیر سرکاری ادارے غیر محفوظ ہوتے جارہے ہیں۔ دوسری طرف لوگ مختلف کاموں کی تسلی بخش نتائج کے لیے غیر سرکاری اداروں کو ہی ترجیح دیتے ہیں، جن میں خود سرکاری ملازمین بھی شامل ہیں، خصوصاً تعلیم اور صحت کے معاملات کے لیے غیر سرکاری اداروں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ یہ رجحان سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں ایک خلا پیدا کر رہا ہے، جو خاموش قاتل کی طرح معاشرے کو تباہ کر رہا ہے۔
اس طرح کی ترجیحات اور رجحانات کے بہت سارے عوامل ہیں۔ غیر سرکاری ادارے اپنے اہداف و مقاصد کے حصول کے لیے کس طرح کام کرتی ہیں، یہ ہم سب کے سامنے ہے، جس میں غیر سرکاری اداروں کا ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کا رجحان، کام کے اوقات، کام کی طلب، پیشہ ورانہ ترقی کی کمی اور یقیناً تنخواہ اور غیر محفوظ پیشہ ورانہ زندگی شامل ہیں۔ یہی وہ رجحانات اور وجوہات ہیں، جو ان اداروں میں کام کرنے والے پیشہ ور طبقے کو سرکاری نوکری کی طرف رخ کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ غیر سرکاری اداروں میں کام کرنے والے وہ افراد جو درس و تدریس کے پیشے سے وابسطہ ہیں، انہیں سالانہ چھٹیوں کے دوران بھی مختلف ٹریننگ اور پیشہ ورانہ مہارت کے لیے گھروں سے دور جانا پڑتا ہے، جو ان کی ذہنی تناؤ میں اضافے کا باعث بنتاہے، کیونکہ دیہات میں کام کرنے والے بیشتر پیشہ ور اپنے پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ دن کے پچھلے حصے میں مخلتف کام بھی سر انجام دینے پڑتے ہیں، جن میں کھیتی باڑی اور چھوٹے چھوٹے کاروبار شامل ہیں، خصوصاً خواتین جن کو بچوں کی پرورش کے ساتھ گھر کے ذمہ داریاں بھی نبانی پڑتی ہے۔
دوسری طرف سرکاری ادارے ، جن کی کارکردگی میں بہتری آنے کا دور تک کو ئی امکان نظر نہیں آرہا، اور نتائج وقت کے ساتھ ساتھ اور برے اور بد سے بد تر ہوتے جارہے ہیں۔ یقیناً اس کے بھی اپنے وجوحات ہیں، مثلاً سرکاری اداروں کی ترجیحات، ٹریننگ کا فقدان، غیر سنجیدہ طرز حکمرانی، موثر نگرانی کی کمی، غیر موثر نظام، نصابی خامیاں، کرپشن اور بد عنوانی، تعلقات اور اقرابا پروری، غیر سنجیدہ رویے، احساس ذمہ داری کا فقدان، سیاسی، مذہبی اور نسلی مداخلت وغیرہ شامل ہیں۔
صورتحال وقت کے ساتھ ساتھ گھمبیر ہوتی جارہی ہے، جو سنبھلنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ متوازن اور پا ئید ار معاشی اور معاشرتی ترقی کے لئےضروری ہے کہ سرکاری اداروں میں کام کرنے والے ذمہ داران اس توازن کو پیدا کرنے اور اسے برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کرے، یہ ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے کہ ان اداروں میں، جہاں وہ کام کرتے ہیں، ان کی کارکردگی کو بہتر بنا ئیں اور ایسا سازگارماحول پیدا کرے، جہاں معاشرے کے متوسطہ طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں اور ان کے بچوں کا مستقبل بھی روشن اور تابناک نظر آ ئے ، اور ان کی تربیت اور مہارت کسی بھی طرح دوسرے لوگوں یا ان کے بچوں سے کم نہ ہو، تاکہ وہ بڑے ہو کر معاشرے کاایک ذمہ دار ، خود مختاراور خود دار رکن بن سکے۔
عموماً سرکاری اداروں اور اسکولوں میں وہی لوگ جاتے ہیں، جو قابل اور جن کے پاس پہلے سے مختلف غیر سرکاری اداروں میں کام کرنے کا تجربہ اور تربیت موجود ہوتا ہے۔ لہذا ان کے لیے کارکردگی دیکھانا اور اداروں یا اسکول کے ماحول کو بہتر کرنا اتنا مشکل کام نہیں، کیونکہ بہت سے پیشہ ور پہلے سےغیر سرکاری اداروں سے تربیت یافتہ اور اپنے پیشے میں غیر معمولی مہارت سے سرشار ہوتے ہیں۔ایسے پیشہ ور افراد نہ صرف ادارے کے ماحول، کام کی کارکردگی اور رفتار کو بہتر بنا سکتے ہیں ، بلکہ معاشرے کے دیگر عوامل جن میں والدین کی تربیت، گھر کا ماحول، غیر نصابی سرگرمیوں کا انعقاد اور دیگر معاشرتی، معاشی اور انسانی بہبود کے کاموں میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں، یہی وقت کا تقاضا ہے، اور یہی ایک متوازن اور سنجیدہ معاشرے کی ضمانت بھی۔
میرا یہ مضمون ان تمام پہلوؤں کا احاطہ تو نہیں کررہا، البتہ اس سے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں کام کرنے والے لوگوں اور اداروں کے بنیادی اہداف اور طریق کار کے اہم پہلوؤں کا ایک ہلکا سا خاکہ ضرور سامنے لا رہا ہے ۔ اور اگر میری یہ کوشش ان اداروں میں کام کرنے والے پیشہ ور طبقے کو اس طرف توجہ دلانے میں کامیاب رہی تو میں یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں کہ میں نے ایک اجتماعی مقصد اورمتوازن معاشرتی ترقی کی طرف اہم پیش رفت کر لی ہے۔