کالمز

آزادی کا فریب 

ہندوستان پر ہمیشہ سے غیر ملکیوں نے حکومت کی۔ غیر ملکیوں میں بھی زیادہ تر کمپنیاں ہی حکومت کرتی ہوئی آئی ہیں۔ ابتداء میں آریا ایک کمپنی کی شکل میں آئے اور یہاں کے مقامی دراوڑی کو مغلوب کیا۔ آریا نے دراوڑی پر مسلط مستقل بنیادوں پر مضبوط کرنے کے لئے مذہب کا سہارا لیا۔ یوں ان کو اچھوت قرار دے کر آریاؤں کی خدمت ان کا مذہبی فریضہ قرار پایا۔ ہزاروں سال گزرنے کے بعد جب آریا اور دراوڑی کا فرق مٹنے لگا ان میں قربتیں بڑھنے لگیں، اور یوں مساوات کا حامل معاشرہ وجود میں آنے لگا تھا تب بن قاسم کمپنی کی آمد آمد شروع ہو گئی۔ اس نئی کمپنی کے پاس بھی موثر ہتھیار مذہب ہی تھا۔ انھوں نے مذہب کا پوشاک اوڑھ کر تمام آریا و دراوڑی کو غلام بنانے کا خواب دیکھا۔ آہستہ آہستہ ان کے خوابوں کی تکمیل ہونی شروع ہو گئی۔ ان میں چھوٹی بڑی کمپنیوں کا حصہ رہا ہے۔ محمود کمپنی نے تو سترہ بار تماشا کھیلا ۔ خون کی ہولی کھیلی گئی۔ ایک وقت ایسا آیا ہندوستان کا ہر مفلس و نادار محمود کا نام سن کر خوف زدہ ہونے لگتاتھا۔ انھوں نے اپنے ہمراہ سپاہیوں کو مذہب کا زہر کا نشہ پلا کر ان کو وحشیانہ تشدد پر اکسایا۔ ان کا بنیادی مقصد بت شکنی نہیں تھا بلکہ سومنات کے مندر کے سونے جواہرات پر قبضہ جمانا تھا۔ سترویں دفعہ جب سونے کے جواہرات کا خزینہ ہاتھ لگ گیا تب کسی غلام کو حکومت سونپ کر خود غزنی میں رنگ رلیاں منانے چلے گئے اور پھر کبھی واپس نہیں آئے۔ 
جب محمود کمپنی کو زوال آیا تو غوری کمپنی کی آمد ہوئی اس کمپنی نے دہلی شہر کو غلام بنانے کی کامیاب کوشش کی۔ اسی اثناء میں خلجی کمپنی کا داخلہ ہوا اس کمپنی نے عورت کے لیے خون کی ندیاں بہا دی۔ اگر خلجی کمپنی کو جنسی مریضوں کی کمپنی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اب تک ہندوستان کو غلام بنانے کے تجربے ہو رہے تھے انھوں نے ہر ہندوستانی عورت کو لونڈی(رکھیل) بنانے کا خواب دیکھا۔ تشویش ناک بات یہ ہے اس کمپنی کے پاس موثر ترین ہتھیار مذہب ہی تھا۔ تغلق کمپنی کی جب حکومت آئی تو انھوں نے دکن کو غلام بنانے کی ضرورت محسوس کی یوں بقائے انسان کا نعرہ لگاتے ہوئے آئی ہوئی سبھی کمپنیوں کی تھوڑی تھوڑی کوششوں سے پورا ہندوستان غلامی کے طوق گلے میں ڈال کر ان کے آگے سر تسلیم خم ہونے پر مجبور ہو گیا۔ 
یوں تو چھوٹی بڑی بہت ساری کمپنیاں ہندوستان کو غلام بنانے میں مصروف تھی مگر پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر جس مغل کمپنی نے بادشاہت کا آغاز کیا اس سے مذہبی فریب سب پر عیاں ہو گیا۔ لوگوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب دیکھا گیا کہ ایک ہی مذہب کی دو کمپنیاں آپس میں اقتدار کی جنگ لڑ رہی تھیں اور جو مذہب کا لبادہ اوڑھ کر فریب کاری کی تھی اس کا پردہ پانی پت کے میدان میں چاک ہوا۔ مغل کمپنی نے ہندوستان کو سب سے زیادہ عرصے کے لیے غلام بنائے رکھا۔ ان کے درباروں میں کمپنی کے ملازمین کی اکثریت غیر ملکی تھے۔ مقامی غلاموں کو درباروں اور امور حکومت میں شمولیت اختیار کرنے کے مواقع عنقا تھے۔ زمینیں مقامیوں کی تھیں علاقہ ان کا تھا مگر بادشاہت کسی غیر ملکی کمپنی کی تھی جس وجہ سے غلاموں کے حقوق پامال ہوتے رہتے۔ 
سترویں صدی میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی آئی تب مغل کمپنی کا تسلط کم سے کم ہوتی چلا گیا اور آہستہ آہستہ ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستانیوں کو اپنا غلام بنانے کی کوشش کرنے لگی۔1757ء جنگ پلاسی کے بعد بنگال و اطراف کے مقامیوں کو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنا غلام بنا لیا تھا مگر 1857ء میں پورے ہندوستان کے سیاہ و سفید کا مالک قرار پائی۔ باقی کمپنیوں کے لیے مذہب بہترین ہتھیار تھا جس کے ذریعے سے لوگوں کو پابند کیا جا سکتا تھا مگر ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد خالص منافع پر رکھی گئی تھی تبھی تو اس کمپنی نے لوگوں کے ذہنوں کو منافع کی شرح کا دلدادہ بنا دیا۔ پہلے پہل اس کمپنی کی اجنبیت کو سبھی ہندوستانی غلاموں نے محسوس کیا مگر ایک گروہ جو ایک ہزار سالوں سے غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھا ان کو کمپنی کے بدلنے سے زیادہ تکلیف نہیں ہوئی تھی۔ دوسرا گروہ جنھوں نے ہندوستان پر ہزار سالوں سے بادشاہت کی تھی۔ ان کے لیے اپنی غلامی قابل قبول نہ تھی مگر حقیقت سے انحراف کرنے کی کوشش بھی سعی لاحاصل سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ 
ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئی اور انھوں نے چند معاملات کے سوا باقی ملکی امور میں ہندوستانیوں کی رائے کی پاسداری نہیں کی ۔ مقامیوں کے انتخاب سے کوئی بادشاہ بنتا تھا نہ کوئی سربراہ،  انھیں ریاستی امور سے بے دخل رکھا۔ ان مقامیوں کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ ملکہ وکٹوریہ کے بعد ہمارا آقا کون بنے گا۔ غلام قوموں سے ان کی رائے نہیں پوچھی جاتی بلکہ ان پر ہر صورت میں اپنی رائے مسلط کی جاتی ہے یہی کچھ کمپنی کی حکومت نے کیا۔ یوں تو تمام ہندوستانی اعلانیہ غلام تھے مگر ان کو کسی حد تک شخصی آزادی بھی دی ہوئی تھی، ان کی ذاتی زندگی میں کمپنی کم از کم مداخلت دیتی تھی۔ کسی نہ کسی اقدار کی پاسداری کا خاکہ بھی بنا ہوا تھا اس خاکے پر چلنا کمپنی بہادر اپنی ذمہ داری سمجھتی تھی۔ ہندوستانیوں نے جب کمپنی بہادر سے آزادی کے لیے جدوجہد کی تو ان کے مقبول رہنماؤں کو کم از کم قتل نہیں کروایا۔ غلامی کے دور میں بھی غور و فکر کی آزادی تھی، آزادئ اظہار رائے کی پاسداری بھی کسی حد تک ہوتی تھی۔ سیاسی جلسے جلوسوں پر قدغن نہیں لگائے جاتے تھے۔ قابلیت کی قدر کی جاتی تھی تبھی تو اختلافات کے باوجود بھی اقبال کو سر کا خطاب دیا۔ کبھی قائد اعظم اور علامہ اقبال کو تاحیات نا اہل نہیں قرار دیا گیا۔ ان سہولیات کے ساتھ ساتھ ہندوستان ترقی بھی کر رہا تھا۔ اگر ہم آج بھی کمپنی بہادر کے غلام ہوتے تو یقینا ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوتا۔ ان سب کے باوجود کمپنی بہادر کی سب سے بڑی زیادتی یہ تھی کہ انھوں نے رعایا کو کبھی غلامی سے آزاد کرا کر وہ بنیادی آزادی نہیں دی جو کہ باقی برطانوی عوام کو حاصل تھی۔ 
اب جب معاملات سنگین ہو گئے تو کمپنی بہادر نے ہندوستان سے جانے کا فیصلہ کیا مگر اس بار دو مذاہب کی جڑیں اس قدر مضبوط ہو چکی تھیں کہ ان دونوں مذاہب نے آپس میں تفرقہ پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جو قوم پانچ ہزار سالوں سے ایک ساتھ اتحاد کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہوئے آرہی تھی اب ان کا ساتھ ساتھ رہنا محال ہو گیا۔ دونوں مذاہب نے خونی رشتوں کو بھی آپس میں توڑ دیا یوں ایک بار پھر مذہب کی سرپرستی میں خون کی ندیاں بہائی گئیں۔ 
14، اگست 1947ء کو گو کہ پاکستان آزاد ہوا ممکنہ طور پر حقیقی آزادی ملی ہو گی یا جنھوں نے آزادی کا خواب دیکھا تھا انھوں نے یقینا حقیقی آزادی کا ہی خواب دیکھا ہوگا مگر افسوس وہ خواب آج تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوا۔ جنھوں نے آزادی کے لیے جدوجہد کی، جانوں کا نذرانہ پیش کیا، اپنی مٹی کی قربانی دی، ان گلیوں کو مکمل خیرباد کہا جن گلیوں سے سدا ساتھ رہنے والی یادیں وابستہ تھیں۔ جب نئے ملک میں خوابوں سے عبارت آنکھیں کھولنے کی کوشش کی تو فضا یکسر بدل چکی تھی۔ گو کہ یہاں سے گورے انگریز چلے گئے تھے مگر ان کی طرز حکومت کی جانکاری رکھنے والے کالے انگریزوں نے ایک نوزائیدہ ملک کو دوبارہ سے غلام بنانے کی ساری تیاریاں کر رکھی تھیں۔ پاکستان چند لمحات کی حقیقی آزادی کے بعد مستقل طور پر غیر اعلانیہ غلام بن گیا۔ اب کے بار پاکستانیوں نے خود کو آزادی کے فریب میں مبتلا رکھا بلکہ کالے انگریزوں نے اپنی کمپنی کو رجسٹرڈ نہیں کروایا،  انھوں نے اعلانیہ نئی کمپنی کی حکومت کا اعلان نہیں کیا بلکہ مسند پر کٹ پتلے بٹھا کر رعایا کو مصنوعی آزادی کا فریب دیا۔ ان کالے انگریزوں نے اپنی بادشاہت قائم رکھنے کے لیے پاکستان کے معماروں کو ہی راستے سے ہٹا دیا تاکہ بغیر کسی رکاوٹ کے خود کالے انگریز بن کر نئی کمپنی بہادر کی طرز حکومت کو اپنایا جا سکے۔ عوامی شعور بیدار ہونے لگا تو نئی کمپنی بہادر نے مذہب کارڈ کا استعمال اس قدر کیا کہ عوام ان رنگ برنگے کارڈوں کی بحثوں میں الجھ گئے اور نئی کمپنی پرانی غلامی کا طوق اترنے کے بعد بآسانی نئی غلامی کے طوق عوام کے گلے میں ڈالنے میں کامیاب ہو گئی۔ 
پاکستان کو شاید مکمل آزادی کبھی ملی ہی نہیں لیکن آزادی کے فریب میں ابھی تک مبتلا رکھا ہے۔ پاکستانی اپنی مرضی سے سوچ نہیں سکتے، بول نہیں سکتے، لکھ نہیں سکتے، فکر نہیں کر سکتے، خیالات کی تشہیر نہیں کر سکتے، کوئی کام اپنی مرضی سے کر نہیں سکتے، اپنی مرضی سے عروج پانا ممکن ہے نہ زوال، یہاں کالے انگریزوں کی اجازت کے بغیر خود کشی بھی نہیں کر سکتے۔ مسلمانوں کے رب کی تمام تر خصوصیات ان کالے انگریزوں میں دیکھی جا سکتی ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ بااختیار ہوں گی۔ گورے انگریزوں کی کمپنی کے دور میں ان غلاموں کو جتنی آزادی اور سہولیات میسر تھیں اتنی آزادی اور سہولیات اب کالے انگریزوں کی کمپنی کے دور حکمرانی میں پاکستانی غلاموں کو حاصل نہیں ہیں۔ 
اس پس منظر کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی عوام حقیقی آزادی سے محروم اور غیر اعلانیہ غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم ہو رہے ہوں، ان مظلوموں کے حق میں آواز اٹھانا سب کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ دنیا میں جیسی بھی غلامی ہو چاہے وہ مذہب کے نام پر ہوں،  ثقافت کے نام پر ہوں یا کسی اور نام پر غلامی لعنت ہے اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ جن اقوام نے جیسی بھی صورت میں دوسری قوموں کو غلام بنایا ہے وہ کسی لعنت سے کم نہیں ہے۔ لہذا 14  اگست کا دن متنازعہ گلگت بلتستان اور مقبوضہ کشمیر کے عوام پر فرض بنتا ہے کہ وہ پاکستانی غلاموں کے حق میں آواز اٹھائیں۔ یہ دن پاکستان کی آواز بننے کا دن ہے ان کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے کا دن ہے۔ گو کہ گلگت بلتستان والوں اور جموں کشمیریوں کو پاکستانیوں سے بہت سی شکایتیں ہوں گی ان شکایتوں کا اظہار کسی اور دن کر سکتے ہیں مگر پاکستانیوں نے بھی کبھی نہ کبھی ان کے حق میں آواز اٹھائی ہوں گی، اگر نہیں اٹھائی تو اب جب وہ آزاد ہوں گے تب یقینا ان کی آزادی کے لیے آواز اٹھائیں گے۔ اسی امید پہ 14 اگست کو سارے گلے شکوے بھلا کر مقبوضہ علاقوں کو پاکستانی غلاموں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔ مقبوضہ گلگت بلتستان اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کالے انگریزوں کی جانب سے پاکستانی غلاموں پر مسلط کی ہوئی اس غیر اعلانیہ غلامی کو غیر قانونی،  غیر اخلاقی،  غیر انسانی قرار دیتے ہوئے اس فعل کی مذمت کریں گے۔ 14 اگست کے اس خاص موقعے پر پاکستان کی حقیقی آزادی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ متنازعہ علاقوں کی تمام تر ہمدردیاں ان غلاموں کے ساتھ ہوں، ان کی آزادی کے لیے کالے انگریزوں کے خلاف جنگ میں ہر قسم کے تعاون کا یقینی بنایا جائے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button