کالمز

ذہنی صحت کو جی بی حکومت اپنی ترجیحات میں شامل کرے

 

محکمہ سوشل ویلفئر گلگت بلتستان کے زیر اہتمام مقامی صحافیوں کے لئے ذہنی صحت اور خودکشیوں سے متعلق حساس رپورٹنگ کے موضوع پر پریس کلب گلگت میں تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ جس میں راقم کو بھی اظہار خیال کا موقع ملا۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں ڈھائی کروڑ لوگوں کو ذہنی امراض لاحق ہیں اور ان کے باقاعدہ علاج کی ضرورت ہے لیکن پورے پاکستان میں ذہنی امراض کے علاج کی سہولیات ناکافی ہیں۔ چوبیس کروڑ لوگوں کے ملک میں ذہنی امراض کے علاج کے لئے صرف تین سرکاری ہسپتال اور پانچ سو ذہنی امراض کے ماہرین ہیں۔

پاکستان میں ذہنی صحت کو مسلہ ہی نہیں سمجھا جاتا ہے کیونکہ ہماری عام آبادی کو اس کی معلومات نہیں ہیں۔ ذہنی امراض کے ماہرین کی خلا کو جعلی پیروں، جعلی طبیبووں ، جادو ٹونہ کرنے والے ، دم کرنے والے اور مزاروں پر بیٹھے ہوئے ملنگوں نے پر کیا ہے۔

دنیا بھر میں جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہنی صحت سے متعلق ایک مربوط نظام پایا جاتا ہے جبکہ پاکستان اس سے یکسر محروم ہے۔ جو کہ پاکستان کی ترقی میں براہ راست ایک بڑی روکاوٹ ہے۔ یہاں پالیسی سازی کی سطح پر ذہنی صحت کی طرف توجہ ہی نہیں دی گئ ہے جس کی وجہ سے ڈھائی کروڑ لوگوں کو علاج کی ضرورت ہے جبکہ دیگر ذہنی مسائل کے شکار افراد کی تعداد اس سے کئ گنا زیادہ ہے۔ جس کا واضع ثبوت معاشرے میں پائے جانے والے پر تشدد رویے ہیں۔

ماہرین کے مطابق گلگت بلتستان میں خودکشی ، گھریلو تشدد اور دیگر کئ سماجی مسائل کے پیچھے ذہنی صحت کے عوامل کارفرما ہیں۔ ذہنی صحت سے متعلق ایک تو عام لوگوں میں آگاہی کی کمی ہے دوسرا اس کو لوگ اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ جس طرح جسمانی بیماری یعنی بخار وغیرہ کا ذکر آرام سے کیا جاتا ہے اس طرح ذہنی امراض کا بھی عام طور پر بغیر کسی شرم کے ذکر کیا جاسکتا ہے۔ جس کے بعد اس کا علاج ممکن ہے۔ ذہنی امراض کی اقسام ہوتی ہیں ابتدائی طور پر بغیر علاج کے اپنے روٹین میں تبدیلی لاکر اور صحت مند سرگرمیوں کے ذریعہ اپنی صحت کو بہتر کیا جاسکتا ہے یہ کام ذہنی صحت کے کونسلرز کرتے ہیں۔ اگر ذہنی مرض برقرار رہے تو اس کے لئے سائکالوجسٹ تھراپیز کراسکتے ہیں اور مرض زیادہ پیچیدہ ہوجائے تو اس کا باقاعدہ ٹسٹ کرائے جاتے اور دوائی دی جاتی ہے جو کہ سکائیکاٹرسٹ کا کام ہوتا ہے۔

گلگت بلتستان میں ذہنی امراض سے نمٹنے اور ذہنی صحت سے متعلق آگاہی کے لئے کوئی مراکز نہیں ہیں۔ محکمہ صحت، سوشل ویلفئر، آغاخان ہیلتھ ، روپانی فاونڈیشن جیسے دیگر اداراے کچھ کوششیں کر رہے ہیں وہ ناکافی ہیں۔ اب اس سے آگے بڑھ کر حکومت کو اس ضمن میں اہم اقدمات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ جیسے ذہنی صحت سے متعلق پالیسی بنائی جائے، ذہنی صحت کوبنیادی انسانی حق کا درجہ دیا جائے، ذہنی امراض کے علاج کا ہسپتال قائم کیا جائے، میڈیا میں اس سے متعلق آگاہی پروگرامز کئے جائیں اور گاوں سطح تک ذہنی صحت کے مراکز قائم کئے جائیں۔

غذر میں کافی عرصے سے مختلف سٹیک ہولڈرز کی کوششوں کے نتیجے میں صورتحال کافی بہتر ہوئی ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ ماضی کی نسبت اس سال غذر سے خودکشی کے واقعات کم رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ دہگر اضلاع سے کافی رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود ابھی غذر سمیت دیگر تمام اضلاع میں ذہنی صحت سے متعلق بہت زیادہ کام کرنا باقی ہے۔ ضلع غذر میں معروف سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر فرزانہ بہت کم وسائل کے باوجود ایک جذبے کے تحت کام کرہی ہے اسی طرح دیگر ادارے بھی اپنے محدود وسائل میں کوششیں کر رہے جو کہ لائق تحسین ہے۔ حکومت گلگت بلتستان کو چاہئے کہ وہ ذہنی صحت کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے اور اس کے لئے ٹھوس اقدامات بروئے کار لائے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button