گلگت بلتستان کے کسی دشوار گزار ، دور افتادہ اور پسماندہ دیہات کی بات نہیں ہورہی بلکہ گلگت شہر کے وسط میں واقع نور کالونی جوٹیال کی بات ہورہی ہے۔ یہاں قائم گرلز پرائمری سکول کی خستہ حالی دیکھ کر سیلاب یا قدرتی آفات کی نذر ہونے والی ایک اجڑی بستی کے ٹینٹ سکول کا گمان ہوتا ہے . یہ سکول کسی اجڑی بستی میں واقع نہیں ہے بلکہ جی بی اسمبلی کی لش پش اور اجلی عمارت، اس کے پہلو میں واقع سپریم اپیلٹ کورٹ کی فن تعمیر کی شاہکار عمارت اور ان دو نوں عمارتوں کے درمیان پوڈر سرخی لگا کر تیار کی گئ گلگت بلتستان الیکشن کمیشن کی دلفریب عمارت کے بالمقابل نور کالونی میں واقع ہے۔ حکام کی نظر وں سے جس طرح کھاری بسین سے لے کر کھاری جوٹیال، دیامر کالونی سے لے کر سکار کوئی ، کنوداس، نلتر، گجر داس ، مناور، سکوار ، دنیور سمیت گلگت کے مضافات کی غریب آبادیاں اوجھل ہیں اسی طرح یہ سکول بھی ان کی نظروں سے اوجھل ہے۔ اس سکول میں کھاری جوٹیال اور آس پاس کی نو آباد کچی آبادیوں کے غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والی تین سو کے قریب بچیاں زیر تعلیم ہیں۔ یہ سکول ١٩٩٨ میں قائم ہوا تھا تب نور کالونی کی آ بادی چند گھرانوں پر مشتمل تھی۔ اب یہ ایک گنجان آباد کالونی ہے۔ چودہ اساتذہ اس ٹینٹ سکول میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔ ان کی زبانی سکول کی ناگفتہ بہہ حالت زار کے قصے سنیں تو بندہ چکرا جاتا ہے۔ نہ تو ٹینٹ قابل استعمال حالت میں ہیں۔ نہ بیٹھنے کے لئے دریاں یا مناسب حالت کی کرسیاں ہیں۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ گذشتہ روز تیز بخار کے باعث اسی سکول کا نرسری کا ایک بچہ جانبحق ہوا تھا۔ ان کے اہل خانہ کو بچے کی لاش اٹھانے کے لئے بلایا گیا تو والدین کے پاس ٹیکسی کا کرایہ نہیں تھا جو کہ پرنسپل نے اپنی جیب سے ادا کیا تھا۔ گذشتہ سال ایک بچہ اسی سکول میں سردی کی وجہ سے نمونیا کے مرض میں مبتلا ہوکر جاں بحق ہوگیا تھا۔ اس سکول میں ہٹنگ کا انتظام تو دور کی بات ہے اساتذہ کو چند لمحات سکون سے بیٹھ کر بات چیت کرنے کے لئے سٹاف روم تک کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ بقول طالبات پچھلی دفعہ ٹینٹ کا ڈنڈا سر پر لگنے سے ایک ٹیچر شدید ذخمی بھی ہوگئ تھیں۔
گلگت شہر میں ایک طرف جدید ،بلند و بالا اور حسین و جمیل عمارتوں پر مشتمل سکولز ہیں جہاں صاحب ثروت لوگوں کے بچے تیس تیس ہزار فیس ادا کرکے انگلش زبان میں تعلیم حاصل کرتے ہیں دوسری طرف سرکار کا یہ ٹینٹ سکول ہے جس میں تعلیم مفت ہے لیکن یہاں غریبوں کی وہ بچیاں علم کی روشنی سے مستفید ہونے کی سعی مسلسل کر رہی ہیں جن کو دو وقت کی روٹی ڈھنگ سے میسر نہیں ہے۔ معاشرے میں عدم مساوات کی یہ ایک بھیانک تصویر ہے جس کا خمیازہ بہر صورت پورے معاشرے کو مستقبل میں بڑھتے ہوئے جرائم کی صورت میں بھگتنے کے تیار رہنا چاہئے۔
ہم گلگت بلتستان میں ایک طرف ڈیڑھ لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہونے ، پچاس ہزار بچوں کا کم عمری کی مشقت اٹھانے اور بھیک مانگنے والے بچوں کی تعداد میں روز افزوں اضافے کا رونا روتے ہیں دوسری طرف جو انتہائی غریب گھرانوں کے بچے اور بچیاں تعلیم کی طرف رغبت رکھتے ہیں ان کے ساتھ یہ ناروا سلوک دیکھ سوائے سر پیٹنے کے اور کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔
آج کل گلگت بلتستان میں تعلیم کے شعبے میں نمایاں تبدیلیوں کے چرچے پورے ملک میں ہورہے ہیں۔ چیف سکریٹری صاحب اس ضمن میں چہار دانگ عالم شہرت حاصل کر چکے ہیں ۔ ایسے میں ان کی ناک کے نیچے ایک سکول کی یہ خستہ حالی انتہائی تشویشناک ہے۔
لہذا وزیر تعلیم گلگت بلتستان غلام شہزاد آغا صاحب اور چیف سکریٹری گلگت بلتستان محی الدین وانی صاحب کو چاہئے کہ وہ دونوں اس سکول کا بنفس نفیس دورہ کریں۔ عمارت فوری بنانا ناممکن ہے تاہم مناسب ٹینٹ، دریاں اور کرسیاں سمیت سکول کے لئے سٹاف روم ، ہٹنگ، ٹائلیٹس سمیت دیگر بنیادی ضروریات فی الفور فراہم کی جائیں۔ اگر اس سکول میں تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے مسائل ہیں تو اس ایریا میں دوسرا سکول فوری طور پر منظور کیا جائے تاکہ غریبوں کے یہ بچے تعلیم جیسے بنیادی انسان حق کے حصول میں کامیاب ہوسکیں۔
یہ بات یقینی ہے کہ شہر میں ایسے کئ سرکاری سکول ہیں جن کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے لیکن شروعات اس سکول سے کی جائیں جہاں کی بچیاں انتہائی کسمپرسی میں تعلیم کی پیاس بجھانے کی تگ و دو کر رہی ہیں۔