کالمز
گلگت کی طرف عوامی لانگ مارچ کی شروعات
تحریر۔ اشفاق احمد ایڈوکیٹ
گلگت بلتستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک قومی تحریک کا آغاز 1970 کے عشرے میں فرنٹیر کرائمز ریگولیشنز نامی کالے قانون کےخلاف شروع ہوئی اور یہ تحریک عوامی طاقت سےکامیاب ہوئی ۔
1949ء سے گلگت بلتستان میں لاگو ایف سی آر نامی اس سیاہ قانون کے تحت عوام کے تمام تر بنیادی انسانی جمہوری، سیاسی و معاشی حقوق سلب کئے گئے تھے، مگر ایک مضبوط عوامی تحریک کی وجہ سے نہ صرف ایف سی آر کا خاتمہ ہوا بلکہ اس خطے میں سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہوا اس سے قبل اس خطہ میں بنیادی انسانی حقوق کے ساتھ سیاست پر بھی مکمل پابندی تھی۔
واصغ رہے اس عوامی تحریک کی وجہ سے وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے گلگت بلتستان دورہ کرکے ایف سی آر کا کالا قانون ختم کیا اور خطہ کی پسماندگی اور عوامی محرومیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے 1972 کے بعد یہاں کے باسیوں کو 7 مختلف اشیاء پر سبسڈی دیا تھا جن میں، ہوائی سفر ،گندم پر سبسڈی،مٹی کا تیل، خشک دودھ، خوردنی گھی ، طلباء کو پاکستان کی کالجوں اور اور یونیورسٹیوں میں سکالر شپ اور نمک پر سبسڈی شامل تھی۔
بعدازاں پاکستان کے سابق آمر ضیا الحق نے ان میں سے 6 اشیاء پر سبسڈی ختم کیا، صرف گندم پر سبسڈی برقرار رکھی۔
وقت گزرنے کے ساتھ مختلف حکومتوں نے گندم سبسڈی بھی ختم کرنے کی کوششیں کی مگر عوامی مزاہمت کی وجہ سے ناکام رہے، مثال کے طور پر سابق وزیر اعلی گلگت بلتستان مہدی شاہ کے دور حکومت میں گندم سبسڈی کا خاتمہ اور عوام پر ٹیکس لگانے کی حکومتی کوشش کو عوام نے ایک عوامی تحریک کے ذریعے واپس لینے پر مجبور کیا، اس دوران 12 دن تک عوام نے پورے گلگت بلتستان میں تحریک چلائی اورگلگت بلتستان کے مختلف اضلاع سے عوام پیدل لانگ مارچ کر کے گلگت پہنچ گئے جس کے بعد حکومت اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہوئی۔
لیکن خالد خورشید کے دور حکومت میں بھی گندم کی سبسڈی ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور گندم کی قیمت میں اضافہ کیا گیا لیکن عوامی مزاہمت کی وجہ سے مکمل طور پر سبسڈی ختم کرنے میں حکومت ناکام رہی ۔
خالد خورشید کی حکومت ختم ہونے کے بعد ایک بار پھر سے گلگت بلتستان کی موجودہ مخلوط حکومت نے سکردو میں کابینہ کی اجلاس میں گندم سبسڈی کو نہ صرف کم کیا بلکہ قیمتوں میں 150 گناہ اضافہ کا اعلان کیا جس پر گلگت بلتستان میں بڑی تعداد میں مظاہرے شروع ہوئے، عوامی ردعمل کی وجہ سے حکومت نے قیمتوں میں کچھ کمی کا اعلان کیا مگر عوام نے اس فیصلہ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے باقاعدہ احتجاج شروع کیا اور گزشتہ ایک ماہ سے پورے گلگت بلتستان کے دس اضلاع میں عوام متحد ہوکر سراپا احتجاج ہیں مگر حکومت نے اس مسئلہ پر توجہ نہیں دی اور یہ مسئلہ حل کرنے میں ناکام رہی۔
طویل دھرنوں کے بعد اب عوام نے مختلف اضلاع سے گلگت بلتستان کے دارالخلافہ گلگت کی طرف لانگ مارچ شروع کیا ہے، اس وقت ہزاروں کی تعداد میں لوگ نگر، ہنزہ غذر ، اور داریل سے گلگت کی طرف مارچ کر رہے ہیں ۔
اب عوامی مطالبات صرف گندم سبسڈی تک محدود نہیں بلکہ وہ عوامی ایکشن کمیٹی کے دیئے ہوئے 15نکاتی ایجنڈے پر عمل درآمد کا مطالبہ کر رہے ہیں ، عوامی ایکشن کمیٹی کے اعلان پر گزشتہ دو دنوں سے پورے گلگت بلتستان میں ایک تاریخی شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کامیاب رہی اور اب لانگ مارچ شروع ہوئی ہے۔
بقول عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے سربراہ احسان علی ایڈوکیٹ ، گلگت بلتستان میں جاری یہ تحریک ایک پر امن عوامی تحریک ہے جس کے اہم ترین 15 مطالبات میں گندم سبسڈی کی سابقہ حالت میں بحالی ، گلگت بلتستان فنانس ایکٹ 2023 کا خاتمہ، خالصہ سرکار قانون کا خاتمہ، گلگت بلتستان کے معدنیات کو غیر مقامی افراد کو دیئے گئے تمام لیز کا خاتمہ اور دیامر بھاشا ڈیم کی رائلٹی میں گلگت بلتستان کو 80 فیصد رائلٹی کا حصول ،
گلگت بلتستان میں روزانہ 22 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ، سی پیک میں گلگت بلتستان کے حصہ کا تعین ،گلگت بلتستان میں میڈیکل اور انجینئرنگ کالج کا قیام، کے علاوہ موجودہ نام نہاد اسمبلی کی جگہ گلگت بلتستان آئین ساز اسمبلی کا قیام سرفرست ہیں، انہوں نے کہا کہ آرڈر 2009 اور 2018 کے صدارتی حکم ناموں کا فارمولا ناکام ہوا ہے لہذا گلگت بلتستان کے مسائل کے حل کے لیے اس خطہ میں ایک آزاد آئین ساز اسمبلی کا قیام عمل میں لانا وقت کی اشد ضرورت ہے ۔
واضح رہے آرڈر 2018 کے خلاف گلگت بلتستان میں بہت سخت احتجاج ہوا تھا اور قوم پرست لیڈر نواز خان ناجی نے گلگت بلتستان اسمبلی میں پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے سامنے اس صدارتی آرڈر کو پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کرکے میٹنگ کا بائیکاٹ کیا تھا۔
بعدازاں 17 جنوری 2019 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے سول ایویشن اتھارٹی بنام سپریم اپیلیٹ کورٹ نامی کیس میں آرڈر 2018 کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ایک نیا آرڈر 2019 کو 15 یوم کے اندر اندر گلگت بلتستان میں لاگو کرنے کا حکم دیا تھا جس پر وفاقی حکومت نے تاحال عملدرآمد نہیں کیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے اس سے قبل بھی سپریم کورٹ آف پاکستان نے 1999 میں گلگت بلتستان کے متعلق ایک فیصلہ دیا تھا جس پر چھ ماہ کے اندر عملدرآمد کرنے کا حکم دیا تھا مگر سپریم کورٹ آف پاکستان کے ان فیصلوں پر کھبی بھی عملدرآمد نہیں ہو سکا نتیجتا گلگت بلتستان کو صدارتی حکم نامے کے تحت ہی چلایا جاتا ہے۔
ان صدارتی حکم ناموں میں اختیارات کا مرکز وزیر اعظم پاکستان ہے جبکہ گلگت بلتستان اسمبلی کے پاس آرڈر 2018 میں ترمیم کرنے کا اختیار بھی نہیں ہے نہ ہی اس آرڈر کو گلگت بلتستان چیف کورٹ یا گلگت بلتستان سپریم اپیلیٹ کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے ۔
اس لئے آج اکیسویں صدی میں بھی گلگت بلتستان میں عوام کے بنیادی انسانی حقوق کو آئینی تحفظ حاصل نہیں ہے۔
اس وقت گلگت بلتستان عوامی ایکشن کمیٹی کے کال پر عوامی ریلیاں گلگت کی طرف لانگ مارچ کر رہی ہیں اور عوامی احتجاج شدت اختیار کر چکی ہے۔
اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے حکومت نے گزشتہ دو دنوں سے پورے گلگت بلتستان میں ایس کام نیٹ ورک کے تحت چلنے والے انٹرنیٹ سروس اور فون سروس معطل کیا ہے، جس پر گلگت بلتستان کے سینئر صحافی منظر شگری نے رد عمل دیتے ہوئے شوشل میڈیا میں طنزیہ طور پر لکھا کہ "گلگت بلتستان میں شٹر ڈاؤن، پہیہ جام ہڑتال کے ساتھ ہی ایس کام نیٹ ورک نے گلگت بلتستان کے عوام سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اپنا انٹرنیٹ اور فون سروس معطل کیا ہے”۔
دوسری طرف گلگت بار ایسوسی ایشن نے عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ایک قرادار منظور کیا ہے اور ایکشن کمیٹی کے چارٹر آف ڈیمانڈ کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے اور موقف اختیار کیا ہے وفاقی حکومت پاکستان اور حکومت گلگت بلتستان فوری طور پر گلگت بلتستان میں گندم سبسڈی کو سابقہ حالت میں بجال کریں اور عوام کو بنیادی انسانی جمہوری حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔
گذشتہ ایک ماہ سے گندم سبسڈی پر جاری عوامی احتجاجی مظاہروں کی شدت کو دیکھتے ہوئے گلگت بلتستان کونسل کے مقامی ممبران نے صدر پاکستان سے ملاقات کے لئے درخواست دی ہے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کونسل کے ممبران نے کہا کہ گندم سبسڈی کے حکومتی فیصلے میں ان سے کسی قسم کی مشاورت نہیں کی گئی ہے۔
بقول ایوب شاہ ممبر جی بی کونسل "ہمیں اس بات پر بہت افسوس ہو رہا ہے کہ ہمیں اسلام آباد سے پنڈی میڑو بس سروس کے برابر بھی نہیں سمجھا جا رہا ہے انہیں صرف میڑو بس سروس پر 80 ارب روپے کی سبسڈی دی جاتی ہے جبکہ گلگت بلتستان کے 20 لاکھ عوام کو 15 ارب کی سبسڈی نہیں دیتے ہیں جو کہ بہت تشویش ناک عمل ہے،،۔
اس وقت پورے گلگت بلتستان میں ایک بے چینی کی لہر پھیل گئی ہے لوگ گزشتہ ستر سالہ محرومی کا کھل کر اظہار کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ حکومت وقت غریب عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ بھی چھینے کے درپے ہے لیکن وہ بھرپور مزاحمت کے ذریعے حکومت کے اس انسان دشمن پالیسی کو واپس لینے پر مجبور کریں گے۔
اس تمام تر صورتحال کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ گلگت بلتستان کی قوم میں شعور بیدار ہوا ہے، ہر انسان اپنا حق مانگ رہا ہے، ہر شخص بنیادی انسانی حقوق کا تقاضا کر رہا ہے یہ ایک سیاسی شعور ہے جو بیدار ہو چکا ہے یہ سیاسی بیداری کا محض ارتقا ہے اس ارتقائی عمل میں نوجوانوں کا کردار بہت کلیدی ہے جو اس عمل میں بھرپور شرکت کر رہے ہیں۔
اس خطے کی معروضی حالات دیکھا جائے تو بلتستان ریجن اور ڈسٹرکٹ غذر میں سیاسی شعور کافی زیادہ ہے لیکن اس بار خلاف توقع ڈسٹرکٹ نگر سے عوام نے ایک تاریخی مزاہمت شروع کی ہے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے گلگت کی طرف لانگ مارچ شروع کی ہے جبکہ ضلع غذر سے اس سے قبل بھی عوام نے گلگت کی طرف پیدل مارچ کیا تھا اس وقت بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے گاڑیوں پر اور پیدل گلگت کی طرف مارچ شروع کیا ہے، داریل کی طرف سے عوام نے گلگت کی طرف مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
گلگت بلتستان کی سیاست میں بلتستان ریجن کا اہم کردار ہے وہاں سخت سردی کے باوجود گزشتہ ایک ماہ سے ہزاروں کی تعداد میں عوام سڑکوں پر روزانہ کی بنیاد پر احتجاج کر رہے ہیں، اور گندم سبسڈی کو سابقہ حالت میں بجال کرنے اور صحت کارڈ کی فوری طور پر بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں ، وہ اپنے حالت زار کا ذکر کرتے ہوئے انڈین زیر قبضہ لداخ کے لوگوں مختلف اشیاء پر حاصل سبسڈی کا ذکر کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں گندم کی سبسڈی کو سابقہ شکل میں فوری طور پر بحال کی جائے۔
واضح رہے اس سے قبل بھی مختلف اوقات میں بلتستان ریجن کے عوام نے کارگل کی طرف لانگ مارچ کرنے کے اعلانات کرتے رہے ہیں۔
اس عوامی مزاحمتی تحریک کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ اس احتجاج میں شامل لوگوں کی اکثریت غریب عوام پر مشتمل ہیں جو گلگت بلتستان کے دور دراز دیہاتوں سے سخت سردیوں کے باوجود دھرنوں میں شرکت کر رہے ہیں جس سے اس خطے کی غربت کا پتہ چلتا ہے۔
واضح رہے کہ گلگت بلتستان کی مجموعی آبادی کی بڑی تعداد غریبوں پر مشتمل ہے جو دیہی علاقوں میں رہتے ہیں جن کو واحد سہولت گندم سبسڈی اور صحت کارڈ کی صورت میں حاصل تھی، جس سے سرکار نے ختم کیا ہے جس کی وجہ سے غریب عوام میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے کیونکہ یہ غریب لوگ دیگر بنیادی حقوق سے پہلے سے محروم تھے اب ان کے منہ سے روٹی کا نوالہ بھی چھینا جا رہا ہے ۔
اس بدترین صورت حال میں بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس عوامی تحریک کے نتیجہ میں حکومت وقت گندم سبسڈی کو سابقہ حالت میں بجال کریں گی یا پھر انقلاب فرانس کے دوران "ملکہ Marie Antoinette کی طرح یہ کہے گی کہ اگر گلگت بلتستان کے عوام کے پاس روٹی نہیں ہےتو یہ لوگ کیک کیوں نہیں کھاتے۔،،
اس تمام صورتحال میں دیکھنا یہ ہے کہ یہ تحریک گندم سبسڈی کی سابقہ حالت میں بجالی کی صورت میں ختم ہوگی یا دیگر اہم بنیادی نکات پر عمل درآمد کے لئے تحریک جاری رہے گی اور اس بات کا فیصلہ عوام نے نہیں کرنا ہے بلکہ یہ عوامی قیادت پر منحصر ہے کہ وہ اس تحریک کو کس قدر برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔