پونیال غذر کی سرزمین کو مرد خیز کہا جاتا ہے۔ یہاں کئ تاریخ ساز شخصیات پیدا ہوئی ہیں ۔ ان میں سے ایک پونیال کا گیٹ وے اور خوبصورت گاوں گلاپور کی معروف اور معمر ترین شخصیت محمد امید گل عرف میٹی نمبردار تھے۔۔ گذشتہ دنوں وہ ایک سو بیس سال کی طویل اور بھر پور عمر گزار رحلت فرما گئے۔
میٹی نمبر دار گو کہ تعلیم یافتہ نہیں تھے لیکن ان کی زبان و بیان اور دانشمندی کا معترف ایک پورا زمانہ تھا۔ وہ بیک وقت نمبردار، ثالث اور دانشور تھے۔ دانشور کو شینا میں سووئین کہتے ہیں۔ نمبردار میٹی یقنننا ایک حقیقی سووئین کا درجہ رکھتے تھے۔ دستور پونیال کی مشگافیوں کو سلجھانے کی بات آتی تھی تو ان کا نام سب سے پہلے لیا جاتا تھا۔ پونیال کی راجدہانی میں وہ ایک زیرک اور معاملہ فہم نمبردار سمجھے جاتے تھے۔ ماضی میں راجہ سمیت گلگت بلتستان کے پولییٹیکل ایجینٹ اور بعد ازاں علاقے کی اہم شخصیات ان کے گھر پر حاضری دیتے اور ان سے سیاسی و سماجی امور پر مشورہ لیتے تھے۔ ہماری گو کہ نمبردار صاحب سے رشتہ داری بھی تھی لیکن ان کو بنفس نفیس اس وقت دیکھنے اور سننے کا موقع ملا جب راقم طالب علم تھا ۔
ایک روز شیرقلعہ اور گلاپور کی فٹ بال ٹیموں کے درمیان فٹ بال میچ کے دوران جھگڑا ہوا تھا۔ جھگڑے میں دونوں ٹیموں کے سپورٹرز بھی کود پڑے تھے۔ درجنوں لوگ ذخمی ہوئے اور دونوں ہمسایہ گاوں کے درمیاں تلخیاں بڑھ گئیں۔ جھگڑے میں صلح کی جب تمام کوششیں ناکام ہوئیں تو نمبردار صاحب کو مدعو کیا گیا۔ میرے لئے یہ حیران کن موقع تھا کہ شستہ شینا میں اتنی گہری، دو ٹوک اور پراثر گفتگو بھی ہوسکتی ہے جو نمبردار صاحب فرما رہے تھے۔ ان کے الفاظ کا چناو اور سوچ کی گہرائی اتنی تھی کہ محفل میں سکوت طاری ہوجاتا تھا ۔ نمبردار صاحب کی مداخلت سے وہ جھگڑا صلح صفائی سے رفع دفع ہوا۔ نمبردار صاحب کی ایک ایک بات سننے والوں کے دماغ میں نقش ہوجاتی تھیں۔
اگلی دفعہ نمبردار صاحب سے ملاقات ان کے گھر پر ہوئی جہاں ہم ان کو عید مبارک کہنے گئے تھے۔ ان کی شخصیت متاثر کن تھی۔ وہ اپنی گفتگو کا آغاز اس وقت تک نہیں کرتے جب تک وہ اگلے انسان کی بات مکمل نہیں سنتے۔ وہ پورے انہماک سے چھوٹے اور بڑے سب کی گفتگو سنتے اور بہت ہی برردباری اور تحمل سے اس کا جواب دیتے تھے۔ یعنی کمیونکیشن سکل کے بنیادی اصولوں سے وہ مکمل واقف تھے۔ جس کی وجہ ان کا طویل تجربہ اور بہترین ذہانت تھی۔ وہ بہت ہی ٹہراو اور اعتماد سے بہت پرمغز اور دانشمندانہ بات کرتے تھے۔ وہ گفتگو اور کردار میں مکمل بے باک، بے خوف ، غیر جانبدار اور حقائق پر مبنی موقف اور عمل اپناتے تھے۔ بنیادی طور پر وہ ایک انسان دوست اور غریب پرور انسان تھے۔ فیصلہ سازی کے دوران وہ اصولوں اور حقائق کو ہمیشہ مقدم رکھتے تھے۔
وہ امن کے داعی بھی تھے۔ گلاپور اور پونیال کے دیگر دیہاتوں کے عوام کو ہم آہنگی کی لڑی میں پرونے کا کام وہ عشروں تک کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ گلاپور کے لوگ آج بھی اپنی روایات اور ثقافت سے جڑے ہوئے ہیں اور وہ علاقے میں تعمیر و ترقی کے عمل میں ہر اول دستے کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ یہاں کے لوگ خوش اخلاق، علاقے سے انس رکھنے والے، رشتوں کی قدر دان، شعر و سخن سے شغف رکھنے والے اور مہمان نواز ہیں ۔ ان روایات کے فروغ میں طویل عرصے تک گاوں کی سربراہی کرنے والے میٹی نمبردار کا کلیدی کردار رہا ہے۔
اسی کی دہائی میں فرقہ وارانہ فسادات کے دوران میٹی نمبردار نے مداخلت کر کے بارگو کے کئ افراد کی جان بچائی ، بارگو کے لوگ آج بھی اس بات کے معترف ہیں۔ جس کا ذکر خیر بارگو سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر امتیاز حسین شہکی اکثر کرتے رہتے ہیں۔ دیامر اور غذر کے درمیان تنازعات سمیت کئ اہم مواقعوں پر میٹی نمبرادار کا کردار انتہائی موثر اور مثبت رہا ہے۔
وہ گلگت بلتستان کی سیاست اور نظام حکومت پر گہری نظر رکھتے اور اس پر بے لاگ تبصرہ کرتے تھے۔ دور جدید کے مصائب کی وجہ عوام کا آپس میں دست و گریباں اور تقسیم ہونا قرار دیتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ سیاسی ارتقاء سیاسی بصیرت کا متقاضی ہے۔ سیاسی بصیرت سے محرومی ایسے مسائل کو جنم دیتی ہے جس کا سامنا آج گلگت بلتستان کو ہے۔
وہ سماجی امور میں گہری دلچسپی لیتے تھے۔ فرقہ وارہت اور دیگر تعصبات سے وہ کوسوں دور تھے ۔ فرقہ واریت کو علاقے کی ترقی میں سب سے بڑی رعکاوٹ سمجھتے تھے۔ وہ معاشرتی مسائل کی وجوہات کو سمجھتے اور ان پر کھل کر بات کرتے تھے۔ وہ رواج، دستور اور رائج الوقت قوانین سمیت جمہوری عمل سے بھی مکمل واقف تھے۔ان کی گفتگو سیاسی بصیرت سے بھر پور ہوتی تھی۔ گلگت بلتستان کی تاریخ ان کو ازبر تھی۔ ان کے پاس تاریخی حوالوں کا ایک خزانہ تھا۔ اپنی گفتگو میں وہ تاریخی حوالے ضرور دیتے تھے۔
میٹی نمبردار کے خاندانی زرائع کے مطابق پونیال کے راجہ اکبر خان کے دور میں میٹی نمبردار کا دادا میر حسین نمبردار تھے۔ کئ معرکوں میں ان کی شجاعت کے اعتراف میں ان کو اعزازی طور پر راجہ نے وزیر کا عہدہ سونپا تھا۔ وہ تیرہ سالوں تک وزیر کے عہدے پر فائز رہے۔ ان کے بعد ان کا بیٹا رحمت کو گلاپور کا نمبردار بنایا گیا۔ اس دوران پونیال کا دستور تیار کیا گیا تھا۔ رحمت نمبردار نے نمبرداری کا عہدہ بعد ازاں اپنے بھتیجے یعنی میٹی نمبرادار کو سونپا ، جو کہ انیس سو چونسٹھ سے دو ہزار چودہ تک نمبرادر کے عہدے پر فائز رہے۔ دو ہزار چودہ میں انہوں نے ضعیف العمری کے باعث نمبرداری کا عہدہ اپنے بیٹے عبدالسلام کو سونپا تاہم ان کی سرپرستی بدستور جاری رکھی۔ میٹی نمبرادر کو ثالثی کے لئے پونیال کے علاوہ غذر کے دیگر تحصیلیوں سمیت داریل ، تانگیر ، کوہستان اور گلگت مدعو کیا جاتا تھا۔ جہاں وہ بڑے بڑے تنازعات کا بہت خوبصورت طریقے سے حل نکالتے تھے۔
میٹی نمبردار شکار کے بھی شوقین تھے۔ ایک سو سے زائد کامیاب شکار کے بعد انہوں نے شکار کھیلنا بند کیا تھا۔ علم و ادب، شعر و سخن اور فنون لطیفہ سے بھی ان کو رغبت تھی ۔ ہمارے مرحوم دادا خلیفہ رحمت جان ملنگ کے وہ قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ وہ جب بھی شیرقلعہ آتے تو ملنگ کے پاس لازمی حاضری دیتے اور ان کی شاعری سے محظوظ ہوتے تھے۔ وہ اکثر اپنی نجی محافل میں ملنگ اور ان کی شاعری کا ذکر کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا ملنگ کی ٹوپی پر ایک دیسی پھول لگا ہوتا تھا۔ ایک دن میٹی نمبردار بھی اپنی ٹوپی پر ایک پھول لگا کر ملنگ کے پاس ملنے گئے۔ ملنگ نمبردار کی ٹوپی پر پھول دیکھ کر خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ آج آپ بھی ملنگوں کی صف میں شامل ہوگئے ہیں۔ پھر انہوں نے اپنا مشہور کلام سنایا جو غالبا نیاء نیاء کہا تھا۔
دنیاتر کھون تھے تھونس
تھیے تیار سے پھت تھے بونس
بہ گا نہ مرے تھے رونس
شرمندہ بھی تو کش اونس
ترجمہ۔ اے خداوند ہم دنیا میں دولت اس لئے جمع کرتے ہیں تاکہ اس سے لطف اندوز ہوسکیں، جب ہم دولت سے لطف اندوز ہونے کا سوچتے ہیں تو ایسے میں موت ہمیں گھیرلیتی ہے۔ ہم مذید ذندگی کی بھیک مانگتے اور دھاڑیں مار کر روتے ہیں لیکن آخر میں شرمندگی اور بے بسی کے عالم میں دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ جبکہ ہماری دولت پیچھے رہ جاتی ہے۔
میٹی نمبردار نے زندگی بھر پور گزاری ہے۔ علاقے کے نامساعد حالات، تعلیمی اداروں کی عدم موجودگی اور وسائل کی کمی کے باوجود اپنی زہانت، ہنر اور اعلی کردار سے عشروں تک اپنا لوہا منوانا اور خود کو ایک اہم شخصت کے طور پر متراف کرانا یقننا ایک قابل رشک ہے۔
میٹی نمبردار نے پسماندگان میں پانچ بیٹے چھوڈے ہیں جو کہ اعلی تعلیم یافتہ اور اہم عہدوں پر اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ۔ ان کے بوتے بوتیاں بھی اعلی تعلیم یافتہ اور اہم عہدوں پر فائض ہیں.۔ میٹی نمبردار جیسی متاثر کن اور اہم شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ نوجوان نسل کو چاہئے کہ وہ اایسی اہم شخصیات کے بارے میں معلومات لیں اور ان کے افکار سے استفادہ حاصل کریں۔ میٹی نمبردار کی رحلت سے بالخصوص پونیال اور بالعموم ضلع غذر ایک عظیم منتظم ، ثالث، دانشور اور امن کے داعی سے محروم ہوگیا ۔ ان کی کمی ہمیشہ محسوس کی جائیگی۔ اللہ تعالی ان کو اپنی جوار رحمت میں جگہ عنایت کرے اور لواحقین کو صبر جمیل عطاء کرے۔ آمین