اہم ترین

فلک نور نامی بچی کا مبینہ  اغوا اور کم عمری میں شادی، مختلف سیاسی عہدوں پر براجمان  خواتین رہنماوں  کی پر اسرار خاموشی

گلگت (تجزیاتی رپورٹ) فلک نور نامی 13 سالہ بچی کے مبینہ اغوا اور کم عمری میں والدین کی مرضی کے خلاف شادی کے واقعے پرڈیڑھ ماہ کی خاموشی کے بعد گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ان کے والد سخی احمد جان کی کوششوں کے بعد آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔  میڈیا پر شہ سرخیوں میں آنے کے بعد کچھ ارتعاش سیاسی حلقوں میں بھی محسوس کیا جارہاہے۔ تاہم گلگت بلتستان اسمبلی کی خواتین ممبران نے اس معاملے پر چُپ کا روزہ رکھا ہواہے۔

سوشل ویلفیر کی وزیر دلشاد بانو چند ایک میڈیا بیانات دینے کےبعد خاموش ہوگئی ہے۔ ڈپٹی سپیکر سعدیہ دانش نے اب تک اس معاملے پر میڈیا میں کوئی خاص  آواز نہیں اُٹھائی ہے۔ ثریا زمان نے بھی اس معاملے پر کچھ کہنا ضروری نہیں سمجھا ہے۔ کچھ ایسی ہی  صورتحال دیگر وزیروں، مشیروں اور عہدیداروں کی بھی ہے۔  

گلگت بلتستان اسمبلی کے اندر بھی اس معاملے پر کوئی خاص آواز نہیں اُٹھائی گئی ہے، جس کے باعث خواتین اور بچوں اور بچیوں کی حفاظت یقینی بنانے کے حوالے   سے ایوان اور حکومت کی ترجیحات  پر کئی سوالات اُٹھ رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر گلگت بلتستان حکومت گزشتہ کئی ہفتوں سے اس معاملے پر بے حسی اور روایتی سست روی کے باعث تنقید کی زد پر ہے۔ گلگت بلتستان پولیس کو بھی شدید تنقید کا ہدف بنایا جارہاہے۔ خواتین ممبران اسمبلی اور سیاسی جماعتوں میں دیگر عہدوں پر فائز  خواتین   پر خاص طور پر تنقید ہورہی ہے کیونکہ اسمبلی میں جاتے وقت وہ خواتین اور بچیوں کے معاملات پر قانون سازی کرنے اور آواز اُٹھانے  کی انتہائی اہم ذمہ داری اُٹھاتی ہیں۔

سوال اُٹھتا ہے کہ اگر ایسے حساس معاملات پر خاموش ہی رہنا ہے تو کیا اسمبلی تک محض مراعات اور پروٹوکول کے لئے ہی رسائی حاصل کی جاتی ہے؟

کم عمر لڑکی کو گھر سے اُٹھانا اور والدین کی مرضی کے خلاف اُس کی شادی کرنا دنیا کے ہر کونے، ہر معاشرے، اور ہر مذہب میں غیر قانونی ، مجرمانہ اور غیر اخلاقی طرز عمل ہے۔

اس معاملے پر خاموش رہ کر تمام اراکین اسمبلی، بالخصوص خواتین اراکین اسمبلی،  بظاہر یہ پیغام دے رہی ہیں کہ انہیں خواتین کی حفاظت سے کوئی غرض نہیں ہے، انہیں  ایک غریب خاندان کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہے ، اور  وہ ایک واضح غیر قانونی اقدام کے خلاف آواز اُٹھانے کی ہمت نہیں رکھتی ہیں!

اس تاثر کو زائل  کرنے کےلئے خواتین اور مرد اراکین اسمبلی اور مختلف عہدوں پر براجمان افراد کو نہ صرف آواز اُٹھانی ہوگی بلکہ عملی اقدامات بھی کرنے ہونگے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button