کالمز

گلگت-بلتستان کی بے ہنگم سیاحت اور کثیر المنزلہ تعمیرات کے ماحولیاتی نظام پر اثرات

ڈاکٹر  ارشد علی  شیدائی

گلگت-بلتستان کا علاقہ، جو کہ بڑے پہاڑی سلسلوں کے سنگم میں واقع ہے، اس وقت مختلف موسمی اور انسانی پیدا کردہ خطرات کا شکار ہے۔ غیر منظم سیاحت کے خطرات بھی ابھرنا شروع ہو گئے ہیں کیونکہ سیاحت بغیر منصوبہ بندی کے تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

کثیر المنزلہ عمارتوں (ہوٹلوں) کی غیر منصوبہ بند تعمیر ان خطرات میں سے ایک ہے، جس سے نہ صرف ماحول آلودہ ہوتا جا رہا ہے بلکہ گلگت-بلتستان کا قدرتی حسن بھی متاثر ہو رہا ہے، جس کے مستقبل میں دور رس منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

سیاحت کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو زیادہ تر پاکستانی سیاح بدقسمتی سے ایک ریوڑ کی طرح کا طرز عمل اپنائے ہوئے ہیں، جنہیں ماحولیاتی اخلاقیات کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ یہ جہاں جاتے ہیں وہاں پر گند پھیلا کر، پھلدار درختوں کی شاخوں کو کاٹ کر، پانی اور سبزے کو نقصان پہنچا کر، اور قدرتی حسن کو آلودہ کر کے سکون محسوس کرتے ہیں۔ زیادہ تر سیاح دراصل انپڑھ ہجوم کی طرح ہوتے ہیں جنہیں ماحولیاتی تحفظ کا ادراک نہیں ہوتا۔ گلگت کے سیاحتی مقام نلتر پر میری ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ مقامی لوگوں نے پاکستانی سیاحوں کو غیر مہذب قرار دیا جبکہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے غیر ملکی سیاحوں کے طرز عمل اور اخلاق کو سراہا۔

منظم اور پائیدار سیاحت کے لیے حکومت کو چاہئے کہ وہ ٹھوس اقدامات اٹھائے اور اسلام آباد/راولپنڈی میں ایک دفتر کھولے جہاں تمام سیاح، چاہے وہ کسی کمپنی کے ذریعے گلگت-بلتستان جا رہے ہوں یا اپنی ذاتی حیثیت میں، وہ بائی ایئر جا رہے ہوں یا بائی روڈ، ان پر لازم ہو کہ وہ وہاں پر رجسٹریشن کروائیں۔ اس میں سیاحوں کا مکمل ڈیٹا درج ہو اور ان کے سیاحتی پلان بھی شامل ہوں۔ ایسا کرنے سے سیاحت کو مینیج کرنے میں مدد ملے گی اور ساتھ ہی سیاحوں کا ڈیٹا ایک جگہ جمع ہوگا جو آئندہ کی تحقیق اور پالیسی بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ محکمہ سیاحت کو چاہئے کہ وہ ان سیاحوں کے لیے ایک دن کا سیشن رکھے جس میں ان کو سیاحتی اصولوں سے متعلق آگاہی فراہم کرے اور ماحولیاتی اخلاقیات کی تعلیم دے۔ اور انہیں ایک کارڈ فراہم کرے جو اس بات کا ثبوت ہو کہ متعلقہ سیاح سیاحتی اصولوں سے آگاہ اور ماحولیاتی اخلاقیات سے آشنا ہیں۔

کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر کے حوالے سے دو رائے پائی جاتی ہیں۔ پہلی رائے کے مطابق، سیاحوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد دراصل اس بات کی غمازی ہے کہ ان کی رہائش کے لیے مناسب انتظام کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ہوٹلوں کی تعمیر کی جاتی ہے جو سیاحوں کے جم غفیر کو سنبھالا دیتے ہیں اور مقامی لوگوں کے لیے ملازمت کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ یہ تھری، فور اور فائیو سٹار ہوٹلز دراصل غیر مقامی لوگوں/کمپنیوں کے بنائے ہوئے ہیں۔ اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ان ہوٹلوں میں کتنے فیصد مقامی لوگوں کو ملازمتیں مل رہی ہیں؟

دوسری رائے اس کے برعکس یہ ہے کہ ان کثیر المنزلہ ہوٹلوں کی ان پہاڑی علاقوں میں ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان سے قدرتی حسن اور نظارے متاثر ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ ہوٹل زمین، پانی اور ہوا کی آلودگی کا باعث بنتے ہیں۔ ان ہوٹلوں کی تعمیر سے بہت سا جنگل کٹ جاتا ہے یا پھر زرعی زمین یا چراگاہ کو عمارتوں میں تبدیل کیا جاتا ہے، جسے زمین کی تبدیلی کہتے ہیں۔

پہاڑوں کے بیچ میں کثیر المنزلہ ہوٹلوں کی تعمیر دراصل پہاڑوں کے قدرتی حسن کو ماند کرنے کے مترادف ہے۔ سیاح دراصل ان قدرتی پہاڑوں کو دیکھنے آتے ہیں، نہ کہ کثیر المنزلہ ہوٹلوں کو جنہیں انہوں نے شہروں میں دیکھا ہوا ہوتا ہے۔ سیاحوں کے قیام و طعام کے لیے ہوٹل ضرور بنائیں جائیں، مگر وہ مقامی کلچر اور ماحول سے ہم آہنگ ہوں۔

سیمنٹ کے بنے کئی منزلہ عمارتیں پہاڑی ماحول کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتیں۔ لہذا عمارتیں بناتے وقت مٹی، پتھر اور لکڑی کا استعمال زیادہ کرنا چاہئے جو کہ ماحول اور مقامی فن تعمیر کے ساتھ مطابقت بھی رکھتا ہو اور ماحول و موسم کے حوالے سے سودمند بھی۔ تحقیق سے یہ بات واضح ہے کہ مٹی، لکڑی اور پتھر سے بنے مخلوط تعمیرات آب و ہوا اور موسمیاتی تبدیلی کے لیے زیادہ مفید ہیں، بنسبت سیمنٹ کی عمارتوں کے جو مختلف بیماریوں کا باعث بنتی ہیں اور سردیوں میں زیادہ ٹھنڈی اور گرمیوں میں زیادہ گرم ہو جاتی ہیں۔

کثیر المنزلہ ہوٹلوں کے ماحولیات پر بہت سے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جن میں روزانہ کی بنیاد پر کچرے کا اخراج، گندے پانی کا اخراج اور فضائی آلودگی شامل ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر ٹھوس فضلہ کو ٹھکانے لگانے، آلودہ پانی کے ری سائیکل کا نظام نہ ہو، اور ہوٹلوں سے نکلنے والا دھواں اور CFCs (کلورو فلورو کاربنز) ارد گرد کے ماحول کو آلودہ بنائیں گے تو انسانی صحت کو نقصان پہنچانے کے ساتھ گلوبل وارمنگ اور مقامی کلائمیٹ چینج کا باعث بنیں گے، اور مستقبل میں خطرناک صورت اختیار کر سکتے ہیں۔

اکثر پہاڑی علاقوں میں بیڈ راک کے اوپر مٹی کی پتلی تہہ ہوتی ہے جو صرف چند میٹر گہری ہوتی ہے۔ ہر مٹی کی تہہ کی وزن برداشت کرنے کی اپنی ایک خاص صلاحیت ہوتی ہے جسے ایکولوجی میں کیریئنگ کیپیسٹی کہتے ہیں۔ پہاڑوں پر زمین کی یہ پتلی تہہ سیمنٹ کی بنی کثیر المنزلہ عمارتوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی ہے۔ ساتھ ہی اگر زمینی کٹاؤ بھی ہو تو ان عمارتوں کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی دن سیلابی ریلے کے ساتھ ہزاروں من مٹی اور سیمنٹ سمیت دریا برد ہو جائے، اس لیے وقت سے پہلے تدارک ضروری ہے۔

شعور کا تقاضہ یہ ہے کہ بے ہنگم سیاحت کی بجائے سمارٹ اور منیجڈ ٹورزم  کے ماڈل کو اپنایا جائے، اسی میں پائیدار ترقی کا راز چھپا ہے۔ ورنہ بے ہنگم ٹورزم کی وجہ سے قدرتی وسائل اور حسن تباہ ہوگا، اور کچھ سالوں کے بعد سیاحت اپنے انجام کو پہنچے گی۔ کیونکہ سیاح دراصل ان قدرتی وسائل اور قدرتی حسن سے لطف اندوز ہونے کے لیے تشریف لاتے ہیں، اور مناظرِ قدرت ہی اگر نہ رہے تو پھر کہاں کی سیاحت اور کہاں کی کمائی۔

کثیر المنزلہ تعمیرات کے رجحان کو قابو میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہاں پر مٹی، پتھر اور لکڑی کے بنے یک منزلہ مخلوط تعمیرات کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ یہ علاقہ زلزلے کے فالٹ لائن پر واقع ہونے کی وجہ سے یہاں پر کئی منزلہ تعمیرات کی گنجائش نہیں ہے، جبکہ مٹی، پتھر اور لکڑی کے بنے یک منزلہ مخلوط تعمیرات زلزلے میں بھی موثر ثابت ہوں گے اور ساتھ مقامی کلچر کے مطابق بھی ہوں گے اور  ماحول کے لیے مفید بھی

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button