کالمز
”عزاداری اور ہماری ذمہ داریاں“
ان الحسین مصباح الھدا و سفنت النجات“
بے شک حسین ہدایت کا چراغ اور نجات کی کشتی ہے۔
عزاداری کیا ہے؟
عزاداری یعنی گریہ کرنا،ظلم کے خلاف احتجاج ، ظالم کے خلاف اعلان جنگ ہے۔عزاداری سید الشہدا کا مقصد فرزند رسول،جگر گوشہ بتول حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی بے مثال قربانیوں کی یاد دہانی ہے۔عزاداری امام حسین دنیا میں بسنے والے تمام مسلمانوں کے لیے ہدایت کا بہترین ذریعہ ہے ۔چونکہ امام حسین ع اور ان کے دیگر ساتھیوں نے اسلام کی بقا کی خاطر اپنی جانیں نچھاور کردی ہیں اس لیے ان کی یاد میں گریہ کرنا ان کے جذبہ ایمانی دنیا کے سامنے لے کر آنا عین عبادت ہے۔
مورخین کے مطابق سنہ ٦١ ہجری میں یہ تلخ واقعہ سر زمین کربلا میں رونما ہوا ۔حق و باطل کا یہ معرکہ تا قیامت تک لوح قرطاس پر لکھا جاٸے گا۔۔اس عظیم واقعے میں امام حسین ع و دیگر اصحاب و انصار نے حق کی راہ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے ثابت کیا کہ دین کی خاطر کٹ مرنے کا جذبہ رکھنے والوں کو ہی دوام کی زندگی مل جاتی ہے۔جب یزید دین الہی میں نٸی نٸی خرافات لے کر آیا تو فاطمہ کا بیٹا اس کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہوٸے اور کہا”مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت ہرگز نہیں کر سکتا چونکہ ہمارا تعلق خاندان رسالت سے ہے ہم اسلام کے محافظ ہیں فرشتے ہمارے ہی گھر آتے ہیں ۔یزید شرابی ہے ،گنہگار ہے، حسین جیسا باغیرت شخص کبھی بھی یزید کی حمایت نہیں کر سکتا۔۔
لہذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم صرف عزاداری کو رسمی طور سے نہ مناٸے بلکہ امام حسین کے قیام کے مقاصد و اہداف لوگوں تک پہنچاٸے ان کے کارنامے ان کی اسلام سے محبت کو عوام الناس تک پہنچاٸے ۔ہم اس عزاداری کے ذریعے اپنے معاشرے کے اندر ہونے والے براٸیوں کو روکے،ماہ محرم الحرام وہ مہینہ ہے جس میں حق کی طاقت نے باطل کو ابدی شکست سے دوچار کیا۔لہذا ہمیں بھی اس عزاداری کے ذریعے شیطانی چہرے پر باطل کی مہر لگانی چاہیے۔کربلا ایک درس گاہ ہے ایک آٸینہ زندگی ہے ایک نمونہ احیا ہے۔اس لیے ایک ماتم دار کے لیے ضروری ہے کہ اس میں اپنے کانوں ، آنکھوں،ہاتھوں ،زبان اور بدن کے دیگر اعضا کو گناہوں سے بچا کر رکھے تاکہ ہماری عزاداری بارگاہ امامت میں قبول ومنظور ہو جاٸے اور خدا ہم سے راضی ہوجاٸے۔
کربلا ہمیں بہت سے گناہوں سے بچنے کا درس دیتی ہے۔۔کربلا سےہمیں باطل کے خلاف ڈٹ جانے کادرس ملتا ہے ۔صرف مجالسیں برپا کرنا کافی نہیں بلکہ ان کے افکار اور کردار کی روشنی سے سبق حاصل کرتے ہوٸے ہمیں بھی اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں سے ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے اور دشمن کے ارادوں کو خاک میں ملانے چاہیے اگر یہ ہمت یہ جرات اور یہ حوصلہ ہم میں ہے تو صحیح معنوں میں ہم عزادار کہلانے کےقابل ہیں.
لہذا ہمیں اپنے کردار اپنی گفتار اور اپنی چال و چلن سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ چودہ سو سال پہلے جب دین محمد کی بقا خطرے میں پڑا تو امام حسین ع نے جس خوب صورتی کے ساتھ باطل کا دفاع کیا کہ اس مصیبت میں اپنے جوان بیٹے کے خون سے اسلام زندہ باد کا نعرہ لکھ دیا ۔۔۔۔کیا آج کے دور میں یہ مصیبت اور آزماٸش ہم پر آجاٸے تو ہم اس میں کامیاب ہونگے یا نہیں اگر نہیں تو ہماری عزاداری کا کیا بنے گا ؟ ذرا سوچیے ۔۔۔؟؟
اللہ ہم سب کو اسلام کا حامی و ناصر قرار دے ۔امین