کالمز

مواخات اور بھائی چارہ، سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں

رسولِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم  کو اللہ رب العزت نے نسل انسانی کے لیے ایک کامل نمونہ اور اسوہ حسنہ بنا کر دنیا میں مبعوث فرمایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کو قیامت کی صبح تک کے لیے معیار بنادیا۔سیرت طبیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر گوشہ تابناک اور ہر پہلو روشن ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سے لے کر رحلت تک کا ہر ہر لمحہ اللہ تعالی کی منشاء سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشینوں نے محفوظ کیا۔

حضور  نبی اکرم ﷺ نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ پوری انسانیت اور جملہ مخلوقات الہیہ کے لیے رحمت بن کر دنیا میں تشریف لائے۔ آپ ﷺ کی سیرت پاک میں وہ جملہ  اخلاقی، سماجی اور روحانی  اوصاف موجود ہیں جن کو اپنا کر  انسانیت  اپنے اصل مقام تک پہنچ سکتی ہے اور دنیا کے جملہ انسان دو جہانوں میں کامیابی پاسکتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ظلم و جبر اور بربریت کے گھٹا ٹوپ  اندھیروں میں عدل و انصاف اور محبت و ہمدردی کے چراغ روشن کیے اور انسانوں کو ایک دوسرے  کے حقوق کا محافظ بنا کر ایک ایسا بہترین اور آئیڈیل معاشرہ قائم کیا جہاں ہر فرد کو  عزت و احترام،محبت و مودت اور مساوات کا حق حاصل تھا۔ آپ ﷺ کی تعلیمات کا محور  صرف ایک قوم، ایک علاقہ، ایک زمانہ یا صرف  ایک مذہب  تک محدود نہیں تھا ، بلکہ آپ ﷺ نے تمام بنی نوع انسانیت کو اپنے خُلق اعلی اور کردار کی قوت و عظمت سے   اس حقیقت سے آشنا  کیا کہ انسانیت کی  اصل خدمت  اس میں ہے کہ  ہر شخص دوسرے کے لئے رحمت اور محبت کا پیکر بنے۔آپ ﷺ کی عظیم اور مثالی شخصیت میں مہر و وفا کا دریا موجزن تھا جس نے دلوں کے قفل کھول دیے  اور انسانیت کو اس کےا علی ترین مقام و مرتبہ پر فائز کیا۔

مواخات اور بھائی چارہ: سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں

اسلام میں بھائی چارہ  اور مواخات کا تصور مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کو مضبوط کرنے کے لئے ایک اہم اصول کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی سیرت میں اس تصور کا عملی مظاہرہ پہلے پہل مکہ معظمہ میں ہوا، مکہ میں مسلمانوں کے درمیان مواخات کی چھوٹی چھوٹی مثالیں قائم کی گئی تاہم  مدینہ منورہ میں مہاجرین اور انصار کے درمیان قائم ہونے والی مواخات کی شاندار روایت قائم ہوئی۔ اس مواخات نے نہ صرف مہاجرین کی مشکلات کو کم کیا بلکہ ایک مضبوط معاشرتی نظام کی بنیاد بھی رکھی۔

 

اسلام کا نظم اجتماعی، اخوت اور بھائی چارہ کی اساس پر قائم و دائم ہے۔اس عظیم الشان اخوت اسلامی میں میں انسانی رنگ و نسل، برادری و قومیت، حسب و نسب، ملک و وطن اورقبیلہ و ریاست جیسی  کوئی تفریق رکاوٹ نہیں۔ ذات پات، قومیت ، رنگ، زبان، نسل، علاقائیت، صوبائیت  اور اس جیسی دیگر چیزیں اخوت اسلامی اور بھائی چارہ کے تصور کے واضح طور پر منافی ہیں۔ اخوت ایک روحانی اور ایمانی قوت کا نام ہے جس کی بنیاد رحم و کرم،ایثار و تعاون،صبر ، عفو و درگزر اور عزت و اکرام جیسے جذبات اور اس کے عملی اطلاق و اقدام پر منتج ہے۔

مواخات کی تعریف اور اس کی اسلامی اہمیت

لفظ "مواخات” عربی زبان کے لفظ "اخوۃ” سے نکلا ہے، جس کا مطلب بھائی چارگی یا بھائی بھائی کا رشتہ ہے۔ اسلام میں اخوت اور بھائی چارگی کے تصور کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، اور قرآن و حدیث میں اس کا بارہا ذکر کیا گیا ہے۔

قرآن میں اخوت کا تصور

اللہ  رب العزت کا ارشاد ہے۔

"إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ” (1)

ترجمہ: "بیشک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔”

قرآن کریم کی یہ آیت اسلامی اخوت کی بنیاد ہے، جس میں مومنوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کی تاکید کی گئی ہے۔اور دینی و ملی بھائی چارہ کی بنیاد ہے یہ آیت۔

ایک اور جگہ میں اللہ کا ارشاد ہے۔

”فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ  فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا”۔(2)

ترجمہ: ” تو اللہ نے تمہارے دلوں میں محبت پیدا کر دی اور اور تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے۔”

قرآن کریم کے علاوہ احادیث مبارکہ میں بھی مواخاۃ اسلامی کے متعلق کئی ایک فرامین موجود ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا:

"المُسْلِمُ أخُو المُسْلِمِ، لا يَظْلِمُهُ ولا يُسْلِمُهُ، ومَن كانَ في حاجَةِ أخِيهِ كانَ اللَّهُ في حاجَتِهِ” (3)

ترجمہ: "مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یارومددگار چھوڑتا ہے۔ جو اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے، اللہ اس کی مدد کرتا ہے۔”

ایک اور حدیث مبارکہ میں ارشاد نبوی ﷺ ہے:

"مثلُ المؤمنين في تَوادِّهم ، وتَرَاحُمِهِم ، وتعاطُفِهِمْ ، مثلُ الجسَدِ إذا اشتكَى منْهُ عضوٌ تدَاعَى لَهُ سائِرُ الجسَدِ بالسَّهَرِ والْحُمَّ”(4)

ترجمہ: "مومنوں کی مثال آپس کی محبت، رحم دلی اور ہمدردی میں ایک جسم کی طرح ہے، اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو سارا جسم اس کی تکلیف میں شریک ہوتا ہے۔”

سیرت النبی ﷺ میں مواخات کا عملی مظاہرہ

رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں مواخات کا سب سے نمایاں مظاہرہ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں ہوا۔ جب مکہ مکرمہ کے مسلمانوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر مدینہ ہجرت کرنی پڑی، تو مدینہ کے انصار نے ان کے ساتھ اخوت و بھائی چارگی کا وہ عملی مظاہرہ کیا جو تاریخ میں بے مثال ہے۔مواخات مدینہ سے قبل  مکہ معظمہ میں بھی مواخات کا عملی مظاہرہ کیا گیا تھا۔

مواخات مکہ  مکرمہ

رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ میں بھی مسلمانوں کے درمیان مواخات کروائی تھی۔اس دور میں مسلمان سماجی، معاشی اور دیگر مشکلات و مسائل کا شکار تھے۔رسول اللہﷺ نے ان مسائل کو حل کرنے کے لئے اسلام قبول کرنیو الے بھائیوں کے درمیان مواخات کرائی۔

محمد بن حبیب (م ٢٤٥ھ) نے  مکہ مکرمہ کی مواخات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”رسول اللہﷺ نے باہمی ہمدردی و تعاون کی بنیاد پر مواخات کرائی اور یہ مکہ مکرمہ میں وقوع پذیر ہوئی تھی”۔(5)

علامہ بلازری نے انساب الاشراف میں لکھا ہے کہ یہ مواخات مندرجہ ذیل افراد کے درمیان کرائی گئی۔

سیدناحمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ او زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ (رسول اللہﷺ کے آزاد کردہ غلام) کے درمیان۔

سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اورسیدناعمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے مابین۔

سیدناعثمان رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کے درمیان۔

سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے درمیان۔

سیدنا عبیدہ بن الحارث رضی اللہ عنہ اورسیدنا بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کے مابین۔

سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اور سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے مابین۔

سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ اور سیدنا سالم الموالی ابی حذیفہ رضی اللہ عنہ کے درمیان۔

سیدناسعید بن زیدرضی اللہ عنہ اور سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کے مابین  (6)

سیرت مصطفی  اور وفاء الوفاء میں مذکور ہے کہ : اس موقع پر سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ! آپ نے ان لوگوں کے درمیان تو مواخات کرادی، میں رہ گیا ہوں، میرا بھائی کون ہوگا؟ اس پر آپ ﷺنے فرمایا کہ میں تمہارا بھائی ہوں۔ (7)

سیدناعلی رضی اللہ عنہ تو پہلے ہی سے رسول اللہﷺ کے ساتھ رہتے تھے اور آپﷺ ہی ان کی کفالت فرمایا کرتے تھے اس لیے شاید آپﷺ نے ان کے لیے یہ ضرورت محسوس نہ کی ہو، بہر حال یہ فرما کر کہ میں تمہارا بھائی ہوں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی دلجوئی فرمائی۔

مواخات مدینہ منورہ

محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں: مدینہ منور ہ میں پہنچ کر رسول اللہ ﷺ نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے گھر سب سے پہلے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ اپنا مواخاۃ کا رشتہ قائم کیا اور پھردوسرے صحابہ یعنی کچھ مہاجر کا مہاجر صحابہ اور کچھ انصار و مہاجر صحابہ کرام کا  رشتہ مواخات قائم کیا۔(8)

رسول اللہ ﷺ نے مواخات کا یہ سلسلہ جاری رکھا۔سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے گھر میں رسول اللہ مہاجر اور انصار کے درمیان مواخات فرمایا کرتے تھے۔ اصحاب رسول مکہ سے مدینہ ہجرت کرتے رہتے اور رسول اللہ مدینہ کے کسی صحابی سے ان کی مواخات کراتے رہتے۔سیرت نگاروں نے  ان کی تعداد پچاس کے قریب بتائی ہے۔ اس طرح تقریبا پچاس مہاجر خاندان پچاس انصار خاندانوں کے ساتھ رشتہ مواخات میں منسلک ہو گئے۔ سیرت کی مختلف کتب کا مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ایک سو تیس انصار و مہاجرین کے ناموں کا ذکر ملتا ہے جن کے درمیان مواخات کرائی گئی۔ ااس مواخات کا مقصد مہاجرین کی ضروریات کو پورا کرنا ،ایثار و تعاون کا معامہ فرمانااور انہیں مدینہ کے معاشرتی نظام اور سماجی زندگی میں ضم کرنا تھا۔بظاہر ان مقاصد کے لئے یہ رشتہ قائم کیا گیا تاہم مواخات کا یہ رشتہ اسلامی نظم کے قیام اور اس کے اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لئے تھا۔

آپ  کی دلچسپی کے لئے کچھ مشہور صحابہ کرام کے اسمائے گرامی دیے جارہے ہیں۔

١: سیدنا ابو بکر صدیق ۔۔۔ سیدنا خارجہ بن زید بن ابی زہیر

٢: سیدنا عمر فاروق ۔۔۔ سیدنا عتبان بن مالک

٣: سیدنا عبدالرحمن بن عوف۔۔۔یدنا سعد بن الربیع

٤: سیدنا عثمان بن عفان۔۔۔سیدنا اوس بن ثابت

٥: سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح ۔۔۔سیدنا سعد بن معاذ

٦: سیدنا زبیر بن العوام  ۔۔۔سیدنا سلمہ بن سلامہ

٧: سیدنا مصعب بن عمیر ۔۔۔ سیدنا ابو ایوب خالد بن زید

٨: سیدنا عمار بن یاسر ۔۔۔ سیدنا حذیفہ بن الیمان

٩: سیدنا ابو حذیفہ بن عتبہ ۔۔۔ سیدنا عباد بن بشر

١٠: سیدنا بلال بن رباح ۔۔۔سیدنا ابو رویحہ عبداللہ بن عبدالرحمن الخشعمی

١١: سیدنا عبیدہ بن الحارث بن المطلب ۔۔۔سیدنا عمیر بن الحمام اسلمی

١٢: سیدنا سلمان الفارسی ۔۔۔سیدنا ابو الدرداء

١٣: سیدنا سعد بن ابی وقاص ۔۔۔سیدنا سعد بن معاذ

١٤: سیدنا عثمان بن مظعون ۔۔۔ سیدنا ابو الہیثم بن التہان

١٥: سیدنا ارقم بن الارقم ۔۔۔سیدنا طلحہ بن زید بن سہل

١٦: سیدنا علی بن ابی طالب۔۔۔سیدنا سہل بن حنیف

١٧: سیدنا زید بن الخطاب۔۔۔سیدنا معن بن عدی

١٨: سیدنا عمر و بن سراقہ۔۔۔ سیدنا سعد بن زید

١٩: سیدنا عبداللہ بن مظعون۔۔۔ سیدنا قطبہ بن عامر

٢٠: سیدنا شماع بن وھب ۔۔۔سیدنا اوس بن خوالی

٢١: سیدنا عبداللہ بن جحش  ۔۔۔ سیدنا عاصم بن ثابت بن ابی افلح

٢٢: سیدنا ابو سلمہ بن عبدالاسد ۔۔۔ سیدنا سعد بن خیشمہ

٢٣: سیدنا طفیل بن الحارث  ۔۔۔سیدنا مقدر بن محمد

٢٤: سیدنا سالم مولی ابی حذیفہ ۔۔۔سیدنا معاذ بن ماعص

٢٥: سیدنا خباب بن الارت۔۔۔سیدنا جبار بن صحر

٢٦: سیدنا صہیب بن سنان۔۔۔ سیدنا حارث بن الصمہ

٢٧: سیدنا عامر بن ربیعہ الغزی۔۔۔سیدنا یزید بن المقدر

٢٨: سیدنا سعید بن زید بن عمرو۔۔۔ سیدنا رافع بن مالک

٢٩: سیدنا وھب بن سرخ ۔۔۔سیدنا سوید بن عمرو

٣٠: سیدنا معمر بن الحارث۔۔۔سیدنا معاذ بن عفراء

٣١: سیدنا عمیر بن ابی وقاص۔۔۔ سیدنا عمر بن معاذ

٣٢: سیدنا زید بن حارثہ۔۔۔سیدنا اسید بن حضیر ، رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ (9)

انصارکا جذبہ ایثار

مواخات مدینہ کے بعد انصار نے بالخصوص اپنے مواخاتی بھائیوں اور بالعموم تمام مہاجر صحابہ کا جو اکرام، ہمدردی اور خدمت کی اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔

بخاری شریف میں ہے:

”جب مہاجر لوگ مدینہ میں آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن عوف اور سعد بن ربیع کے درمیان بھائی چارہ کرا دیا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں انصار میں سب سے زیادہ دولت مند ہوں اس لیے آپ میرا آدھا مال لے لیں اور میری دو بیویاں ہیں آپ انہیں دیکھ لیں جو آپ کو پسند ہو اس کے متعلق مجھے بتائیں میں اسے طلاق دے دوں گا۔ عدت گزرنے کے بعد آپ اس سے نکاح کر لیں”۔ (10)

ایثار کا ایک اور واقعہ بھی سنیں:

”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو بلایا تاکہ بحرین کا ملک بطور جاگیر انہیں عطا فرما دیں۔ انصار نے کہا جب تک آپ ہمارے بھائی مہاجرین کو بھی اسی جیسی جاگیر نہ عطا فرمائیں ہم اسے قبول نہیں کریں گے۔”۔ (11)

ان ہی لوگوں کے بارے میں اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں فرمایا:

یُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَیْهِمْ وَ لَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّاۤ اُوْتُوْا وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ” (12)

ترجمہ: وہ اپنی طرف ہجرت کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور وہ اپنے دلوں میں اس کے متعلق کوئی حسد نہیں پاتے جو ان کو دیا گیا اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود حاجت ہو۔

مواخات کا عمل آج بھی دہرایا جاسکتا ہے۔آج بھی دنیا بھر میں مسلمان مظلوم و مقہور ہیں۔افغانستان، بوسنیا، کوسوو، کشمیر، افغانستان، عراق، فلسطین، برما اور بہت سے شورش زدہ علاقوں کے مسلمان معاشی، معاشرتی، تہذیبی اور جنگی مسائل کا شکار ہیں۔ برما، فلپائن اور بعض دیگر علاقوں میں بھی مسلمان پر عرصہ حیات تنگ ہے۔ بعض علاقوں میں مسلمان بچوں کے لیے تعلیم و تربیت کے مسائل ہیں۔ان کے علاوہ دنیا بھر میں  مسلمان سیاسی و معاشی ابتری کی وجہ سے تہذیبی و اقتصادی  مشکلات کا شکار ہیں۔کہیں علم و سائنس  میں پسماندگی کا شکار ہیں۔ آج کی مسلم امہ  کو ان مشکلات سے چھٹکارا دلانے کے لئے ہم میں سے ہر ایک نے  اپنی ذمہ داریوں اور اپنے فرائض کا احساس کرنا چاہیے اور مواخات کے ادارے کا احیاء کرنا چاہیے۔ رسول اللہﷺ کا اسوہ حسنہ ہر دور اور ہر زمانہ میں واجب العمل ہے۔مواخات کے ادارے کا قیام انفرادی، اجتماعی اور ریاستی و عالمی سطح پر مسلمانوں کو کرنا چاہیے۔رسول اللہ کی سیرت کی  پیروی ہی میں ہماری نجات و کامیابی کا راز مضمر ہے۔

اخوت اسلامی کے قیام کے لئے چند شرائط

اخوت اسلامی کے قیام کے لئے چند اہم شرائط ہیں جن کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

اخوت صرف رضا الہی کے لئے ہو۔

اخوت ایمان و تقویٰ کی بنیاد پر ہو۔

اخوت اسلامی اصولوں اور احکام کی روشنی میں ہو۔

اخوت خیر خواہی اور بھلائی کے لئے ہو۔

اخوت کا اظہار  مشکلات و تکالیف اور خوشی و آرام ہو۔(13)

دور حاضر میں مواخات کا اطلاق

موجودہ دور میں جہاں معاشرتی ناہمواریاں، اقتصادی مشکلات اور طبقاتی تفریق عروج پر ہیں، اسلامی اخوت اور بھائی چارگی کے اصولوں کو اپنانا مسلمانوں کے لئے نہایت ضروری ہوگیا ہے۔ اس کی چند ایک عملی صورتیں بیان کی جاتیں ہیں تاکہ سیرت البنی ﷺ کی روشنی میں یہ کام آسانی سے کیا جاسکے۔مواخات اسلامی کی ملکی اور بین الاقوامی صورتیں آسانی سے قائم کی جاسکتیں ہیں۔ ہم اس مختصر مقالے میں سیرت البنی ﷺ کی روشنی میں ملکی و بین الاقوامی سطح پر مواخات اور بھائی چارہ کی چند ایک صورتیں سامعین و قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

1۔ سوشل ویلفیئر تنظیمیں

 سوشل ویلفیئر تنظیموں کے ذریعے اسلامی اخوت کو فروغ دیا جا سکتا ہے جو لوگوں کی معاشی، تعلیمی اور سماجی مسائل میں مدد کر سکیں۔یہ کام دنیا بھر میں بھی آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔اور کسی حد تک ہوبھی رہا ہے مگر اس میں شفافیت اور وسعت کی ضرورت ہے۔

2۔مساجد کمیٹیاں

دنیا بھر میں مسلمانوں کی بڑی اور چھوٹی لاکھوں مساجد موجود ہیں۔مساجد کو اخوت اور بھائی چارگی کا مرکز بنایا جا سکتا ہے جہاں نمازیوں کے درمیان تعاون اور مدد کا نظام قائم کیا جا سکے۔اور مساجد ویسے بھی بہترین کمیونٹی سینٹر کا درجہ رکھتی ہیں۔رسول اللہ ﷺ اخوت ، ایثار اور تعاون کے کئی سلسلے مسجد نبوی سے چلایا کرتے تھے۔آج بھی مسلمان انتہائی آسانی سے کرسکتے ہیں۔ بس درد دل کی ضرورت ہے۔

3۔تعلیمی اور پیشہ ورانہ تربیتی مراکز

مواخات کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مفت تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیتی مراکز کا قیام ضروری ہے تاکہ ہر فرد اپنے معاشی مسائل کا حل خود نکال سکے۔دینی مدارس کسی حد تک یہ کام کرتی ہیں تاہم اس کو بھی ریاستی اور بین الاقومی سطح پر وسعت دینے کی ضرورت ہے۔

4۔فوڈ بینکس اور صحت کے مراکز

معاشرتی ناہمواریوں کو دور کرنے کے لئے فوڈ بینکس اور صحت کے مراکز کا قیام بھی اسلامی اخوت کا بہترین عملی مظہر ہو سکتا ہے۔اس کی بھی کچھ مثالیں ملک عزیز میں ملتی ہیں تاہم اس کام کو بھی انتہائی منظم اور وسیع پیمانے میں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی انسان بھوکا نہ رہے اور نہ ہی  بے علاج۔

5۔کمیونٹی سروسز

 اخوت اسلامی کے اصول کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کمیونٹی سروسز جیسے کہ صحت کے مراکز، یتیم خانوں، بیوہوں کی مدد اور بے روزگاروں کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کیے جا سکتے ہیں۔

6۔پناہ گزینوں اور بے گھر افراد کی مدد

 آج کے دور میں پناہ گزینوں اور بے گھر افراد کی مدد کرنا اسلامی اخوت اور بھائی چارگی کا عملی مظاہرہ ہو سکتا ہے۔ ان کے لئے عارضی رہائش اور بنیادی ضروریات کی فراہمی ایک اہم قدم ہے۔سیلاب اور قدرتی آفات سے متاثر لوگوں کو بھی اسی اخوت کے جذبے کے ساتھ تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔ہمارے ملک میں کچھ سال پہلے سیلاب نے تباہی مچادی تھی۔ اخوت فاؤنڈیشن نے اخوت اسلامی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی بساط سے زیادہ ان متاثرین کو گھر بنانے اور بسانے میں معاونت کی جو انتہائی  مستحسن ہے۔

7۔انسانی حقوق اور انصاف کے لئے کوششیں

 مواخات کا ایک اور عملی اطلاق یہ ہے کہ ہم انسانی حقوق اور انصاف کے قیام کے لئے بھرپور کوششیں کریں، اور مظلوموں کی مدد کریں تاکہ وہ معاشرے میں اپنے حقوق حاصل کر سکیں۔اس کام کو  بھی مختلف شکلوں میں کیا جاسکتا ہے۔

8۔ ملاقات، مصافحہ اور خبرگیری

یہ بھی اخوت کے اظہار کی ایک شکل ہے کہ اپنے مسلمان بھائی سے ملاقاتیں کریں، سلام کریں اوروقتا فوقتا  خبرگیری کرتے رہے۔

9۔عیادت، جنازہ اور دعوت

اخوت اسلامی کے لئے اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کریں، ان کے جنازوں میں شریک ہوجائیں اور دعوتوں کا اہتمام کریں۔

10۔تکالیف دینے سے بچنا،خطاؤں کو معاف کرنا

اخوت کی بہترین شکل یہ بھی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی سے حسد ،کینہ اور ضد نہ کریں اور نہ کسی قسم کا ظلم، استہزا، تحقیر و اہانت کریں۔اسی طرح اپنے مسلمان بھائی کی خطاؤں کو معاف کریں، عیوب چھپائیں اور غیبت سے پرہیز کریں۔

غزہ اور فلسطین کے مسلمانوں کیساتھ مواخات اور بھائی چارگی کا تصور

آج کی اس خوبصورت محفل میں ہم آپ سے غزہ اور فلسطین کے مسلمانوں کے لئے مواخات اور بھائی چارہ کی عملی صورتوں پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ غزہ اور فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ دنیا کیسے مواخات اور بھائی چارگی قائم کرسکتی ہے؟

غزہ اور فلسطین کے مسلمان ایک طویل عرصے سے ظلم و ستم اور جنگی حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمان اور انسانیت دوست افراد غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی اور بھائی چارگی کے جذبات رکھتے ہیں، لیکن ان جذبات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مخصوص اقدامات کی ضرورت ہے۔

اسلام میں مواخات اور بھائی چارگی کا تصور ہمیں اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے دکھ درد کو اپنا سمجھیں اور ان کی مدد کے لئے عملی اقدامات اٹھائیں۔ فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ مواخات قائم کرنے کے لئے دنیا بھر کے مسلمانوں اور انسانیت دوست افراد کو قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہئیں۔

قرآن مجید میں امداد و تعاون کی تعلیم

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

"وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ” (14)

ترجمہ: "اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی میں مدد نہ کرو ۔”

حدیث میں مدد اور حمایت کی اہمیت

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"مثل المؤمنين في توادهم وتراحمهم وتعاطفهم مثل الجسد الواحد، إذا اشتكى منه عضو تداعى له سائر الجسد بالسهر والحمى” (15)

ترجمہ: "مومنوں کی مثال آپس کی محبت، رحم دلی اور ہمدردی میں ایک جسم کی طرح ہے، اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو سارا جسم اس کی تکلیف میں شریک ہوتا ہے۔”

دنیا کے مسلمانوں اور انسانیت دوست افراد کے لئے عملی اقدامات

فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ مواخات اور بھائی چارگی قائم کرنے کے لئے دنیا بھر کے مسلمانوں اور انسانیت دوست افراد کو مندرجہ ذیل عملی اقدامات اٹھانے چاہئیں۔

1۔ مالی امداد اور انسانی ہمدردی کی خدمات

فنڈز کا قیام

دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنی مالی استطاعت کے مطابق فلسطین کے مسلمانوں کے لئے فنڈز جمع کرنے چاہئیں، تاکہ انہیں کھانے پینے، صحت کی سہولیات اور دیگر ضروریات زندگی فراہم کی جا سکیں۔

امدادی تنظیموں کی مدد

فلسطینی مظلوم بھائیوں سے اخوت قائم کرنے کے لئےایسی تنظیموں کی مدد کریں جو غزہ اور فلسطین میں انسانی ہمدردی کی خدمات انجام دے رہی ہیں۔امداد کرتے وقت نقالوں سے ہوشیار رہ کر ان تنظیموں کی مدد کی جائے جو حقیقی معنوں میں فلسطین کے مظلوں کے لئے کام کررہی ہیں۔

2۔سیاسی حمایت اور بین الاقوامی سطح پر آواز اٹھانا

سیاسی دباؤ

 دنیا کے مسلمان حکومتوں پر دباؤ ڈال سکتے ہیں کہ وہ فلسطین کے مسئلے کو اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر اٹھائیں۔ریاستی سطح پر موثر  آواز بلند کرنے کی اشد ضرورت ہے۔مسلم ریاستوں اور  اثر رسوخ رکھنے والے عالمی شخصیات کو اس حوالے سے مربوط پالیسی اور موقف اپنانے کی ضرورت ہے۔یہ بین الاقوامی سطح پر مواخات کی ایک بارآور کوشش ہوسکتی ہے۔

مظاہرے اور احتجاج

 دنیا بھر میں فلسطین کے حق میں مظاہرے اور احتجاج کریں، تاکہ عالمی برادری اس مسئلے پر توجہ دے اور اسرائیل پر دباؤ ڈالے۔ اور بالخصوص اسرائیل سے ہمدردی رکھنے والے ممالک کے سفارت خانوں تک اس احتجاج کو موثر انداز میں پہنچائے۔

3۔تعلیمی و تربیتی مدد

فلسطینی طلباء کے لئے تعلیمی وظائف

 دنیا بھر کے مسلمانوں کو فلسطینی طلباء کے لئے تعلیمی وظائف فراہم کرنے چاہئیں تاکہ وہ اپنی تعلیم مکمل کر سکیں اور مستقبل میں اپنے ملک کی خدمت کر سکیں۔اخوت کا یہ رشتہ بہت دیر پا ثابت ہوسکتا ہے۔

آن لائن تعلیمی مواد

 آن لائن تعلیمی مواد فراہم کیا جائے تاکہ فلسطینی طلباء اور نوجوان اپنی تعلیمی اور پیشہ ورانہ تربیت حاصل کر سکیں۔اور انہیں جدید دور کی آن لائن تعلیم  کی جو شکلیں ہیں ان کو اپنا کر انہیں اپنی مدد اور تعاون پہنچانا چاہیے۔

4۔سوشل میڈیا اور میڈیا کی حمایت

سوشل میڈیا مہمات

 سوشل میڈیا پر فلسطین کے مسئلے کو اجاگر کریں، اور دنیا بھر کے لوگوں کو اس بات سے آگاہ کریں کہ فلسطینی مسلمان کس طرح کے حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔سوشل میڈیا کے دسویں موثر فورم ہیں ان کو ہر سطح میں استعمال کرنا چاہیے۔

میڈیا ہاؤسز کی حمایت

ایسے میڈیا ہاؤسز کی حمایت کریں جو فلسطین کے مسئلے کو حقائق کے ساتھ دنیا کے سامنے لاتے ہیں۔یہ ہاوسز نیشنل اور انٹرنیشنل دونوں سطح پر موجود ہیں۔ان کے ہمنوا بننے کی ضرورت ہے تاکہ وہ مزید بہتر طریقے سے اس مسئلے کو مسلسل اٹھائیں۔

5۔انسانی حقوق کی تنظیموں کی حمایت

انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ تعاون

 انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ تعاون کریں جو فلسطین کے مسلمانوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں۔ یہ تنظیمیں بلارنگ و نسل اور علاقہ کام کررہی ہیں۔ ان کو متوجہ کرکے مزید ان کی ایکٹویٹیز کو فعال بنایا جاسکتا ہے۔

عالمی عدالت انصاف میں مقدمات

ایسے مقدمات کا حصہ بنیں یا سپورٹ کریں جو عالمی عدالت انصاف میں فلسطینی مسلمانوں کے حقوق کی بحالی کے لئے چلائے جا رہے ہیں۔عالمی عدالت انصاف کو اگر مسلم امہ اور مسلم ریاستیں مجبور کریں تو شاید بہت بہتری ہوسکتی ہے۔

6۔بائیکاٹ کی مہمات

بائیکاٹ اسرائیلی مصنوعات

 اسرائیلی مصنوعات اور کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں جو فلسطین میں ظلم و ستم میں ملوث ہیں۔اس حوالے سے موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

بائیکاٹ مہمات کی حمایت

بائیکاٹ مہمات کو عالمی سطح پر سپورٹ کریں تاکہ ان کی مؤثر رسائی ہو۔

7۔دعاؤں اور روحانی حمایت

مساجد میں دعائیں

 مساجد میں فلسطینی مسلمانوں کے لئے خصوصی دعائیں کی جائیں۔ الحمد للہ! ہمارے ملک میں مدارس و مساجد اور دینی اجتماعات میں فلسطینی بھائیوں کے حق میں مسلسل دعاؤں کا اہتمام جاری ہے ۔یہ بھی اعانت اور اخوت و ہمدردی کی شاندار روایت ہے۔

عبادات اور صدقات

 اپنی عبادات اور صدقات کا اجر فلسطینی مسلمانوں کے نام کر کے ان کے لئے دعائیں کریں اور اللہ تعالیٰ سے ان کی مدد کی دعا کریں۔

فلسطین اور غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ مواخات اور بھائی چارگی کا تقاضا ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان اور انسانیت دوست افراد اپنے اخلاقی، مالی، اور سیاسی وسائل کا استعمال کرتے ہوئے ان کی مدد کریں۔ یہ نہ صرف اسلامی اخوت کا تقاضا ہے بلکہ انسانی ہمدردی کی ایک اعلیٰ مثال بھی ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں ہم اپنے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کی مدد کر کے اللہ کی خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں اور ان کے دکھ درد میں شریک ہو سکتے ہیں۔آج نبی رحمت ﷺ کی سیرت کا یہی بین الاقوامی اخوت اسلامی کا تقاضہ ہے۔

حوالہ جات:

1 : القرآن، سورۃ الحجرات،آیت،10۔

2: القرآن، سورۃ آل عمران،آیت، 103۔

3: بخاری، صحیح بخاری،حدیث نمبر 6951۔

4: بخاری، صحیح بخاری، حدیث نمبر 6011۔

5:  ابن حبیب،المحبر (المکتب التجاری، بیروت)، ص 70۔

6:  البلاذری، احمد بن یحییٰ ، انساب الاشراف (تحقیق محمد حمید اللہ (دارالمعارف مصر ١٩٥٩)، ج١، ص ٢٧٠، ابن حبیب المحبر، ٧٠، ٧١،

7: المہودی ، وفاء الوفاء (بیروت ١٣٩٣ھ ج ١، ص ٢٦٦، ہاشم معروف حسنی، سیرت مصطفی،مترجم، سید علی رضا، ج اول، ص 231،جامعہ تعلیمات اسلامی کراچی پاکستان۔

8: ہیکل، محمد حسین  ،حیات محمد ،مترجم ابو یحیٰ،ص 389،طبع اول،علم و عرفان پبلشر۔

9: شبلی نعمانی، سیرۃ البنی،  ص  178، ج اول۔

10: بخاری، صحیح بخاری،ح ،3780 ۔

11: بخاری ، بخاری حدیث نمبر 3794۔

12: القرآن، سورہ حشر، آیت 9۔

13: عبداللہ ناصح علوان، اسلامی اخوت، ص 22 ، الدارالسلفیہ ممبئی انڈیا، 2001۔

14: القرآن،سورۃ المائدہ، 5:2۔

15: بخاری، صحیح بخاری، ح 6011۔

نوٹ: یہ مقالہ ریڈیو پاکستان کی طرف سے منعقدہ   سیرت سیمنار  میں ربیع الاول میں تمبر 2024 کو پڑھ کر سنایا گیا ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button