کالمز

گلگت بلتستان مجوزہ لینڈ ریفام ایکٹ 2024 پر عوامی تحفظات

تحریر۔ اشفاق احمد ایڈوکیٹ 
مورخہ 27 اکتوبر 2024 بروز اتوار کو گلگت بلتستان اسمبلی سے ایک متنازعہ بل بعنوان گلگت بلتستان لینڈ ریفام ایکٹ 2024 پاس  کرنے کا پورا اہتمام کیا گیا تھا جس کے تحت گلگت بلتستان کی خالصہ سرکار اراضیات سیمت دیگر تمام اراضیات پر قانون سازی کرنا مقصود تھا لیکن اپوزیشن اراکین کی جانب سے شدید تحفظات کی بنا پر اس بل کو موخر کیا گیا ہے۔
قائد حزب اختلاف گلگت بلتستان اسمبلی میثم کاظم نے گزشتہ روز میڈیا کو بتایا کہ اپوزیشن اراکین نے اسپیکر گلگت-بلتستان اسمبلی نظیر احمد ایڈوکیٹ سے ملاقات کیا اور اپنے تحفظات سے آگاہ کیا تو یہ مجوزہ بل موخر ہوا ہے، کیونکہ اس بل پر اپوزیشن اراکین اور دیگر تمام اسٹیک ہولڈرز کو شدید تحفظات ہیں۔
 میثم کاظم نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ” گلگت بلتستان کو ہمیشہ کے لئے بنا شناخت کے نہیں رکھا جاسکتا ہے اس لئے گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر طرز کا نظام  دیا جائے یا عوام کی منشاء کے مطابق حقوق دیئے جائے۔ 
عوام اور ریاست کے درمیان خلیج دور کرنے کے لیے زمینوں کی ملکیت عوام کو دینا لازمی ہےاور زمینوں کی تحفظ کے لئے گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رول بحال کرنا ناگزیر ہے انہوں نے مزید کہا کہ سٹیٹ سبجیکٹ رول کے خاتمہ کا فیصلہ ایک سیاہ فیصلہ تھا اور اب اس مجوزہ بل کا مقصد بھی عوامی زمینوں کو سرکاری ملکیت قرار دینا ہے لیکن گلگت بلتستان جیسے متنازعہ علاقہ میں خالصہ سرکار کی بنیاد پر عوامی اراضیات کو حکومت کی ملکیت قرار نہیں دیا جا سکتا ہے لہذا اس قانون کے پاس ہونے کی صورت میں گلگت بلتستان میں تصادم اور بحران کی کیفیت پیدا ہو گی”۔
گلگت بلتستان  مجوزہ لینڈ ریفارمز ایکٹ 2024 پر عوامی تحفظات کو سمجھنے سے قبل اس مجوزہ ایکٹ کی منشاء اور اہم خصوصیات کو سمجھنا ضروری ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ گلگت بلتستان کے لوگوں کو قابل تقسیم  اراضیات پر ملکیتی حقوق دے کر اس زمین کا موثر طریقہ کار فراہم کرنا ہے جس سے گلگت بلتستان کے لوگ استفادہ کر سکے ،  یہ اس قانون کا بنیادی منشاء بتایا گیا ہے۔ بادی النظر میں اس مجوزہ لینڈ رفارمز بل کا مقصد خالصہ سرکار اراضیات سیمت دیگر تمام اراضیات کو عوام میں تقسیم کرنا ہے لیکن اس مجوزہ قانون کے دفعات سے لگتا ہے اس قانون کا مقصد اس کے بلکل برعکس ہے۔ 
مثال کے طور پر  اس بل میں ناقابل تقسیم اراضی کی تعریف  میں گلگت بلتستان کی خالصہ اور غیر خالصہ تمام اراضیات  شامل ہیں۔ مثلا اس مجوزہ ایکٹ کی دفعہ نمبر 2  میں لکھا گیا ہے کہ "ناقابل تقسیم اراضیات میں قدرتی جنگلات، دریا، ندیاں، نالہ جات، نہریں،  تالاب، کنویں اور راستے جو ذیلی اراضی تقسیمی بورڈ کے ذریعے متعین کئے گئے ہیں اس کے علاوہ پہاڑ،  موسمی چراگاہیں،  اور وہ علاقے جو فلحال قانون یا ضابطہ کے تحت ناقابل تقسیم ہیں اس کے ساتھ کھیل کے میدان، لیز شدہ اراضیات اور ایسی اراضیات جو ماحولیاتی لحاظ سے اہم ہے ناقابل تقسیم ہے، نیز سڑکیں،  شاہراہ عام کھیل کے میدان، قبرستان،  مذہبی عبادت گاہیں،  اجتماعات کے لئے مخصوص مقامات ، آثار قدیمہ اور ورثہ کے مقامات اور عام استعمال کے لیے مخصوص مقامات،  ذیلی اراضی تقسیمی بورڈ کی طرف سے تقسیم سے قبل لوگوں کے اجتماعی فائدہ کے لیے مختص کیا گیا رقبہ ، سرکاری اراضی، قابل تقسیم اراضی یا اس کا کوئی حصہ جس سے گلگت بلتستان تقسیم اراضی بورڈ میں ڈویزنل فورم کے ذریعے ضلعی تقسیمی بورڈ کی سفارشات پر نامزد کیا گیا ہے تاکہ اجتماعی فایدہ کے لیے اس کی مخصوص قیمت کی وجہ سے ناقابل تقسیم اراضی کے طور پر محفوظ کیا جائے۔
اس مجوزہ قانون میں زمین کی تعریف میں لیز شدہ اراضیات کو بھی شامل کیا گیا ہے  اس وقت پورے گلگت بلتستان میں ہزاروں مربع کلومیٹرز ایریا/ پہاڑ وغیرہ لیز پر دئے گئے ہیں، ان تمام لیز شدہ اراضیات یا پہاڑوں کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔۔
2۔  اس مجوزہ ایکٹ میں 1978 سے اب تک جتنی اراضیات حکومت، وفاقی حکومت یا مختلف اداروں کو الاٹ کیا گیا ہے ان کو قانونی قرار دیا گیا ہے۔ واضح رہے  گلگت بلتستان میں عوام اور سرکار کے درمیان ان عوامی ملکیتی اراضیات کی ملکیت پر مختلف عدالتوں میں کئی مقدمات بھی زیر سماعت ہیں اور کئی مقدمات میں عدالتوں سے فیصلہ بھی صادر ہو چکے ہیں لیکن زیر اپیل مقدمات کی وجہ سے عملدرآمد نہیں ہونے کی وجہ سے عوام مختلف اوقات میں احتجاج کرتے رہتے ہیں۔
3۔  یہ کہ مجوزہ لینڈ ریفارمز بل دراصل بااثر افراد/ اتھارٹیز کو تحفظ دیتا ہے کیونکہ اس قانون کے پاس ہونے کی صورت میں  سال 1978 سے اب تک انتقال شدہ تمام اراضیات کو قانونی تحفظ حاصل ہوگی مثال کے طور پر اس مجوزہ ایکٹ کے باب دوم میں لکھا گیا ہے کہ اس قانون کے تحت کام کرنے والا کوئی  افسر یا اتھارٹی کسی بھی عدالت میں ایسی کارروائیوں کے لئے جوابدہ نہیں ہوگا وہ اس  ایکٹ کے تحت کسی بھی ایسے افسر یا اتھارٹی کے خلاف کسی کورٹ میں مقدمہ دائر نہیں کر سکیں گے اور انہیں اس ایکٹ کے تحت استثنا حاصل ہوگا۔
4۔ اس ایکٹ کے تحت کلکٹر اور زمین کا تقسیمی بورڈ سیاہ و سفید کے مالک ہوں گے۔ ایک کلکٹر عوام کو ان کی زمین کی ملکیت کا سند شرائط کے تحت دے گا اور جب چاہے ختم کرے گا۔ مثلا اس ایکٹ کے دفعہ 12 کے ذیلی دفعہ چار کے تحت کلکٹر کے پاس اختیار ہے کہ وہ سند ملکیت کو منسوخ کر دے اگر بیان کردہ شرائط اور پابندیوں کی خلاف ورزی کی گئی ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ایکٹ میں ان شرائط کا کوئی ذکر نہیں ہے جن کے تحت کلکٹر سند ملکیت جاری کرنے اور ختم کرنے کا مجاز ہے۔
5۔ اس مجوزہ ایکٹ کے دفعہ 18 کے تحت سول عدالتوں کے اختیار سماعت پر پابندی لگا کر کلکٹر کو مکمل اختیارات تفویض کئے گئے ہیں جو کہ بنیادی اصول انصاف کے خلاف ہے اور ایسا قانون آئین پاکستان کے آرٹیکل 10A کی بھی صریحا خلاف ورزی ہے۔
اہم سوال یہ ہے کہ زمینوں کی ملکیت پر حکومت کے ساتھ مقدمہ ہو اور کلکٹر بطور جج حکومت کے خلاف کس طرح فیصلہ کرے گا؟ حالانکہ یہ لا اف نیچرل جسٹس کا بنیادی اصول ہے کہ کوئی بھی شخص اپنے مقدمہ میں خود جج نہیں بن سکتا ہے۔
6۔  یہ کہ مجوزہ ایکٹ پاس  ہونے کی صورت میں اس قانون کے تحت کام کرنے والے عملہ محکمہ مال قانون کی گرفت سے ماورا ہو جایئں گے، کسی عدالت میں ان کے خلاف دیوانی مقدمہ دائر نہ ہو گا۔
7۔ غیر قانونی طور پر فروخت کرنے والوں کا اس بل میں تذکرہ ہے مگر غیر قانونی طور پر مل ملاپ کرکے ہزاروں کنال عوامی اراضیات اپنے نام انتقال کرانے والے افراد سے  یہ اراضیات واپس لینے کا کوئی فارمولا نہیں دیا گیا ہے۔
8۔ گلگت بلتستان میں settle اور unsettled  علاقہ جات پر اس قانون کا یکساں اطلاق ہوگا۔ حالانکہ دیامر،  ہنزہ نگر اور غذر میں خالصہ سرکار نامی کوئی اراضیات موجود نہیں ہیں۔ اس کے باوجود اس مجوزہ ایکٹ کے ذریعے وہاں کے پہاڑ مدینات ، جنگلات، چراگاہوں اور بنجر اراضیات پر قبضہ کے لیے دروازہ کھولا گیا ہے۔ 
9۔ گاؤں کی کمیٹیوں میں ڈی سی اپنے مرضی کے اشخاص لے گا۔ بجائے کہ ہر گاوں سطح پر کمیٹی ہو مگر  صرف نمبردار کے علاوہ کوئی نمائندگی نہیں ہے اس کے ساتھ علاقہ کے منتخب ممبر کو کلکٹر کے نیچے بطور ممبر رکھا گیا ہے۔
10۔ سب سے اہم بات اس مجوزہ ایکٹ پر عوامی سطح پر بچث و مباحثہ نہیں کیا گیا ہے اور یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ گلگت بلتستان میں کون سی اراضیات خالصہ سرکار ہیں؟ اور 1978 سے اب تک کس ادارے کو کتنی اراضیات انتقال کیا گیا ہے؟ اس ایکٹ کے دفعہ 2 میں سرکاری اراضی کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے سرکاری اراضی سے مراد وہ زمین ہے جو حکومت یا کسی وفاقی حکومت کے محکمہ ادارے یا اتھارٹی کو الاٹ کی گئی ہو یا حاصل کی گئی ہو یا خریدی گئی ہو یا لیز پر دی گئی ہو یا اس کے قبضے میں ہو یا جو بندوبستی ضلع کے ریوینو ریکارڈ میں درج شدہ ہو یعنی اس ایکٹ کا مقصد ان اراضیات کو تحفظ دینا ہے جن پر عوام اور سرکار میں تنازعات موجود ہیں۔
11۔ ہر موضع کے اندر کئی پتیاں/گاوں ہوتے ہیں اور ہر گاوں یا پتی کی موضع کے اندر بھی اپنی اپنی حدود ہوتی ہے شاملات دہ بھی  ہرگاوں/پتی کی الگ الگ ہوتی ہے لیکن مجوزہ ایکٹ میں حدود کا زکر یا تعین نہیں کیا گیا ہے جس سے موضع کے اندر تنازعات مزید بڑھیں گے۔
12۔ اس مجوزہ بل کے تحت گرین کمپنی کو لیز پر دی گئی تمام اراضیات کو قانونی تحفظ حاصل ہوگی جس پر حالیہ مہینوں میں پورے گلگت بلتستان بالخصوص بلتستان ریجن میں سخت احتجاج ریکارڈ کرایا گیا تھا۔
لہذا اس  مجوزہ ایکٹ کی ان خصوصیات سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس قانون کا بنیادی مقصد و منشاء کیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام بالخصوص حکومتی ممبران کو اس قانون کو غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے اور اس قانون کا از سر نو جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے  تاکہ عوامی تحفظات کو دور کیا جائے اور عوامی مفادات کا تحفظ ہو سکے، 
کیوں کہ اس وقت پورے گلگت بلتستان میں اس مجوزہ ایکٹ پر شدید تشویش اور تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے مثلا  مورخہ 26 اکتوبر 2024 کو بلتستان بار ایسوسی ایشن نے اس متنازعہ مجوزہ ایکٹ کے خلاف ایک متفقہ قرارداد پاس کی ہے ” شرکاء اجلاس نے متفقہ طور پر مذکورہ بل کو گلگت بلتستان کے عوامی حقوق سے یکسر متصادم قرار دے کر مسترد کیا ہے۔ اجلاس میں متفقہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اگر گلگت بلتستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بنا یہ بل اسمبلی میں پیش ہوتا ہے یا  پاس ہونے کی صورت میں عوام کو متحرک کرکے عوامی تحریک کا آغاز کرینگے، مذکورہ بل کو اس کی موجودہ صورت میں  نوتوڑ رول سے بھی بھیانک قرار دیا گیا۔ وکلاء نے مذکورہ بل کو عوام کی بجائے سرکاری مشینری کے مفاد میں قرار دے کر مسترد کیا کیونکہ بل میں عوامی مفاد کو ترجیح دینے کے بجائے کلکٹر کو وائسرائے بنانے کی کوشش کی گئی ہے، نیز کلکٹر زمینوں کو خود تقسیم کرے گا اور اور خود فیصلہ کرے گا  جو کہ حتمی ہوگا جس کے خلاف کسی دیوانی عدالت میں قانونی چارہ جوئی نہیں ہوگی۔
اجلاس میں متفقہ فیصلہ کیا گیا کہ قابل تقسیم اور نا قابل تقسیم اراضی اور گورنمنٹ لینڈ کی آڑ میں پورے گلگت بلتستان کی عوامی ملکیتی چراگاہوں اور ملکیتی بیرون لین اندرون لین اراضیات جو کہ عوام کے آباو اجداد نے آباد کی ہوئی ہے کو حکومتی قبضے میں لینے کیلئے مذکورہ بل ایک سازش ہے۔ مذکورہ بل میں حکومت کی جانب سے بلتستان کے عوامی چراگاہوں ،پہاڑوں اور میدانوں کو جو غیر مقامی افراد کو لیز پر دیا ہوا ہے ان کو تحفظ دینے کی کوشش کی گئی ہے جو کہ عوامی مشترکہ حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے”۔
بقول قائد حزب اختلاف گلگت بلتستان اسمبلی میثم کاظم گلگت بلتستان کی تمام اراضیات کے مالک یہاں کے مقامی باشندے ہیں، اس لئے تمام بنجر اراضیات،  جنگلات، پہاڑ،چراگاہوں، مدینات، تالاب جھیلوں،  اور تمام قابل تقسیم اور نا قابل تقسیم اراضیات کی ملکیت گلگت بلتستان کی رواجی قوانین کے تحت عوام کو دی جائے البتہ اگر حکومت کو اراضیات کی ضرورت ہے تو وہ مروجہ قانون لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کے تحت عوام کو معاوضہ ادا کرکے زمین حاصل کرے نہ کہ خالصہ سرکار اراضیات کو حکومت کی ملکیت قرار دے کر اپنی غیرقانونی قبضہ کو دوام بخشنے اس طرح کے اقدامات سے گلگت بلتستان میں بحران اور تصادم کی کیفیت پیدا ہوگی۔
اس مجوزہ قانون کا بغور جایزہ لینے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس قانون کا واحد مقصد گلگت بلتستان کی تمام خالصہ سرکار اراضیات کو عوامی ملکیت ڈیکلر کرنے کی بجائے جنگلات،  پہاڑ ، مدینات، چراگاہوں اور تمام لیز شدہ اراضیات کو ناقابل تقسیم قرار دے کر  حکومت کی تحویل میں دینا ہے نیز 1978 سے اب تک عوامی مشترکہ اراضیات سے کی گئی غیر قانونی انتقالات کو قانونی تحفظ فراہم کرنا ہے،  اور اس قانون کی آڑ میں unsettled علاقہ جات جہاں خالصہ سرکار اراضیات کا کوئی وجود نہیں ہے یعنی دیامر ہنزہ نگر اور غذر ان علاقوں کے وسائل اور اراضیات پر حکومتی گرفت کو مضبوط بنانا اور اس کے لئے قانونی جواز فراہم کرنا ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button