یکم نومبر، سفر آزادی کی طرف پہلا قدم
یکم نومبر 2024 کو قراقرم نیشنل موومنٹ اور قراقرم سٹوڈنٹس ارگنائزیشن کی طرف سے مرکزی سطح پر پہلی بار ضلع استور میں سیمینار بعنوان یکم نومبر 1947 سفرآزادی کی طرف پہلا قدم کے طور پر منایا گیا جس میں ضلع استور سے تعلق رکھنے والے سیاسی سماجی مذہبی قوم پرست و ترقی پسند جماعتوں کے رہنماؤں کے علاوہ قراقرم نیشنل مومن و قراقرم سٹوڈنٹس ارگنائزیشن کے مرکزی رہنماؤں اور کارکنوں نے ہنزہ نگر گلگت جلال آباد سے خصوصی شرکت کی۔
کےایس او اور کے این ایم کی طرف سے جشن آزادی گلگت بلتستان کے بجائے یکم نومبر 1947 سفر آزادی کی طرف پہلا قدم کے عنوان سے سیمینار منعقد کرنے کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟
ذرا تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے تبصرہ و تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام اور نوجوانوں کو شعور فراہم کیا جائے اور سیاسی مزاحمتی جدوجہد کو تیز کیا جا سکے اور اپنی قوم کے بہتر مستقبل قومی شناخت کی بحالی کے لیے کردار ادا کر سکے
تاریخی لحاظ سے خطہ قراقرم اپنی جغرافی ثقافت کلچر زبان کےحوالے سے منفرد حیثیت کا حامل رہا ہے ۔سوویں صدی سے لے کر 1846 تک گلگت بلتستان میں مقامی ریاستیں رہی ہیں۔ دردستان بروشال بلورستان ہنزہ نگراور دیگر ریاستوں کی شکل میں یہاں مقامی حکمرانوں نے حکومت کی ہے۔ ان حکمرانوں میں علی شیر انچن، دادی جواری، گوہر امان جیسے مقامی راجاؤں نے اپنا نظام حکومت قائم کیا جس میں دفاع عدلیہ مقننہ کرنسی اور پارلیمنٹ جیسے ادارے شامل تھے
۔1846 میں جب گلاب سنگھ نے معاہدہ امرتسر کے تحت جموں کشمیر نامی ریاست تشکیل دی تو گلگت بلتستان کا اکثریتی علاقہ بھی جموں کشمیر ریاست کے زیر کنٹرول آیا اور گلگت بلتستان کو تیسرا صوبہ بنایا گیا لداخ گلگت کے نام سے، جس کا آخری گورنر گھنسارا سنگھ تھا۔ تقسیم برصغیرکے برطانوی ایجنڈے کے مطابق ریاستوں کے سربراہوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی سے فیصلہ کریں انڈیا یا پاکستان یا خود مختار ریاست کے طور پہ سابقہ ریاستوں کو بحال کیا رکھنا چاہتے ہیں۔ جس پر جموں کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنی ریاست کو خود مختار رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے نو مولو ریاست پاکستان و انڈیا کے ساتھ سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ کی پیشکش کی جسے پاکستان اور انڈیا نے تسلیم کرنے سے انکار کیا اور وقت مانگا۔ اس دوران پاکستان کی طرف سے افغان قبائل اور فوج کے ذریعے 22 اکتوبر 1947 کو ریاست جموں کشمیر پر قبضہ کرنے کے لیے حملہ کیا گیا جس پر ریاست کے سربراہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے انڈیا سے مدد کی درخواست کی۔ انڈیا نے مدد کرنے سے انکار کرتے ہوے مدد کو الحاق انڈیا سے مشروط کیا جس پر ہری سنگھ نے ریاست کا عبوری طور پہ الحاق انڈیا کے ساتھ کیا اور 27 اکتوبر 1947 کو انڈیا نے فوج جموں کشمیر میں اتاری اور دونوں ممالک کے درمیان جنگ جاری رہی جس میں جموں کشمیر ریاست کے عوام کا قیمتی انسانی جانوں اور عزت و ناموس کی دھجیاں اڑائی گئیں اور علاقے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔
بعد میں انڈیا مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے کر گیا گیا اور پاکستان کی طرف حملہ آور ہونے کا مقدمہ قائم کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے 1948 اور 1949کی قراردادوں کے مطابق یہ طے پایا کہ جموں کشمیر ریاست کا فیصلہ استصواب رائے کے ذریعے کیا جائے گا تب تک دونوں ممالک مقامی عوام کو زیادہ سے زیادہ با اختیار بنانے اور ان کے بنیادی انسانی حقوق کو یقینی بنانے کے احکامات جاری کیے گیے، اور ساتھ ساتھ ایک قرارداد پاس کی گئی جس میں دونوں ممالک کو لوکل اتھارٹی قائم کرنے کے احکامات دیے گئے اور ساتھ ساتھ دونوں ممالک کو اپنی فوج مقبوضہ علاقوں سے باہر نکالنے کا حکم دیا گیا
اکتوبر کے مہینے میں ہی گلگت سکاؤٹس کے نوجوانوں نے گلگت بلتستان کو حسن خان کی قیادت میں آزاد کرنے کے منصوبے پر جد وجہد شروع کی اور 31اکتوبر کو گورنر گورنر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کیا اور یکم نومبر 1947 کو جمہوریہ گلگت کے قیام کا اعلان کیا اور راجہ شاہ رئیس کو صدر اور کرنل حسن خان کو کمانڈر ان چیف نامزد کیا گیا۔
بدقسمتی سے سیاسی تحریک اور قیادت نہ ہونے کی وجہ سے نومولود ریاست کو 16 نومبر 1947 کو میجر براؤن کی سازش اور اپنوں کی نادانی کی وجہ سے ختم کیا گیا اور خیبر پختون خواہ سے آئے ہوئے نائب تحصیلدار سردار عالم کو پولیٹیکل ایجنٹ نامزد کر کے ایف سی آر جیسے کالے قانون کا نفاذ کیا گیا جس میں سیاسی پارٹی بنانے، اظہار رائے اور نقل و حمل پر پابندی لگائی گئی اور پولیٹیکل ایجنٹ کے ذریعے سخت احکامات کے ذریعے نظام حکومت چلایا گیا اور مقامی لوگوں کو پسماندہ و بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا۔
یہ سلسلہ 1947 سے 1970 تک قائم و دائم رہا ۔ 1970 کی دہایی میں ایف سی آر کا خاتمہ کیا گیا اور سیاسی ریفارمز لائی گئیں۔ تب بھی ایک کونسل بنائی گئی جس کے اختیارات ایک بلدیاتی کونسل سے زیادہ کے نہ تھے۔
1994 میں ایل ایف او لیگل فریم ورک ارڈر اور 2009 میں گلگت بلتستان گورننس آرڈر کے علاوہ 2018 میں بھی آرڈر کے ذریعے گلگت بلتستان میں نظام حکومت چلایا جا رہا ہے جو کہ کسی قوم کے شناخت اور بنیادی حقوق کے نعم البدل نہیں ہیں۔
آرڈر اور پیکجز فیکٹریوں کے ملازمین کو مزدوروں کو دیے جاتے ہیں جبکہ قوموں کے پاس اختیارات ہوتے ہیں۔ فیصلے کے اختیارات حق حاکمت کے اختیارات حق ملکیت اختیارات جسے 21ویں صدی میں بھی گلگت بلتستان کے 20 لاکھ عوام کو محروم محکوم مظلوم رکھا گیا ہے اج بھی گلگت بلتستان کے عوام اپنے سرزمین میں مہاجروں کی طرح غیروں کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔
آج بھی وقت کا تقاضہ ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام بلا تفریق رنگ، نسل، فرقہ و علاقہ متحد ہو کر ایک قوم بنیں اور اپنی حقوق شناخت خود مختاری اور آزادی کی بحالی کے لیے جدوجہد کریں تو یقینا ایک دن گلگت بلتستان بھی دیگر اقوام کی طرح خود مختار و آزاد ہوگا۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو بیدار کریں، شعور دیں اور زیادہ سے زیادہ مزاحمتی جدوجہد کریں اور جو پاکستان نواز پارٹیاں ہیں، چاہے رائیونڈ کی پارٹیاں ہوں، لاڑکانہ کی پارٹیاں ہوں یا پھر بنی گالہ کی، ان سب کا مکمل بائیکاٹ کریں اور جو مقامی قوم پرست اور ترقی پسند سیاسی پارٹیاں ہیں ان کا ساتھ دیں تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل بہتر ہو سکے