کالمز

ڈیجٹل لٹریسی وقت کی اہم ضرورت ہے

پاکستان میں گذشتہ چند سالوں میں سیاسی و مذہبی راہنماوں اور ججز سمیت کئ لوگوں کی نجی ویڈیوز وائرل ہوچکی ہیں۔ ایسی ویڈیوز کو سوشل میڈیا استعمال کرنے والے لاکھوں صارفین ثواب سمجھ کر آگے پھیلاتے اور ان پر تبصرے و تجزے کرتے رہے ہیں۔ ان تبصروں کے دوران غیر جانبدارانہ اور سائنسی تبصرے و تجزئے کم جبکہ پسند نا پسند کی بنیاد پر طنز اور تنقید زیادہ کیا جاتا ہے۔ اگر زیر بحث فرد اپنے پسند کے قبیلہ، پارٹی، مسلک یا تنظیم سے تعلق رکھتا ہے تو اس کے حق میں دلائل کے انبار لگا دئیے جاتے ہیں اور اگر مخالف گروپ کا ہے تو اس پر لعن طعن میں کوئی کسر باقی نہیں رکھا جاتا ہے۔ ایک مولانا صاحب کی ایک لڑکے کے ساتھ بدفعلی کی ویڈیو وائرل ہوئی تو اس کے حمایتی لوگ مکمل خاموش تھے جبکہ دیگر تمام لوگ اس پر لعن طعن کر رہے تھے۔ پی ٹی آئی کے اعظم سواتی اور مسلم لیگ ن کے سابق گورنر محمد زبیر کی ویڈیوز پر ان کی پارٹیوں کے لوگ ان کی دفاع کرتے رہے جب کہ مخالف پارٹیوں کے لوگ تنقید، تبصرے ، تجزیئے اور گالم گلوچ کرتے رہے۔
کسی خاتون کی نجی ویڈیو منظر عام پر آگئ تو تمام مردوں کی غیرت ایک ساتھ جاگ جاتی ہے ۔ اس کا مسلک ، زبان ، عقیدہ اور علاقہ وغیرہ دیکھ کر اس پر حسب توفیق تنقید کے تیر برسائے جاتے ہیں۔ اس میں خاص خیال یہ رکھا جاتا ہے کہ ویڈیو میں موجود مرد پر ہرگز تنقید نہ کی جائے بلکہ فحاش ویڈیو کی تمام تر ذمہ داری عورت پر ڈالی جائے تاکہ پدر شاہی کے نسب در نسب چلنے والے سلسلے کو گزند نہ پہنچ پائے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد گیارہ کروڑ سے زائد ہے جن میں اکثریت ڈیجٹل رائٹس، سائبر کرائمز اور سائبر سیکورٹی کی الف ب سے واقف نہیں ہیں۔ یہ لوگ نہ صرف سائبر کی دنیا سے ناواقف ہیں بلکہ عام زندگی میں بھی ایک مہذب معاشرے میں رائج اخلاقی اقدار سے ناواقف ہیں۔ جس کا ثبوت پاکستان میں جرائم سے متعلق پولیس کا ڈیٹا ہے۔ اس کے علاوہ وہ غیر مہذب معاشرتی رویے بھی ہیں جن کا ہم روز مرہ ذندگی میں اپنے آس پاس مشاہدہ کرتے ہیں، جن میں جسمانی، جنسی اور نفسیاتی تشدد، لوگوں کی عزتیں اچھالنا، کردار کشی کرنا، عورتوں کو پبلک مقامات اور کام کی جہگوں پر حراساں کرنا، راہ چلتی خواتین کو گورنا اور ان کی غیبت کرنا، بات بات پر الزامات لگانا ، جھوٹ بولنا، ملاوٹ کرنا ، ناپ تول میں ڈنڈی مارنا، کسی بھی خبر کو بغیر تحقیق کے آگے پھیلانا جیسی دیگر غیر مہذب سرگرمیاں اور رویے شامل ہیں۔
اب چونکہ دنیا ڈیجٹیل ہوگئ ہے ۔ ہر ایک فرد کے ہاتھوں میں سمارٹ فون، آئی پیڈ ، لیپ ٹاپ اور کوئی نہ کوئی ڈیجٹل ڈیوائس موجود ہے ایسے میں ان معاشرتی رویوں کاڈیجٹل ورلڈ یعنی سوشل میڈیا وغیرہ میں بھی جھلک نظر آنا ایک فطری امر ہے۔ یہی وجہ ہے پاکستان میں سائبر کرائمز میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان گلوبل سائبر سیکورٹی انڈیکس میں سرفہرت ممالک میں شامل ہے جہاں سائبر کرائمز سب سے زیادہ ہیں اور ماہرین کا خیال ہے کہ یہی صورتحال برقرار رہی تو مستقبل میں ملک میں سائبر کرائمز کی شرح میں مزید اضافہ ہوگا۔ گویا پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں اکثریت آبادی انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل ڈیوائسسز کا غلط استعمال کرتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جو لوگ سوشل میڈیا میں اخلاقیات اور تہذیب کا روایتی درس دیتے ہیں وہ بھی سائبر کرائمز کی ابجد سے نا واقف ہیں۔ جس کی مثال یہ ہے کہ وہ جس فوٹو، ویڈیو یا کنٹنٹ کو نازیبا قرار دینے کے باوجود اس کو آگے پھیلاتے ہیں وہ بذات خود سائبر کرائم ہے۔ اگر وہ ویڈیو کسی نے لیک کی ہے تو وہ جرم ہی ہے ساتھ میں اس ویڈیو کو پھیلانے والا بھی مجرم ہے کیونکہ یہ سب پرایویسی بریچ میں آتا ہے۔ اگر وہ ویڈیو پورن ہے اور کسی بندے نے اپنی مرضی سے پھیلائی ہے تو بھی وہ فحاشی کے زمرے میں آئے گی اور اس کو پھیلانا بھی ایک جرم ہے۔ یعنی دونوں صورتوں میں یہ ایک مجرمانہ عمل ہے۔ اسی طرح تشدد، خون آلود تصویریں سمیت ایسا مواد جو تشدد کو جنم دے اور نفرت پھیلانے کا باعث بنے وہ بھی ایک جرم ہے۔
پاکستان پچیس کروڑ لوگوں کا ملک ہے یہاں ہر طرح کے جرائم پہلے سے رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔ سائبر کرائمز کی دنیا یہاں کے لوگوں کے لئے نئی ہے۔ سائبر کرائمز یا غیر مناسب مواد کا سوشل میڈیا میں تشہر ، تبصرہ یا تجزیہ کرتے وقت صارفین اس بات پر غور نہیں کرتے ہیں کہ جو ویڈیو منظر عام پر آئی ہے یا لائی گئ ہے اس کے پیچھے حقائق کیا ہیں؟ سوشل میڈیا میں وائرل ہونے والی کوئی بھی ویڈیو فیک نیوز اور پرپیگینڈا کا حصہ بھی ہوسکتی ہے۔ دوسرا یہ کہ ہر ویڈیو کے پیچھے ایک پس منظر ہوتا ہے۔ کوئی ویڈیو فیک بھی ہوسکتی ہے جو کسی فرد کی شہرت کو داغدار کرنے کے لئے جعلی طریقے سے بنائی گئ ہو یا کسی سے بدلہ لینے کے لئے بنائی گئ ہو کیونکہ فیک ویڈیو بنانا آج کے زمانے میں کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
پاکستان میں فیک آئی ڈی بنانا بھی ایک عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں انٹر نیٹ استعمال کرنے والے صارفین کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہے جو سوشل میڈیا میں نظر آنے والی ہر تصویر ، ویڈیو اور خبر کو اصل سمجھتے ہیں، وہ عام زندگی میں بھی کسی خبر کی تصدیق کرنے کے عادی نہیں ہوتے اس لئے سوشل میڈیا کے استعمال میں بھی ان کا یہی رویہ ہوتا ہے۔
حالانکہ سوشل میڈیا میں نظر آنے والی کسی برہنہ تصویر یا ویڈیو کے بارے میں سب سے پہلے یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ اصلی ہے یا نقلی، دوسرا یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اگر یہ ویڈیو اصلی ہے تو پھر یہ ویڈیو کن حالات میں بنائی گئ ہے۔ کسی کو اغوا کر کےگن پوائنٹ پر بنائی گئ ہے ، کسی کے ذاتی کمرے میں خفیہ کیمرے نصب کرکے بنائی گئ ہے، کسی کو لالچ دے کر بنائی گئ ہے یا کسی نے اپنی خوشی سے بنائی ہے۔ اگر فرض کریں کہ ایسی ویڈیو اپنی مرضی سے بنائی گئ ہے تو وہ اس فرد کا ذاتی فعل ہے اور وہ ویڈیو اس کی ہرایسویسی ہے۔ کسی وجہ سے اس کی پرایویسی بریچ ہوئی ہے تو وہ قانون کی مدد سے اس کو روکنے کا حق رکھتا ہے اور اس ویڈیو کو وائرل کرنے والے کو سزا مل سکتی ہے۔ چونکہ اس کی مرضی سے بنائی گئ ویڈیو سائبر قوانین کے مطابق اس کی پرایویسی ہے ایسی ویڈیو کو پھیلانا بھی سائبر کرائمز کے مطابق جرم ہے۔
فرض کریں ویڈیو کسی ایک فرد یا دو افراد نے باہمی رضا مندی سے بنائی اور پھر اپنی شہرت کے لئے یا ذہنی حالت خراب ہونے کی وجہ سے خود اس کو وئرل بھی کی ہے تو ایسی صورت میں بھی دیگر افراد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اس مواد کو مزید آگے پھیلائیں کیونکہ فحاش مواد پھیلانا اخلاقی طور پر بھی جائز نہیں ہے۔
چانچہ ہر صورت میں ایسے مواد پر تجزیہ، تبصرہ اور اس کی تشہیر ڈیجٹل ڈیوائسسز کے منفی استعمال کے زمرے میں آتا ہے۔ ہمارا معاشرہ پہلے سے ایک منفی معاشرہ تھا اب وہ اپنی منفی ذہنیت کو ڈیجیٹل دنیا میں شفٹ کر چکا ہے۔ دنیا انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل ڈیوائسسز کو مثبت اور ترقی کے کاموں کے لئے استعمال کرتی ہے جب کہ ہمارے ہاں اس کو اپنی منفی ذہنیت کی ترویج کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ کسی کا ذاتی نوعیت کے مواد پر اخلاقیات کا درس دینے والوں کو چاہئے کہ وہ اپنی نوجوان نسل کو بتائیں کہ وہ ایسے مواد کو پھیلانے اور اس پر تبصرہ و تجزیہ سے گریز کریں اور اس ایک فرد کی آڈ میں بغیر سوچے سمجھے کسی علاقہ ، فرقہ اور زبان کو تنقید کا نشانہ بنانے سے گریز کریں۔ آپ اگر واقعی مہذب ہیں تو تہذیب کا تقاضا ہےکہ ایسے مواد کو نظر انداز کیا جائے کیونکہ ایسا مواد تو انٹرنیٹ کی دنیا میں بھرا پڑا ہے ، آپ کس کس کو روکیں گے اور کس کس پر بات کریں گے، اس لئے بہتر ہے کہ ایسے مو ضوعات پر بات چیت کی بجائے دیگر مثبت موضوعات پر بات کی جائے۔ اگر اس موضوع پر بات کرنی بھی ہے تو تہذیب کا تقاضا ہے کسی فرد کو ٹارگٹ کرنے کی بجائے عمومی بات کی جائے کیونکہ آپ کو نہیں معلوم کہ وہ مخصوص مواد کیسے لیک ہوا ہے اور اس کو لیک کرنے
کے پیچھے کیا مقاصد ہیں، نیز اس مواد سے متعلق اصل حقائق اور معلومات کیا ہیں۔
پاکستان میں عام طور پر زنا کی سزا کا قانون موجود ہے لیکن سائبر کرائمز میں زنا کا ذکر نہیں ہے بلکہ سائبر کرائمز کے قانون میں زنا میں ملوث افراد کی بجائے فحاش تصویر یا ویڈیو پھیلانے والے کے لئے پرایویسی بریچ کرنے کے جرم میں سزا ہے جبکہ اس فعل میں شامل افراد کے لئے ان قوانین میں سزا اس لئے نہیں کیونکہ وہ سائبر کرائمز کے ڈومین سے باہر ہے۔ یعنی وہ ویڈیو کن حالات میں اور کس مقصد کے لئے بنائی گئ ہے یہ الگ تحقیق اور تفتیش کا تقاضا کرتی ہے ایسے میں اس ویڈیو میں نظر آنے والوں کی پرایوسی کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے صرف اس مواد کو سوشل میڈیا میں پھیلانے والے فرد کو قابل گرفت قرار دیا گیا ہے۔ دوسری طرف سوشل میڈیا استعمال کرنے والے افراد کی اکثریت اس فعل میں ملوث افراد پر تنقید کرتے ہیں اور مواد پھیلانے والے کو کچھ نہیں کہتے بلکہ خود بھی اس مواد کو پھیلانے میں کردار ادا کرتے ہیں جو کہ ان کی سائبر کرائمز اور ڈیجیٹل رائٹس سے متعلق لاعلمی کا بین ثبوت ہے۔
گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ عام زندگی کی طرح سوشل میڈیا میں زبان، موضوع اور کنٹنٹ سے متعلق تحقیق لازمی ہے نیز خود ایسی زبان اور کنٹنٹ ایسا استعمال کیا جائے جو اخلاقیات اور سائبر قوانین کی دھجیاں اڑانے کا باعث نہ بنے اورجس کے لئے فیس بک کے کمیونٹی پروٹوکولز اور سائبر کرائمز سے متعلق آگاہی کا ہونا ضروری ہے۔ ہمیں باقی دنیا کی طرح انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل ڈیوائسسز کا مثبت استعمال کرنا ہوگا۔ جس کے لئے تعلیمی اداروں اور میڈیا کے زریعے ڈیجٹل لیٹریسی پروگرامز کا انعقاد وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ ڈیجٹل رائٹس، ڈیجٹل سیکورٹی اور سائبر کرائمز کے درمیان فرق کو سمجھا جاسکے اور انٹرنیٹ اور ڈیجٹل ڈیوائسسز کو معاشرے میں بگاڑ کی بجائے معاشرے کی بہتری کے لئے استعمال کیا جاسکے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button