کالمز
معاشرے پر علماء کی تبلیغ کا اثر کیوں نہیں ہوتا ؟
ایس ایم مرموی
معاشرے کی بگڑتی صورتحال اور بے عمل علما کی کثرت ایک ایسا المیہ ہے جس نے دین کی دعوت و تبلیغ کے اثر کو کمزور کر دیا ہے۔ جب علما کے قول و فعل میں تضاد ہو اور ان کے کردار میں دین کی روح نظر نہ آئے، تو لوگوں کے دلوں میں ان کی باتوں کا اثر زائل ہو جاتا ہے۔ دین کی دعوت کی کامیابی کے لیے کردار کی پختگی اور عمل کی سچائی سب سے زیادہ ضروری ہیں۔ تبلیغ دین میں زبان اور کردار میں تصادم کی وجہ سے تبلیغ کا اثر عوام پر نہیں ہورہا ہے واعظ جو بیان کرتا ہے وہ خود اس پر عمل نہیں کرتا تو کیسے اسکی تبلیغ کا اثر ممکن ہوجائے گا ۔
علما کے درمیان وہ لوگ بھی نظر آتے ہیں جو دین کے بڑے داعی ہونے کے باوجود اخلاقی، سماجی اور ذاتی معاملات میں دین کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ یہ رویہ عوام کو دین سے دور کرنے کا سبب بنتا ہے۔
بعض علما کا دنیاوی مفادات اور شہرت کے پیچھے بھاگنا لوگوں میں دین کے پیغام کو غیر معتبر بنا دیتا ہے۔ وہ دین کو صرف زبانی تبلیغ کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور عملی نمونہ پیش کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
بے عملی اور گفتار کی حد تک محدود رہنے والی دعوت میں اخلاص کی کمی ہوتی ہے، جو لوگوں کو متاثر کرنے میں ناکام رہتی ہے۔
علما کو چاہیے کہ وہ اپنے کردار کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالیں۔ قول و فعل میں یکسانیت پیدا کریں اور خود کو عملی نمونہ بنائیں تاکہ لوگ ان سے متاثر ہوں۔ نبی کریم ﷺ کی دعوت کی سب سے بڑی قوت ان کا کردار تھا۔ دعوت و تبلیغ میں سب سے زیادہ اثر کردار کی سچائی اور اعمال کی پختگی سے ہوتا ہے۔ علما کو چاہیے کہ اپنے عمل سے لوگوں کو متاثر کریں، نہ کہ صرف باتوں سے اور لفاظیت سے ۔
دعوت و تبلیغ میں اخلاص بنیادی شرط ہے۔ اگر داعی کی نیت صرف اللہ کی رضا اور دین کی اشاعت ہو، تو اس کے الفاظ لوگوں کے دلوں میں اثر کریں گے۔
صرف علما پر تنقید کے بجائے عوام کو بھی باشعور بنانا ضروری ہے کہ وہ دین کی سچائی کو پہچانیں اور علما کے کردار سے متاثر ہو کر دین کو ترک نہ کریں۔ دین کی بنیاد قرآن و سنت ہے، نہ کہ افراد۔
خوداحتسابی کی تحریک:
علما اور عوام دونوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور دین کے اصولوں کے مطابق اپنی زندگی کو سنواریں۔ خوداحتسابی کے بغیر اصلاح ممکن نہیں۔دعوت تبلیغ کے لئے ضروری جیسی آپکی زبان سے لفظ نکلتے ہیں ویسا ہی کردار بھی نظر آنا چاہئے جب زبان سے نکلے لفظ اور کردار میں یکسانیت نہ ہو تو وہ ساری تبلیغ وہ سارا وعظ بے سود ثابت ہوتا ہے ۔ایک شخص امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا فرمانے لگا مولا تبلیغ پر جا رہا ہوں رہنمائ فرمائیں امام فرمانے لگے اے شخص خیال رکھنا آپکا انداز گفتار کردار ایسا ہو کہ آپکو اپنی زبان کا استعمال نہ کرنا پڑے لیکن افسوس ہمارے آج کے تبلیغ دین والے اس کے برعکس نظر آتے ہیں حلئے ضرور مسلمانوں کے ہیں مگر کردار اس حلئے سے مطابقت نہیں رکھتا ۔
دعوت و تبلیغ کا اثر اسی وقت ہوگا جب علما اپنے کردار کو دین کے مطابق ڈھالیں زبان سے نکلنے والے لفظ اور کردار میں تصادم نہ ہو بلکہ یکسانیت ہو اور عوام بھی دین کو سمجھ کر عمل کریں۔ بے عمل علما کو اپنی روش بدلنی ہوگی، اور لوگوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ دین افراد کی بجائے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات پر مبنی ہے۔ اگر علما اور عوام دونوں اپنی اصلاح کی کوشش کریں تو معاشرہ جلد بہتر ہو سکتا ہے۔
معاشرے کی موجودہ لہو لعب کی رنگینیاں اپنے بام عروج کو چھو رہی ہیں ہر کوئ اخلاقی اقدار سے گر چکا ہے پیشہ مال و دولت لوگوں کے ذہنوں میں بھوت کی طرح سوار ہوچکی ہیں گھر کی عزتیں عریاں ہو رہی ہیں نامحرموں کے جھرمٹ میں بانہوں میں بانہیں ڈال کر رقص اور ٹھومکے شرافت داروں کی شرافت کو تار تار کرتے نظر آرہی ہیں لوگوں کی ہائے اور واہ نفس شیطانی سے بھرپور ہیں آنکھیں نشے سے چور چور ہیں اور دعوت گناہ کی طرف دعوت فکر دے رہی ہیں بگڑے معاشرے کے بگڑے لوگ اپنی مستیوں میں مست اسلام اقدار کو بھلائے راہ شیطانیت کے بام عروج کو چھوٹے نظر آرہے ہیں علماء کی نظر صرف اپنے حلوے اور لفافے تک محدود ہوگئی ہے ان کا کردار اور زبان سے نکلے جملوں میں بھلا کا تصادم ہے ہے کہیں دور دور تک ایک دوسرے سے مطابقت مشابہت نہیں دکھتے ہیں جو لفظ زبان سے ادا کرتے ہیں وہ لفظ کہنے کی حد تک تو ٹھیک ہیں مگر ان کے کردار میں کہیں نظر نہیں آتے ہیں اسطرح کی طرز تبلیغ سے معاشرے سے وابستہ لوگ نصیحت نہیں پکڑتے کیونکہ تبلیغ والا خود بے عمل ہے پاکستان جیسے ملک میں جہاں قدم بقدم پر مدارس دیکھنے کو ملتے ہیں مولیوں کی بہتات ہے مگر بدکردار آٹے میں نمک کے برابر ہیں تبلیغ کا زوروں پر ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ فحاشی عریانی اور برائ رکنے کی بجائے دن بدن پھیلتی نظر آرہی ہے ہر انسان اپنے ظاہر سے ضرور چمکتا نظر آرہا ہے مگر باطن سے آلودہ ہے ظاہری بناوٹ سے لگتا ہے یہ مکمل مومن ہے مگر کردار میں شیطان چھلک رہا ہوتا ہے دوسرے لفظوں میں یعنی دکھاوے کے دلفریب شیطانی جلوے ہی جلوے ہیں ۔ قرآن کہتا ہے سود حرام ہے مگر فلاسفر مولوی اپنے فلسفہ منافقت سے ایک الگ رنگ دیکر دل کو تسلی دیتے ہوئے اس سے حلال کہہ کر سمجھ کر ڈکار رہا ہے جب ان سے پوچھا جاتا ہے سود کی تعریف کیا ہے تو منہ پھیر کر پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں دیں کے ٹھیکیدار بے عمل نام نہاد علماء اگر اپنے آپکو ٹھیک کریں تو معاشرہ خود بخود ٹھیک ہوجائے گا ۔بات یہ ہے اپنے غریباں میں جھانکتے ہوئے دکت ہوتی ہے تکلیف ہوتی ہے ۔
یہ بات حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں لہو و لعب، تفریحی رنگینیاں، اور وقتی لذتوں کی طرف غیر معمولی جھکاؤ ہماری قوم کی فکری اور اخلاقی زبوں حالی کا سبب بن رہا ہے۔ جب معاشرتی اقدار میں سطحیت، مادیت پرستی، اور فضول تفریحات غالب آ جائیں، تو قوم کا فکری اور اخلاقی معیار گر جاتا ہے۔
ان حالات کا بنیادی سبب روحانی تربیت کا فقدان، دینی تعلیمات سے دوری، اور معاشرتی ذمہ داریوں سے غفلت ہے۔ افراد کی ترجیحات بدل چکی ہیں، اور وہ زیادہ تر اپنی زندگی کو صرف دنیاوی لذتوں تک محدود کر چکے ہیں۔ نتیجتاً، قوم اجتماعی طور پر اپنی اصل منزل، یعنی اخلاقی، سماجی اور دینی ترقی سے محروم ہو رہی ہے۔
اس کا حل یہ ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں اعتدال پیدا کریں اور اپنے وقت اور وسائل کو نہ صرف اپنی ذاتی بہتری بلکہ اجتماعی فلاح کے لیے بھی استعمال کریں۔ دینی اور اخلاقی تعلیمات کو عام کیا جائے، اور ایسے مواقع فراہم کیے جائیں جو نوجوانوں کو صحت مند اور مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کریں۔ اجتماعی شعور کی بیداری کے بغیر اس زوال کو روکا نہیں جا سکتا۔