کالمز

سرکاری تعلیمی اداروں کی ناقص کارکردگی

تحریر: محمد علی عالم

پاکستان میں تعلیم کا شعبہ پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے، اور گلگت بلتستان جیسے دور افتادہ علاقے میں صورتحال مزید تشویشناک ہے۔ یہاں تعلیمی ترقی کے نام پر ہر سال اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں، مگر معیار میں کوئی بہتری نظر نہیں آتی۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ خود سرکاری اساتذہ اپنے بچوں کو ان ہی سکولوں میں داخل کروانے سے گریز کرتے ہیں اور نجی تعلیمی اداروں کو ترجیح دیتے ہیں۔
نامور صحافی عبدالرحمان بخاری کے مطابق، گزشتہ ایک سال میں گلگت بلتستان میں تعلیمی ترقی پر ایک ارب 57 کروڑ روپے خرچ کیے گئے، مگر اس کے باوجود تعلیمی معیار مسلسل زوال پذیر ہے۔ حالیہ ایلمنٹری بورڈ ایگزامینیشن کے نتائج اس ناکامی کا ایک اور ثبوت ہیں، جہاں پانچویں اور آٹھویں جماعت کے طلبہ کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی، حتیٰ کہ بعض سکولوں میں نتیجہ "صفر” رہا، یعنی ایک بھی طالبعلم کامیاب نہیں ہو سکا۔
میں نے ذاتی طور پر مختلف ذرائع سے ضلع گانچھے کے حالیہ نتائج جمع کیے ہیں، جو اس بگڑتے ہوئے تعلیمی نظام کی عکاسی کرتے ہیں:
پانچویں جماعت میں ضلع گانچھے کے 145 اسکولوں سے کل 1830 طلبہ نے امتحان دیا، جن میں سے صرف 498 کامیاب ہوسکے، جبکہ 1332 طلبہ فیل ہوگئے اسی طرح آٹھویں جماعت می کل 1395 طلبہ نے امتحان میں شرکت کی، جن میں سے 493 پاس اور 902 ناکام ہوگئے ضلع کے 29 اسکول ایسے تھے جہاں کوئی بھی طالبعلم پاس نہیں ہوا، جن میں 23 پرائمری اسکول، 3 مڈل اسکول اور 3 ہائی اسکول شامل ہیں۔
یہ صورتحال کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں بلکہ سرکاری تعلیمی نظام کی بگڑتی ہوئی حالت، ناقص تعلیمی پالیسیوں، غیر مؤثر تدریسی طریقوں اور نااہل اساتذہ کی واضح علامت ہے۔ اگر اس مسئلے پر فوری توجہ نہ دی گئی تو آئندہ نسل کا تعلیمی مستقبل مزید تاریک ہو سکتا ہے۔
سرکار سے لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے اساتذہ، ہزاروں ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ملازمین، صوبائی سطح پر وزیر تعلیم انکے نیچے سینکٹروں ملازمین، اس کے علاوہ سیکرٹری ایجوکیشن ان کے ساتھ آفیسران و ملازمین کی فوج، ہر ضلع میں نائب ناظم کے دفاتر، ڈویژن میں ڈائریکٹر اور نیچے سیکڑوں ملازمین موجود ہیں، مگر جب کارکردگی کو دیکھا جائے تو نتیجہ صفر ہے۔
اساتذہ تدریس پر مکمل توجہ نہیں دیتے، ان کی بھرتی، تبادلے اور ترقی سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہے، جس سے میرٹ کا قتل عام ہوتا ہے، کئی اساتذہ تدریس کے بجائے سیاسی اور مذہبی سرگرمیوں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں، بے جا چھٹیوں، غیر تدریسی سرگرمیوں اور سوشل میڈیا کے بے جا استعمال نے تعلیمی عمل کو مزید نقصان پہنچایا ہے، سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جو اساتذہ خود سرکاری سکولوں میں پڑھاتے ہیں، وہ اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہیں، جو اس نظام پر ان کے عدم اعتماد کا واضح ثبوت ہے، بعض اساتذہ اپنی ڈیوٹی چند ہزار روپے کے عوض کسی فرش گریجویٹ کے سپرد کر دیتے ہیں، جبکہ وہ خود گھر پر آرام کرتے یا کوئی کاروبار چلاتے ہیں، سرکاری سکولوں میں سبجیکٹ اسپیشلسٹ کا کوئی نام و نشان نہیں ہیں، اور تعلیمی نظام پر سیاسی وابستگیوں کے اثرات بڑھ چکے ہیں بگڑتی ہوئی تعلیمی نظام کو بہتر کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ساتذہ کے احتساب کا سخت نظام بنایا جائے، غیر حاضر اور نااہل اساتذہ کے خلاف فوری کارروائی کی جائے، سرکاری تعلیمی بجٹ کی شفافیت یقینی بنائی جائے، اور ہر خرچ کا عوامی سطح پر آڈٹ کیا جائے، اساتذہ کے تبادلے، بھرتیاں اور ترقی صرف اور صرف میرٹ پر ہوں، سیاسی وابستگیوں کا خاتمہ کیا جائے، اساتذہ کے بچوں کا سرکاری اسکولوں میں داخلہ لازمی قرار دیا جائے تاکہ وہ معیار کی بہتری کے لیے سنجیدگی اختیار کریں، جدید تدریسی طریقے اپنائے جائیں، نصاب کو سائنسی، فنی، اور عملی مہارتوں سے ہم آہنگ کیا جائے، ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں سیاسی مداخلت ختم کی جائے تاکہ حقیقی تعلیمی ترقی ممکن ہو، اساتذہ کی تربیت کے جدید پروگرام متعارف کرائے جائیں تاکہ تدریسی معیار بہتر ہو،

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button