اسماعیلی امام شاہ کریم الحسینی آغاخان چہارم کی وفات
حسرت آیات اور اس حوالے سے ان کی زندگی کا پس منظر اور پیش منظر

گزشتہ چند روز بالخصوص اسماعیلی دنیا کے لئے اور بالعموم عالم اسلام کے لئے حسرت و غم کے ایام ہیں کیونکہ دو روز قبل اسماعیلیوں کے محبوب رہنما اور امام زمانہ اور عالم اسلام کے ممتاز رہنما اور عالمی سطح پر مسلمانوں کے حقوق کی پاسبانی کرنے والے سچے رہبر شاہ کریم الحسینی آغاخان چہارم اپنے پیروکاروں اور محبین کو داغ مفارقت دے گئے۔ "انا للہ وانا الیہ راجعون "۔
جب اسماعیلیوں کے اڑتالیسویں امام سر سلطان محمد شاہ آغاخان سوم نے اپنی رحلت(گیارہ جولائی 1957ء) سے پہلے اپنے پوتے پرنس کریم آغاخان کو اپنا جانشین اور اسماعیلیوں کا 49 امام مقرر فرمایا تو یہ توقع ظاہر کی کہ:” پچھلے چند سالوں میں سائنسی ترقی کے سبب جو انقلابات رونما ہوئے ہیں ان کے پیش نظر مجھے یقین ہے کہ اسماعیلی قوم کی فلاح و نجات کے لئے ایک ایسا نوجوان میری مسند پر متمکن ہوگا جو موجودہ حالات میں جدید و قدیم تعلیم و تربیت سے بہرہ ور ہوگا۔ صرف ایسے زیرک اور ذہین نوجوان کی امامت و قیادت ہی جماعت میں زندگی کی نئی روح اور تازہ ولولہ پیدا کر سکتی ہے۔”
اس وصیت نامے کے عین مطابق شاہ کریم الحسینی شیعہ امامی اسماعیلی جماعت کے انچاسویں موروثی امام مقرر ہوئے اور آغاخان چہارم کا خطاب پایا۔ امام نے امامت کا منصب سنبھالنے کے بعد اپنے ابتدائی خطبات میں اپنے دادا بزرگوار کے شروع کئے ہوئے کاموں اور پروگراموں کو آگے بڑھانے کا تہیہ کر لیا اور اپنی زندگی اسماعیلی جماعت اور وسیع پیمانے پر مسلم امت بلکہ عالم انسانیت کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لئے وقف کرنے کا عہد بھی کر لیا۔
مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ امام جماعت اور امت کی فلاح و صلاح کے لئے کیے ہوئے عہد و پیمان کو پورا کرتے گئے اور جنوبی و وسطی ایشیاء کے دور دست اور پسماندہ علاقوں سے لے کر افریقہ کے پسماندہ اور غربت زدہ خطوں تک اپنے اداروں کا جال بچھا دیا اور ان اداروں کے ذریعے مذکورہ علاقوں میں لوگوں کی معاشی، تعلیمی، سماجی اور صحت کے شعبوں میں ترقی و پیشرفت کے لئے اپنے وسائل اور توانائیوں کو بروئے کار لایا۔
خاص طور پر ہمارے ملک پاکستان کے قیام کےبعد اس کی ابتدائی کمزور معیشت کو سہارا دینے اور عالمی سطح پر اس کی سیاسی و سفارتی ساکھ کو بہتر بنانے کے لئے ہز ہائنس آغاخان نے لائق تحسین بلکہ ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔ ملک کے شمالی علاقوں یعنی گلگت بلتستان اور چترال سمیت سندھ و پنجاب کے دیہی و شہری علاقوں کے لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے نہ صرف اپنا سرمایہ بے دریغ خرچ کیا بلکہ اپنے تدبر، دانش، بصیرت اور اپنے اداروں کی بہترین کارکردگی کو بھی کام میں لایا۔ ریاست پاکستان نے ہز ہائنس کی ان خدمات کا کھلے دل سے اعتراف بھی کیا اور انہیں نشان امتیاز اور نشان پاکستان کے ایوارڈز سے نوازا۔
ہز ہائنس شاہ کریم الحسینی آغاخان نے مختلف عالمی فورموں میں مسلم امت کے حق میں اپنا تدبر، گہری بصیرت، پنی سفارتکارانہ صلاحیت، اثر و رسوخ اور وسائل استعمال کیے اور عالمی برادری کو اسلام سے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کامیاب کوششیں کیں۔ نیز امت میں موجود ادبار و انتشار،سیاسی و سماجی مذہبی بحرانوں پر قابو پانے اور مسلم برادریوں میں اتفاق و اتحاد اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی بھی بھر پور کوششیں کیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے مابین موجود شدید مذہبی، نسلی اور سیاسی اختلافات کو کم کرنے اور اختلافات کو قبول کرتے ہوئے باہمی اتحاد و یکجہتی کو فروغ دینے کے لیے تکثیریت اور گوناگونی (Pluralism and Diversity) کے اصول کو اپنانے پر زور دیا اور اس کے لئے مراکز بھی قائم کئے۔ نیز جدید دنیا میں اسلامی تہذیب و ثقافت کو فروغ دینے کے لئے اسلامی فن تعمیر کے لئے انعامات مقرر کئے۔ اس ضمن میں آغاخان یونیورسٹی کراچی میں ادارہ برائے مسلم تہذیب(ISMC- AKU) کا قیام بھی عمل میں آیا ہے جو مسلم تہذیبوں کا مطالعہ جدید تحقیقی اصولوں کے مطابق کرتا ہے۔
نیز تعلیم اور صحت کے معیار کو بہتر بنانے اور ان کے ثمرات کو نچلے طبقے تک پہنچانے کے لئے کراچی میں آغاخان یونیورسٹی و یونیورسٹی ہسپتال، تاجکستان کے علاقے خوروگ میں یونیورسٹی آف سینٹرل ایشیاء (UCA) کے قیام کے علاوہ آغاخان ایجوکیشن سروس و آغاخان ہیلتھ سروسز کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اسی طرح امام نے اسلام، شیعیت اور اسماعیلی تاریخ و عقائد پر تحقیق کے لئے لندن میں ایک عظیم علمی و تحقیقی ادارہ انسٹی ٹیوٹ آف اسماعیلی اسٹڈیز (IIS) قائم کیا جہاں سے مستند کتب و رسائل شائع ہو رہے ہیں۔
الغرض، امام شاہ کریم الحسینی آغاخان چہارم نے اپنے 67 سالہ طویل دور امامت میں، جو قریب قریب پون صدی پر محیط ہے، اپنی تمامتر توجہ جماعت اور امت کی تعلیم، صحت، معیشت اور دیگر قابل ذکر سماجی امور پر صرف کی اور زندگی کے ان پہلوؤں کو قابل لحاظ حد تک ترقی دینے میں اپنا مربیانہ کردار ادا کیا۔ یقیناً، دنیا نہ صرف امام کی ان گراں قدر خدمات کو عرصہ دراز تک یاد رکھے گی بلکہ مدت مدید تک ان کی صوری و معنوی شخصیت کی حسن کاریوں، کرشمہ سازیوں ، مدبرانہ کارزاریوں اور قائدانہ صلاحیتوں کا تحسین و سپاس کےساتھ ذکر کرتی رہے گی۔