کالمز

پرنس کریم آغا خان ۔ خدمت کے امام

اسماعیلیہ برادری کے انچاسویں حاضر امام پرنس کریم آغا خان چہارم کو 9 فروری بروز اتوار مصر کے شہر اسوان میں ان کے دادا سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم کے پہلو میں سپرد خاک کردیا گیا۔

پرنس کریم آغا خان کی وفات ایک روحانی پیشوا کی رحلت کی حیثیت سے دنیا بھر کی پندرہ ملین سے زائد اسماعیلی کمیونٹی کیلئے بہت گہرا صدمہ، ایک تاریخی سانحہ اور معاصر دنیا کیلئے بھی یقیناً ایک بڑا واقعہ ہے کہ یہ بہ یک وقت تین نسلوں کیلئے کسی بھی اسماعیلی پیشوا کے انتقال کا ایک تاریخی مشاہدہ ہے۔ پرنس کریم آغا خان 1957 میں اپنے دادا تحریک پاکستان کے سرگرم رہنما سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم کے انتقال کے بعد ان کی وصیت کے مطابق اسماعیلیہ نزاریہ برادری کے حاضر امام کے اعلیٰ ترین روحانی منصب پر فائز ہوئے۔ یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم نے اپنا جانشین اپنے تین بیٹوں پرنس صدر الدین، پرنس علی سلمان خان اور پرنس مہدی شاہ میں سے کسی کو چننے کے بجائے اپنے منجھلے بیٹے پرنس علی سلمان آغا خان کے بیس سالہ لڑکے پرنس کریم آغا خان کو ترجیج دی اور وصیت کے ذریعے پوتے کو اسماعیلیہ نزاریہ جماعت کے منصب امامت پر مقرر کیا۔

سر سلطان محمد شاہ آغاخان خود محض سات سال کی عمر میں منصب امامت پر فائز ہوئے تھے۔ ان کا دور (1885ء سے 1957ء تک) اسماعیلیہ تاریخ میں سب سے طویل دور امامت رہا ہے۔ وہ 72 سال تک اپنی جماعت کے حاضر امام رہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ (جنہیں اہل سنت چوتھا خلیفہ راشد مانتے ہیں) سے لیکر سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم اور ان کے بعد ان کے جانشین انچاسویں امام پرنس کریم آغا خان چہارم تک اسماعیلیہ کا کوئی بھی امام اتنے طویل عرصے تک منصب امامت پر فائز نہیں رہا۔ اس دوران شمالی افریقہ اور مصر کی دولت فاطمیہ کے 14 حکمران بھی اسماعیلی امامت کی زنجیر کی کڑی رہے ہیں۔ سر سلطان محمد شاہ ایک صاحب علم، گرم سرد چشیدہ، مدبر اور صاحب بصیرت رہنما تھے، چنانچہ ان کی دور اندیش نگاہوں نے منصب امامت کیلئے بیٹوں کے بجائے پوتے کا انتخاب کیا اور وقت نے ان کے اس انتخاب کو درست ثابت کیا۔ پرنس کریم کو اپنے دادا کی وراثت آگے بڑھانے کیلئے ایک طویل دور ملا۔ وہ 1957 سے فروری 2025 تک اپنی جماعت کے حاضر امام رہے، جو 68 سال کا عرصہ بنتا ہے

سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم نے اپنے بہتر سالہ دور امامت میں بہت سرگرم زندگی گزاری تھی۔ انہوں نے نہ صرف اپنی جماعت کو کئی حوالوں سے مستحکم کیا، بلکہ وہ مسلمانوں کے کئی اجتماعی ملی معاملات میں بھی دخیل رہے۔ بیسویں صدی کا یہ دور انقلابات کا دور کہلاتا ہے۔ اس عہد پر آشوب میں انقلابات کے سیل بلا میں مسلم امہ کی قسمت کے ستارے بھی ڈوبتے ابھرتے رہے۔ برصغیر میں مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کی نیا کو سنبھالنے کیلئے جو جو رہنما میدان عمل میں مختلف میدانوں میں سرگرم کار تھے، ان میں سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم کا نام بھی سر فہرست ملتا ہے۔ برطانوی ہند میں مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کی جنگ لڑنے والوں میں وہ سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ ان کی اسی مہم کے صدقے میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا اور وہ سات سال تک اس کے بانی صدر رہے۔ مصلح قوم سر سید احمد خان نے مسلم قوم میں تعلیمی بیداری کی تحریک شروع کی تو اس تحریک کے چند سرکردہ رہنماؤں اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اہم معاونین میں بھی سر سلطان محمد شاہ کا نام دکھائی دیتا ہے۔ خلافت عثمانیہ کی بساط لپیٹنے کے ساتھ جب ترکیہ کے حصے بخرے کیے جا رہے تھے تو اس موقع پر بھی سلطان محمد شاہ آغا خان سوم مسلمانوں کے ملی آدرشوں کے ہمنوا اور ترکیہ کی سالمیت کے حامیوں میں نظر آتے ہیں۔ تحریک پاکستان کے مختلف مراحل میں بھی انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کی نمائندگی کی اور قیام پاکستان کے بعد استحکام پاکستان کی ابتدائی اور بنیادی کاوشوں میں بھی ان کا حصہ نمایاں رہا۔

سر سلطان محمد شاہ کا انتقال سوئٹرز لینڈ میں ہوا، مگر حسب وصیت انہیں مصر کے شہر اسوان میں سپردخاک کیا گیا، جس کی مٹی سے ان کے ائمہ کی طویل تاریخی وابستگی رہی ہے۔ آج ان کی وفات کے 68 سال بعد ان کے جانشین پرنس کریم آغا خان چہارم کو بھی حسب وصیت اسوان میں ان کے پہلو میں پہنچا دیا گیا ہے۔ پرنس کریم آغاخان کے اڑسٹھ سالہ دور کا جائزہ لیا جائے تو وہ اپنے دادا کے حقیقی جانشین دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنے دادا کی وراثت کو بڑے عمدہ طریقے سے آگے بڑھا کر ثابت کیا کہ وہ اس منصب کے درست حقدار تھے۔ پرنس کریم آغاخان کے پیش نظر اپنے دادا کا یہی اصول رہا کہ ان کے قائم کردہ ادارے انسانیت کی فلاح اور بہتری کیلئے ہیں۔ اس اصول کو انہوں نے حرزجاں بنایا اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ان کا سب سے نمایاں کارنامہ اگر کوئی پوچھے تو میری ناقص رائے میں یہی ہے کہ انہوں نے اپنی جماعت کی توانائیاں اختلافات کے بجائے اتفاقات پر صرف کیں اور اتفاقات بھی ایسے کہ جو بلا امتیاز مذہب پوری انسانیت کیلئے مسلمات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بھلائی، تعلیم اور خدمت خلق کیا وہ اتفاقات نہیں، جو بلا امتیاز ہر انسان کی ضرورت ہیں؟ پرنس کریم آغاخان نے اپنی جماعت کو اختلافات سے کمال تدبر سے بچا کر ان اتفاقات کی راہ پر ایسے ڈالا کہ امن، تعلیم اور خدمت خلق ہی ان کی اور ان کی جماعت کی شناخت کا اولین حوالہ بن گئے۔

پرنس کریم آغا خان کے بارے میں بجا طور پر کہا جاتا تھا کہ وہ کسی مخصوص قطعہ زمین پر تسلط نہ رکھنے کے باوجود ایسے حکمران ہیں، جو اپنے پیروکاروں کے دِلوں پر حکومت کرتے ہیں اور ان کی ہدایت پیروکاروں کیلئے حرفِ آخر سمجھی جاتی ہے اور وہ خود کو اس پر عمل کرنے کا مکلف سمجھتے ہیں، جبکہ پیروکاروں کے حلقے سے باہر بھی ان کا احترام پایا جاتا تھا اور یہی احترام ان کی انسانی خدمات کا عظیم اعتراف تھا۔

پرنس کریم آغاخان نے اپنے آباء اور پیشرو ائمہ کی روایت کے مطابق اپنی زندگی میں ہی اپنے بیٹے پرنس رحیم کو اپنا جانشین نامزد کردیا تھا، تاہم یہ نامزدگی کچھ یوں عمل میں آئی تھی کہ انہوں نے ایک سر بمہر کاغذ پر اپنے متوقع جانشین کا نام اور ضروری وصیتیں لکھ کر لاک کردیا تھا۔ اسماعیلی عقائد و تعلیمات کی رو سے حاضر امام کی یہ وصیت ان کی وفات کے بعد کھولی جانی تھی، یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات تک کسی کے علم میں نہیں تھا کہ بطور جانشین نامزد کردہ شخصیت ہے کون؟ اسماعیلی عقائد کے مطابق امام کے تقرر کا یہ طریق کار “نص” کہلاتا ہے، چنانچہ ان کی وفات کے بعد “لفافہ” کھولا گیا تو اس سے سب کو پتا چلا کہ پرنس رحیم اسماعیلیہ نزاریہ جماعت کے پچاسویں امام مقرر ہوئے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ پرنس رحیم بطور آغا خان پنجم اپنے آباء و اجداد کی درخشندہ روایات کو آگے بڑھاتے ہوئے انسانیت کی فلاح و بہبود اور امن و ترقی کے نئے سنگ میل عبور کریں اور ان کا دور ان کی جماعت کیلئے خیر و فلاح کی نوید لائے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button