آغا خان چہارم، فلاحی انقلاب کا علمبردار

اظہار خیال: فخرِعالم (صحافی)
وہ ہستیاں جو اپنے وجود سے عہد ساز بنتی ہیں، وقت کی گرد میں فنا نہیں ہوتیں بلکہ آنے والی نسلوں کے اذہان میں ہمیشہ کے لیے ثبت ہو جاتی ہیں۔ تاریخ کے صفحات پر کچھ نام وہ ہوتے ہیں جو حالات کے جبر میں مٹ جاتے ہیں، اور کچھ وہ جو اپنی روشنی سے صدیوں تک انسانیت کے افق کو منور رکھتے ہیں۔ آپ انہی لازوال شخصیات میں سے ایک تھے جن کے افکار، خدمات اور عزائم، انسانی فلاح و بہبود کے استعارے بن کر ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ آپ کا فکری و عملی سرمایہ ایک ایسے فلاحی انقلاب کی بنیاد تھا جس نے رنگ، نسل، عقیدہ اور مسلک کی تفریق سے بالاتر ہو کر انسانیت کی خدمت کو مقصدِ حیات بنایا۔
دنیا میں سماجی، سیاسی اور مذہبی رہنما اپنی خدمات کے مختلف دائرے رکھتے ہیں۔ مگر آپ کی وسعتِ نظری اور ہمہ گیر بصیرت نے آپ کو دوسروں سے ممتاز کیا۔ آپ ایک ایسی تحریک کے سرخیل تھے جو کائناتی وسعتوں کو اپنے دائرۂ عمل میں لے آئی۔ آپ نے سماجی خدمت کو محض خیرات یا امداد کی سطح پر محدود نہیں رکھا، بلکہ اس کو تعلیمی ترقی، اقتصادی استحکام اور فکری بالیدگی کے ایسے منظم نظام میں ڈھال دیا، جس نے لاکھوں انسانوں کی زندگیاں بدل کر رکھ دیں۔
اگر آپ چاہتے تو اپنی کوششوں کو صرف اپنی برادری تک محدود رکھتے، مگر آپ نے دائرۂ انسانیت کو ترجیح دی۔ آپ نے محرومی و افلاس میں جکڑی ہوئی بستیوں میں امید کے چراغ روشن کیے، پسماندگی کی دھند میں گم قوموں کو ترقی کے نئے آفاق دکھائے، اور نفرت و تعصب کی دیواروں کو گرا کر انسانیت کے آفاقی اصولوں کی بنیاد پر ایک مثالی سماجی نظام استوار کیا۔ یہی وہ اعلیٰ ظرفی تھی جو آپ کو دنیا کے عام رہنماؤں سے ممتاز کرتی تھی۔
گلگت بلتستان کے پسماندہ علاقے، افریقہ کے محروم خطے، یورپ کے ترقی یافتہ شہر ہوں یا ایشیا کے پسماندہ دیہات—جہاں کہیں بھی آپ کے ادارے، تعلیمی منصوبے، فلاحی تنظیمیں اور ترقیاتی اسکیمیں موجود ہیں، وہاں صرف ایک پیغام سنائی دیتا ہے۔۔۔۔ خدمت، ترقی، اور اخوت! کیونکہ آپ کے پیروکاروں نے ہمیشہ بھائی چارے، رواداری اور امن کا پیغام عام کیا۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آپ کی شخصیت کبھی کسی فرقہ وارانہ تنازع کا حصہ نہیں بنی، آپ کی تقاریر کبھی کسی ریاست کے لیے خطرہ نہیں بنیں، اور آپ کے افکار کبھی کسی انتہا پسندی کا سبب نہیں بنے۔ آپ کی جدوجہد ہمیشہ فلاحی استحکام، علمی ترقی اور انسانی بہبود کے گرد گھومتی رہی۔ آپ کے قائم کردہ تعلیمی ادارے صرف درسگاہیں نہیں، بلکہ ایسے فکری مراکز ہیں جو نسلوں کو علمی خودمختاری اور فکری آزادی کی راہ دکھاتے ہیں۔
آج، جب آپ اس عارضی دنیا سے پردہ فرما چکے ہیں، تو یہ ماننا مشکل ہے کہ آپ واقعی چلے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ زندہ ہیں! آپ ہر اس تعلیمی درسگاہ میں سانس لے رہے ہیں جہاں کوئی محروم بچہ مستقبل کا خواب دیکھ رہا ہے، ہر اس ہسپتال میں موجود ہیں جہاں کوئی غریب انسان صحت کی سہولت سے فیض یاب ہو رہا ہے، اور ہر اس ترقیاتی منصوبے میں بستے ہیں جو انسانیت کو خودداری، وقار اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کر رہا ہے۔
دنیا نے بے شمار فلاحی رہنما دیکھے، مگر آپ کی بصیرت، حکمت اور بے لوث خدمات نے آپ کو سب سے منفرد بنا دیا۔ آپ کی زندگی اس امر کی گواہی دیتی ہے کہ حقیقی کامیابی محض دولت کے انبار لگانے میں نہیں، بلکہ انسانیت کی خدمت میں ہے۔ آپ کی رحلت پر دنیا غمزدہ ہے، کیونکہ وہ جانتی ہے کہ موجودہ عہد میں شاید ہی کوئی ایسا عظیم انسان ہو جو بغیر کسی ذاتی غرض کے، صرف اور صرف انسانیت کے لیے جی رہا ہو۔
دعا ہے کہ پروردگار آپ کی بے مثال خدمات کو شرفِ قبولیت بخشے اور آپ کے فرزند کو اس مشن کو مزید وسعت دینے کی توفیق عطا کرے۔ آپ کی جدوجہد رنگ لائے گی، آپ کا پیغام زندہ رہے گا، اور ایک دن دنیا آپ کے نام کو تاریخ کے درخشندہ ستاروں میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لے گی۔ آپ امر ہو چکے ہیں، آپ زندہ ہیں، اور ہمیشہ زندہ رہیں گے!