کالمز

بکھیرے محبتوں کے رنگ

تحریر: محمد یار بیگ 

سلسلۂ نورِ امامت کا ایک درخشاں ستارہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ دنیا کے افق پر 68 سال تک چمکتا رہا اور اپنی روشنی ہر سو بکھیرتے ہوئے آج غروب ہوا۔ اس کی چمک اور روشنی ہر رنگ و نسل، ذات، مسلک اور عقیدے پر جلوہ گر ہوتی رہی، اور اقوامِ عالم اس سے فیض یاب ہوتے رہے۔

میرا قلم اور علم کمزور ہے کہ میں امام عالی مقام کی شان میں کچھ لکھ سکوں۔ اس ہستی پر سب نے لکھا اور اپنے علم، محبت اور قلم کا حق ادا کیا۔ میں صرف ان تمام کا شکریہ ادا کر سکتا ہوں، جو میرے بس میں ہے، اور یہی الفاظ ادا کرنے کے لیے میرے جذبات چھلک گئے۔ سوچا، ایک مرید ہونے کا حق اپنی بساط کے مطابق ادا کروں۔

سب سے پہلے میں اپنے ان تمام دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کا میرے ساتھ اسماعلیت کا رشتہ نہیں ہے، لیکن وہ میرے بھائی، دوست، ہمدرد، غم خوار اور غم گسار ہیں۔ انہوں نے دلی ہمدردی کی، تعزیت کی، دلاسہ دیا۔ کچھ نے دبے لفظوں میں تاسف کا اظہار کیا کہ صبح غم کا سماں اور شام کو خوشی کی کیفیت؟ میں ان دوستوں کے لیے وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ اسماعیلی روایات اور عقیدے کے مطابق نورِ امامت اماموں کی صورت میں قیامت تک جاری و ساری ہے۔ جب ایک امام کا وصال ہوتا ہے تو امامت کا نور وصیت کے مطابق موروثی امام کو اسی وقت منتقل ہو جاتا ہے۔ ایک امام کی زندگی اور امامت غروب ہوتی ہے تو اسی لمحے دوسرے امام کی امامت طلوع ہوتی ہے۔ الحمدللہ، اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے پچاسویں امام، پرنس رحیم آغا خان کا دورِ امامت شروع ہوتا ہے۔

گلگت بلتستان ایک گلشن کے مانند لالہ زار ہے، جس میں تمام مکاتبِ فکر کے لوگ آباد ہیں، اور یہی اس کا حسن اور رنگا رنگی ہے۔ ان تمام کی محبت، ہمدردی، جذبۂ ایمانی، تعزیتی پیغام اور مذہبی رواداری کو سلام پیش کرتا ہوں۔ شکریہ، صد شکریہ۔

میں ان تمام اہلِ علم اور قلم کا مقروض رہوں گا، جن میں گلگت بلتستان کے تمام اخبارات اور جریدے شامل ہیں، جنہوں نے میرے امام کی شان اور خدمات پر روشنی ڈالی اور انہیں دنیا کے سامنے پیش کیا۔

میری محبت ان دوستوں اور احباب کے نام ہے جن کی تحریر پڑھ کر میرے جذبات چھلک پڑے۔ ان میں ذوالفقار کاظمی، وقار احمد، فرنود عالم، سید مہدی بخاری اور وہ تمام تحریریں شامل ہیں، جنہیں میں نہیں پڑھ سکا۔

میری محبت ان سب پر نچھاور، جنہوں نے میرے امام کو عزت و احترام دیا، انہیں اچھے ناموں اور لفظوں سے مخاطب کیا، اور ان کی خدمات کا اعتراف کیا۔

میرے امام 68 سال تک امامت کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے، جو نہ صرف اسماعیلیوں کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک روشن مثال ہے۔ وہ عالمگیریت اور تکثیریت پر یقین رکھتے تھے اور مذہبی ہم آہنگی کے داعی تھے۔

انہوں نے اپنی زندگی انسانی خدمت کے لیے وقف کی تھی۔ تعلیم، صحت، دیہی ترقی، غربت کے خاتمے، اور موسمیاتی تبدیلی کے شعبے میں ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

آخر میں، میں یہی کہوں گا کہ میرے پچاسویں امام، پرنس رحیم الحسینی آغا خان، اپنے والد کے مشن اور وژن کو آگے بڑھائیں گے اور اس کی آبیاری کریں گے۔ بنی نوع انسان کی خدمت ان کی میراث ہے اور وہ اس میراث کو قائم و دائم رکھیں گے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button