کالمز

بلتستان میں ناقص خوراک اور بیماریوں کا بڑھتا ہوا بحران

گلگت بلتستان، پاکستان کا ایک خوبصورت مگر دور افتادہ خطہ ہے، جو قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ یہاں فلک بوس برفانی پہاڑ، نیلگوں جھیلیں، سرسبز وادیاں اور تازہ، شفاف ہوا سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ لیکن اس جنت نظیر علاقے کو آج ایک سنگین صحتِ عامہ کے بحران کا سامنا ہے۔ ناقص اور غیر معیاری خوراک کے باعث یہاں کے لوگ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ ہر دوسرا شخص معدے کی خرابی، دل کے امراض، گردوں کی بیماریوں، ہائی بلڈ پریشر، جگر کی خرابی اور کینسر جیسے مہلک امراض کا شکار ہے۔

یہ صورتحال اس قدر تشویشناک ہو چکی ہے کہ مناسب طبی سہولتوں اور بروقت علاج کی عدم دستیابی کے باعث ہر سال سینکڑوں مریض بڑے شہروں کا رخ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ بہت سے افراد بروقت علاج نہ ملنے کے باعث جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ میرے نزدیک اس مسئلے کی بنیادی وجہ یہاں دستیاب غیر معیاری خوراک اور ملاوٹ شدہ اشیاء ہیں۔ اس مضمون میں ہم بلتستان میں ناقص خوراک کے مسئلے، اس کی وجوہات، صحت پر اثرات اور اس کے ممکنہ حل پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے تاکہ عوام اور حکام اس سنگین مسئلے کی شدت کو سمجھ سکیں۔

خوراک انسانی صحت کے لیے بنیادی ضرورت ہے، لیکن جب یہی خوراک ملاوٹ، مصنوعی اجزاء اور زہریلے کیمیکلز سے بھرپور ہو تو یہ فائدے کے بجائے نقصان پہنچانے لگتی ہے۔ بدقسمتی سے، گلگت بلتستان میں خوراک کے معیار پر مناسب چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے غیر معیاری اور ملاوٹ شدہ اشیائے خورد و نوش کھلے عام فروخت ہو رہی ہیں۔

مقامی بازاروں میں جعلی اور غیر معیاری خوردنی تیل، دودھ، مصالحہ جات، چائے، مشروبات، فاسٹ فوڈ، بسکٹ اور دیگر مضرِ صحت اشیاء عام دستیاب ہیں۔ مارکیٹ میں ایسے کوکنگ آئلز فروخت ہو رہے ہیں جو انتہائی سستے مگر انسانی صحت کے لیے زہر ثابت ہو رہے ہیں۔ ماہرینِ صحت کے مطابق یہ ناقص کوکنگ آئل دل کی شریانوں کو بند کرکے ہائی بلڈ پریشر اور ہارٹ اٹیک کے خطرات میں اضافہ کرتا ہے۔

ماہرینِ صحت کے مطابق ناقص خوراک میں شامل کیمیکلز انسانی جسم میں کینسر پیدا کرنے والے عناصر کو متحرک کرتے ہیں۔ ملاوٹ شدہ اشیائے خورد و نوش اور کیمیکل زدہ سبزیاں کینسر کے بڑے اسباب میں شامل ہیں۔ اسی طرح، غیر معیاری کوکنگ آئل کا استعمال خون میں کولیسٹرول بڑھانے، دل کی بیماریوں، ہائی بلڈ پریشر اور ہارٹ اٹیک کا باعث بن رہا ہے۔

جعلی مشروبات، آلودہ پانی اور غیر معیاری پیک شدہ دودھ گردوں اور جگر پر تباہ کن اثرات مرتب کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں گردے فیل ہونے اور ہیپاٹائٹس جیسے امراض عام ہو رہے ہیں۔ ناقص خوراک کی وجہ سے معدے کے السر، فوڈ پوائزننگ، قبض، جگر کی سوزش اور بدہضمی جیسے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔

ریجنل ہیڈ کوارٹر اسپتال (آر ایچ کیو) سکردو میں شعبۂ کینسر کے سربراہ، ڈاکٹر محمد کاظم کے مطابق، بلتستان ریجن میں کینسر کے مریضوں کی تعداد تقریباً 2,000 تک پہنچ چکی ہے۔ فروری 2024 سے اب تک آر ایچ کیو میں 150 مریض زیرِ علاج ہیں۔ بلتستان میں کینسر کے سب سے زیادہ مریض یونین کونسل کندوس میں پائے گئے ہیں، جہاں 26 افراد اس جان لیوا بیماری میں مبتلا ہیں، جبکہ 6 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

اسی طرح، یوگو گاؤں سے تین مریض زیرِ علاج ہیں، جن میں سے ایک جاں بحق ہو چکا ہے، جبکہ دو صحت یاب ہو چکے ہیں۔ کریس گاؤں میں بھی چار مریض اسپتال میں زیرِ علاج ہیں، جہاں سے ایک مریض جاں بحق ہو چکا ہے، جبکہ دو صحت یاب ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر محمد کاظم کے مطابق، اب تک 90 سے زائد مریضوں کو مزید علاج کے لیے بڑے طبی مراکز میں ریفر کیا جا چکا ہے۔

میرے خیال میں اس تشویشناک مسئلے سے نجات حاصل کرنے کے لیے عوام، علماء، سول سوسائٹی اور میڈیا کو اس کے خلاف مشترکہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ عوام کو غیر معیاری اشیائے خورد و نوش سے پرہیز کرنا ہوگا۔

اگر گلگت بلتستان میں عوام کی صحت کو محفوظ بنانا ہے تو اس کے لیے فوری، سخت اور عملی اقدامات ضروری ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ علاقے میں فوڈ سیفٹی اینڈ اسٹینڈرڈ اتھارٹی قائم کرے، جو بازار میں فروخت ہونے والی اشیائے خورد و نوش کے معیار کو چیک کرے اور ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرے۔ مقامی لوگوں کو قدرتی اور دیسی خوراک کے فوائد کے بارے میں آگاہی دی جائے اور مصنوعی، پراسیسڈ اور غیر معیاری خوراک کے استعمال کو کم کرنے کی ترغیب دی جائے۔ مقامی کسانوں کو آرگینک اور معیاری خوراک پیدا کرنے کی طرف راغب کیا جائے تاکہ عوام کو محفوظ اور غذائیت سے بھرپور خوراک مل سکے۔

اگر گلگت بلتستان میں اس سنگین مسئلے کو نظر انداز کیا گیا تو آنے والی نسلیں مزید پیچیدہ بیماریوں میں مبتلا ہو سکتی ہیں۔ حکومت، عوام، سول سوسائٹی اور میڈیا کو مل کر اس بحران کے خلاف کام کرنا ہوگا۔

اگر فوری اور مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو گلگت بلتستان میں بیماریوں کی شرح مزید بڑھے گی اور عوام کو صحت کے پیچیدہ مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم صاف، معیاری اور غذائیت سے بھرپور خوراک کے فروغ کے لیے عملی اقدامات کریں تاکہ ایک صحت مند اور محفوظ معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button