کالمز

ایک لاکھ کا گھوڑا

اس کہانی کا اصل متن تو ہندوکش اور ہندوراج کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان اقامت پزیر اہالیان چترال کی ترجیحات سے متعلق ہے جو بلاشبہ زیادہ حوصلہ افزا ہر گز نہیں علاقے کے باسیوں کی اکثریت غربت وافلاس میں جی رہے ہیں لیکن اسکے باؤجود تعلیم سے وابستگی اور علم کی پیاس علاقے کے لوگوں کے رگ رگ میں رچ بس گئی ہے البتہ ایک بات کلئیرہے کہ تعلیم یافتہ لوگوں کی اتنی عزت نہیں کیجاتی جتنا کہ ان کا حق بنتا ہے اس کی چند مثالین دیتے ہوئے بات کو آگے بڑھاناچاہونگا شائد بہت سارے لوگوں کو اس بات سے شدید دھچکا محسوس ہولیکن بہرحال اس کڑوا سچ کو ہمیں برداشت کرنا ہوگا یہ کہ چترال کے لوگ کسی یونیورسٹی گریجویٹ یا کسی اعلیٰ آفیسر کی اتنی عزت نہیں کرتے جتنا کہ زمانہ جاہلیہ کے ریاستی عہدے دار کے نواسے کا جسکے پاس چاہے تعلیم صفر ہو اور جو بندوق کندھے پر اٹھائے سال کے بارہ مہینے شکارکے نام پر وائلڈ لائف کی بیخ کنی کرتا پھرے کی کی جاتی ہے ۔ کسی پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر کو ڈاکٹر صاحب کے نام سے یا دکیا جائے تو اتنا زیادہ خوش نہیں ہوتا جتنا کہ اسے حکیم، چارویلو، اثاقال، براموش، لال یا متار کے نام سے یادکرنے سے ہوتا ہے (یا درہے یہ سارے عہدے 1969ء سے قبل ریاستی دور میں رائج تھے) ۔خیر کہاں سے شروع کی اور بات کہاں جا نکلی.

فکرِ فردا  کریم اللہ
فکرِ فردا
کریم اللہ

اب اصل موضوع کی جانب لوٹ آتے ہیں اگر چہ چترال کے باسیوں کی اکثریت غربت میں جی رہے ہیں البتہ علاقے میں ہزاروں ایسے لوگ بھی موجود ہے جنکے پاس دولت کی ریل پیل ہے بدقسمتی کا مقام یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں دولت کا تعمیری استعمال سرے سے ناپید ہے جبکہ نمودونمائش، دکھاوا اور عیاشیوں پر دولت لٹانا امیر طبقہ کا وطیرہ ہے ابھی تک کسی سیاست دان، رکن اسمبلی، بزنس مین یا بیرونی ممالک میں مقیم کوئی چترالی باشندے نے ضرورت مند طالب علم کی مدد نہیں کی اگر کی تو وہ آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔ معاشرے کی اس بے حسی کیوجہ سے درجنوں ذہین اسٹوڈنٹس تعلیم کو خیر باد کہنے پر مجبورہوگئے سن 2012ء کی بات ہے جبکہ ان دنوں ہم بھی پشاور یونیورسٹی میں داخلہ لئے تھے تو اس دوران خبر شائع ہوئی کہ لوٹکوہ سے تعلق رکھنے والا ڈاکٹر سردارایوب جو کہ صوبے کے سب سے اعلیٰ تعلیمی ادارے خیبر میڈیکل کالج کے تھرڈ ائیر کے طالب علم تھے کو فیس ادانہ کرسکنے کی بنا پر ادارے سے نکال دیا گیا اسکے بعد نام نہاد اداروں کے عہدے داروں کیجانب سے بیانات سامنے آئے کہ ہم سردار ایوب کی فیس اداکرکے اسے دوبارہ ادارے میں لے آئینگے شائد کالج سے نکالنے پر اسے شدید نفسیاتی دھچکا لگا ہوگا کہ چند ماہ بعد اسکے والد کا بیان آیا کہ ان کا بیٹا خطرناک ذہنی مریض بن گیا ہے اور ان سے لوگوں کو خطرہ ہے لہٰذا حکومت اسے ذہنی بیماروں کے ہسپتال میں داخل کردیں بے حس سماج پھر بھی خاموش تماشائی کا کرداراحسن طریقے سے نبھاتے رہے 2014کو ایک دن جب اخبارات کھول کے دیکھا تو پتہ چلا کہ وہی ڈاکٹر ایوب جنہوں نے ایف ایس سی میں ضلع بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی آغاخان ہسپتال چترال میں خاتون ماہر نفسیات جو ان کا علاج کر رہی تھی کو قتل کرکے خودکشی کر لی ہے۔ یوں دو اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل نوجوان غربت کی بھنیت چڑھ گئی ۔سوال یہ ہے کہ جب ڈاکٹر سردار ایوب کوفیس ادانہ کرنے کی وجہ سے کالج سے نکال دیا گیا تو کیا ہم ان کے فیس اداکرکے دوبارہ اس کے تعلیمی کیرئیر کو بحال نہیں کرواسکتے تھے ؟ ٹھیک ہے کہ وہ ذہنی مریض بن گیا تھا لیکن کیا ہم کسی اچھے ہسپتال یا ماہرِنفسیات سے ان کا علاج کرا کر ان کو نئی زندگی نہیں دے سکتے تھے ؟ڈاکٹر سردار ایوب غیر معمولی صلاحیتیوں کے حامل غریب والدین کا چشم چراع تھا جو غربت کے ہاتھوں برباد ہوگئی ۔کیا ہمارے نام نہاد لیڈران،سیاست دان،این جی اوز اور ان کے عہدے داران اور علاقے کے امیر طبقے ڈاکٹر ایوب کے قتل اور خود کشی سے کوئی سبق سیکھ کر دوبارہ ایسے عوامل کی روک تھا م کیلئے میکنزم تیار کیا۔ تاکہ آئیندہ کوئی سردارایوب فیس ادا نہ کرنے کی وجہ سے کالج سے نہ نکالا جائے۔اگر چترال میں میوزیکل شو(دولہ اشٹوک) کاانعقاد ہو وہاں ناچنے والوں بالخصوص ناچنے والوں کا تعلق اونچے فیملی سے ہو تو ان پر نوٹوں کی بارش ہوتی ہے لیکن کسی طالب علم کو دینے کے لئے ہمارے معاشرے کے پاس ایک قلم اور ڈائری بھی نہیں ہوتا ۔ آج سے کوئی ڈیڑھ مال قبل آغاخان ہائیر سکنڈری سکول کوراغ کی طالبہ کو فیس ادانہ کرنے کی وجہ سے امتحان میں بیٹھنے سے روکا گیا تو انہوں نے ادارے کے عہدے داروں کے خلاف پریس کانفرنس کی۔

آفسوس کا مقام یہ ہے کہ جس ویژن کے ساتھ پرنس کریم آغاخان نے AKDNکی بنیاد رکھی تھی وہ ویژن اداروں میں کہیں نظر نہیں آتی جو شخص اپنی جماعت کے لئے اوسط درجے کی تعلیم کو تسلیم ہی نہیں کرتا اسی کے ایک ادارے سے طالب علم کو فیس ادانہ کرنے کی وجہ سے امتحان سے محروم رکھاجاتا ہے کیا پرنس کریم نے یہ ویژن کینڈا یا امریکہ کی جماعتوں کو دیا تھا؟ کیا چترال کے جماعت کی پسماندگی کا اسے علم نہ تھا؟ اگر علم تھا تو پھر کیا اس کے ادارے میں کسی نادار طالب علم کے لئے کوئی جگہ نہیں ؟اس طالبہ کی آہ وفعان پر بھی ہمارے معاشرے نے چھپ کا روزہ توڑنے کی زحمت گوارا نہ کی البتہ سابق ایم پی اے اور مسلم لیگ (ق) کوپھر آل پاکستان مسلم لیگ کو چھوڑ جمعیت علما ئے اسلام جوائن کرنے والے حاجی غلام محمد صاحب اور اس کے پارٹی کے چند عہدے داروں نے اس طالبہ کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کا اعلان کیا ساتھ ہی آغاخان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک کو آڑے ہاتھوں لیا گیا۔کیا حاجی غلام محمد صاحب بے غیر کسی لالچ اور سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر یہ اعلان کیا؟ہرگز نہیں اگر ایسا ہوتا تو 2008ء سے لیکر 2013ء تک وہ صوبائی اسمبلی کے رکن رہے اس دوران کسی ضرورت مند اسٹوڈنٹس کو چند ہزار روپے کیوں نہیں دئیے؟جب ہم یونیورسٹی میں تھے تو ہمیں بھی کئی مرتبہ مالی مشکلات کا سامنا رہا اسوقت ہم بھی درخواست لیکر سابق صوبائی وزیر سلیم خان اور حاجی غلام محمد کا دروازہ کھٹکھٹاتے رہے لیکن ہماری شنوائی نہ ہوئی ایک مرتبہ ہم درخواست لیکر حاجی صاحب کے پاس گئے تو انہوں نے درخواست لینے سے انکار کرکے غصے سے بپھر گئے ۔حاجی صاحب اب جو فراخدلی کا مظاہرہ کررہے ہیں وہ اس وقت کیوں اتنے بخیل تھے کہ اسٹوڈنٹس کا نام سنتے ہی ان کا ٹمپریچر ہائی ہوتا تھا؟ایک مرتبہ ROSE اسکالر شپ کے چیرمین سے ملاقات کرکے یونیورسٹی کے اخرجات کے حوالے سے ان کو آگاہ کیا چیرمین ’روزاسکالر شپ پروگرام‘نے پوچھا کہاں پڑھ رہے ہو ہم نے انہیں بتایا کہ پشاور یونیورسٹی کے پولیٹکل سائنس ڈیپارٹمنٹ میں ۔ تو اسکا جواب تھا کہ بھئی اگر آپ داخلے سے قبل ہمارے ساتھ رابطہ کرتے تو ہم آپ کو پشاور کے کسی پرائیوٹ ادارے میں داخلہ کرواکر ایم بی اے یا ایم پی اے کراتے اور اسمیں شائد کچھ اسکالر شپ بھی دے سکتے تھے۔ہمارے ایک دوست جو کہ پشاور یونیورسٹی کے فزکس ڈیپارٹمنٹ کے مارننگ شفٹ میں داخلہ لیا تھا انہوں نے بتایا کہ مالی مشکلات کی وجہ سے انہوں نے بھی ’روز‘ اسکالرشپ کے لئے اپلائی کیا تھالیکن ہمیں کچھ نہ ملایہ ہے ہمارے اداروں اور لیڈرشپ کی حالت۔

اب جبکہ ایک ہفتہ قبل UETپشاور کے ایک چترالی طالبہ شہلہ نواز کے حوالے سے خبر نشر ہوئی ہے کہ وہ یونیورسٹی کے اخراجات برداشت کرنے سے قاصر ہے جسکی وجہ سے وہ یونیورسٹی چھوڑنے پر مجبورہے سرزمین پرواک سے تعلق رکھنے والی شہلہ نواز ایک ایسا طالبہ ہے جنہوں نے آغاخان یونیورسٹی بورڈ کے امتحان میں ٹاپ کرچکی تھی، جبکہ ایف ایس سی کے بعد GIKاورNUSTکے امتحانات میں بھی کامیابی حاصل کی تھی چونکہ ان اداروں کے اخراجات بہت زیادہ ہے اسلئے ان میں داخلہ نہ کرسکی بالآخر UETپشاور میں داخلہ لیا اب ان کو بھی خیر باد کہنے کا سوچ رہی ہے ۔ لیکن اس اندوہناک خبر کے نشر ہونے کے بعد کسی غلام محمد ، کسی نام نہاد سماجی خدمت گار ادارے ،این جی اوز،ممبران اسمبلی ،اوورسیز پاکستانیوں یا علاقے کے کسی امیر آدمی کو اس طالبہ کی مدد کی ابھی تک توفیق نہ ہوئی اس وقت صوبائی اسمبلی میں چترال کے تین ممبران جبکہ ایک قومی اسمبلی کا ممبر موجود ہے ان میں سے دو کے پاس ماشااللہ دولت کی بھی کمی نہیں او ر اسمبلی سے ملنے والی تنخواہیں اور مراغات علیٰحدہ سے ہیں لیکن کیا وہ آگے آکر اس طالبہ کی مدد نہیں کرسکتے ہیں۔کیا وہ کوئی فنڈز تشکیل دے کر آئیندہ کے لئے ضرورت منداسٹوڈنٹس کی مدد کا مستقل بندوبست نہیں کرسکتے ہیں ؟ ہمارے معاشرے میں سب کچھ ہے اگر کچھ نہیں تو وہ ویژن اور مشن کا فقدان۔ سرسید جیسے ویژن کے حامل افراد کی نایابی اور دولت مندوں کی معاشرے سے غیرمعمولی بیگانگی ہماری تباہی کی علامات ہے۔آج سے دس بارہ برس قبل کا ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں پرواک سے تعلق رکھنے والے UETکے اسی ہی طالبہ کے گاؤں کا ایک امیر آدمی جو کہ سوئیزرلینڈ میں ہوتے ہیں گرمیون کی چھٹیاں گزارنے گھر آگیا اور چترال کے ایک معروف پولوپلئیر کو دعوت پر بلایا رات کو محفل موسیقی سجایا گیا اگلے صبح جب وہ روانہ ہوگئے تو ایک لاکھ روپے اس جاگیر دار پولوپلئیر کو یہ کہہ کر تھما دیا کہ ان سے اپنے لئے گھوڑے خریدلو۔1997-98ء میں ایک لاکھ روپے کی قد ر کا بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں ۔جبکہ ایک مرتبہ گاؤں کے گرلز کمیونٹی سکول میں یوم آزادی کی تقریب میں ان کو بلایاگیا تو انہوں نے آنے کی زحمت گوارا نہ کی کیونکہ ان کو پتہ چلا تھا کہ سکول کی چاردواری نہیں جس کے لئے بیس تیس ہزار روپے کی ضرورت تھی ۔ ان سارے حقائق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں کہ ہماری ترجیحات کیا ہے اور بحیثیت قوم ہمارا مستقبل کیا ہوگا؟

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button