کالمز

مقاصد نماز اور ہمارا سماج

نماز اسلام کا بنیادی رکن اور مومن کی معراج ہے اور جنت کی کنجی بھی۔ نماز اللہ تعالیٰ کے قرب، عبادت اور بندگی کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔
قرآن و حدیث میں نماز کے مقاصد کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے، ان مقاصد میں روحانی، اخلاقی اور سماجی فوائد شامل ہیں۔

ہمارے سماج میں نماز کے حوالے سے انتہائی غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں۔ بہت سے علاقوں میں عمومی تاثر ہے کہ "کچھ بھی کرو مگر نماز پڑھو”۔ یہ وہ غلط فہمی ہے جو مقاصد کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔ آج کی محفل میں مقاصد نماز کے حوالے سے مختصر و مدلل گفتگو کرتے ہیں تاکہ سماج میں موجود غلط فہمیوں کا ازالہ ہوسکے۔ اگر نماز کی پابندی کے باوجود بھی مذکورہ مقاصد حاصل نہیں ہورہے ہیں تو یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ نماز ادا ہی نہیں ہورہی اور نہ ہی قبول۔

پہلا مقصد : اللہ کی عبادت اور بندگی کا اظہار

نماز کا سب سے پہلا اور بنیادی مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے سامنے عاجزی و بندگی کا اظہار ہے۔
قرآن کریم میں میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات: 56)
"اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔”

دوسرا مقصد : تقویٰ اور پرہیزگاری کا حصول

نماز کا دوسرا مقصد حصول تقوی ہے۔ نماز انسان کو ہر قسم برائیوں سے روکتی اور دل میں اللہ کی محبت اور گناہوں کا خوف پیدا کرتی ہے، جو تقویٰ کی بنیاد ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ (العنکبوت: 45)
"بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔”
جو نماز انسان کو برائی اور سماجی منکرات سے نہ روکے وہ نماز کہلانے کے لائق بھی نہیں۔

حدیث مبارکہ میں آتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"جب کوئی شخص نماز پڑھتا ہے تو اس کی نماز اس کے برے کاموں اور گناہوں سے روکتی ہے، اگر ایسا نہ ہو تو اس کی نماز ہی نہیں ہو رہی۔”
(مسند احمد: 10894)

تیسرا مقصد : اللہ کی مدد اور صبر کا ذریعہ

نماز مومن کے لیے مشکل وقت میں صبر اور اللہ کی مدد کا بہترین ذریعہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِين (البقرہ: 153)
"اور صبر اور نماز کے ذریعے (مدد) مانگو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔”
اگر کوئی نمازی انسان مشکلات میں صبر نہیں کرسکتا تو اس کو اپنی نمازوں کے متعلق غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

چوتھا مقصد : گناہوں کی بخشش اور مغفرت

نماز گناہوں کو مٹانے اور اللہ کی مغفرت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهَرًا بِبَابِ أَحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسًا مَا تَقُولُ ذَلِكَ يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ ، قَالُوا : لَا يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ شَيْئًا ، قَالَ : فَذَلِكَ مِثْلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ ، يَمْحُو اللَّهُ بِهِ الْخَطَايَا”

آپ ﷺ فرماتے تھے کہ اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر ہو اور وہ اس میں روزانہ پانچ مرتبہ غسل کرے، تو کیا اس کے جسم پر کوئی میل باقی رہے گا؟” صحابہ نے عرض کیا: "نہیں، یا رسول اللہ!” آپ ﷺ نے فرمایا: "یہی حال پانچ نمازوں کا ہے، اللہ ان کے ذریعے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔” (بخاری: 528)

پانچواں مقصد : دل کو سکون اور روحانی بالیدگی

نماز ذکر الٰہی کا بہترین طریقہ ہے جو دل کو اطمینان بخشتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد: 28)
"خبردار! اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔”
نمازی احباب کو سوچنا چاہیے کہ نماز ادا کرنے کے بعد انہیں اطمینان قلب حاصل ہورہا ہے؟

چھٹا مقصد : اسلامی اخوت اور مساوات کا فروغ

نماز میں تمام مسلمان ایک صف میں کھڑے ہو کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں، جو مساوات اور اتحاد کا عملی نمونہ ہے۔ مساجد میں پنج وقت کی باجماعت نمازیں، جمعہ اور عیدین اس کی واضح مثالیں ہیں ۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
"مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا اور نہ ہی اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے۔” (بخاری: 2442)
ذرا اپنا محاسبہ کیجئے کہ آپ کی نماز آپ کو ظلم وجبر سے روکتی ہے؟

ساتواں مقصد: جھوٹ اور دھوکہ دہی سے نجات

نماز سچائی اور ایمانداری کی عادت ڈالتی ہے۔ جو شخص اللہ کے حضور کھڑا ہوتا ہے، وہ جھوٹ بولنے سے شرم محسوس کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"جو شخص نماز کی پابندی کرے گا، اللہ اس کے دین، جان، عزت اور مال کی حفاظت فرمائے گا۔” (مسند احمد: 6558)

جو لوگ نماز کے پابند ہوتے ہیں، وہ کاروبار اور معاملات میں جھوٹ اور دھوکہ دہی سے گریز کرتے ہیں۔ اگر ہماری نمازیں جملہ معاملات میں جھوٹ اور دھوکہ دہی سے نجات نہیں دلا رہی ہے وہ نماز، نماز ہی نہیں کہلائی جائے گی۔

آٹھواں مقصد : چوری اور خیانت سے روکنا

نماز چوری اور ڈاکہ جیسے سنگین سماجی جرم سے بھی روکتی ہے، کیونکہ نماز انسان میں ایمانداری اور جوابدہی کا احساس پیدا کرتی ہے۔
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے۔
وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ ، وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ (المعارج: 32-34)
"اور وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور وعدوں کا خیال رکھتے ہیں، اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔”

جو شخص نماز کی پابندی کرتا ہے، وہ دوسروں کی امانتوں میں خیانت نہیں کرتا اور چوری جیسے گناہ سے بچتا ہے۔ یہ بات نوٹ کیجئے کہ نمازی چور اور خائن نہیں ہوسکتا اور اگر کوئی چور اور خائن ہے اور ساتھ نماز بھی پڑھنے کا ناٹک بھی کرتا ہے تو وہ نمازی قطعاً نہیں

نواں مقصد : صلح رحمی کرنا

نماز انسان کو نرم دل بناتی ہے اور رشتے ناطے جوڑنے کی تلقین کرتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے۔
"جو شخص چاہتا ہے کہ اس کا رزق کشادہ کیا جائے اور اس کی عمر میں برکت ہو، تو وہ اپنے رشتہ داروں سے تعلقات جوڑے رکھے۔” (بخاری: 5986)

نماز پڑھنے والا ہمیشہ صلح رحمی کی کوشش کرتا ہے اور رشتے ناطے توڑنے سے پرہیز کرتا ہے۔ جو شخص صلح رحمی سے دور رہے اور رشتہ داروں کے ناک میں دم کرے کیا وہ نمازی کہلایا جانے کا مستحق ہے؟

دسواں مقصد : ظلم اور زیادتی سے بچنا

نماز انسان کو انصاف پسند اور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنے والا بناتی ہے۔ نماز پڑھنے والا اللہ کے حضور کھڑا ہوتا ہے، اس لیے وہ کسی پر ظلم کرنے سے ڈرتا ہے۔ کسی صورت زیادتی نہیں کرتا ۔ رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ
"ظلم قیامت کے دن اندھیروں کی شکل میں ہوگا۔” (بخاری: 2447)

نماز ہمیں ظلم سے روکتی ہے، کیونکہ اللہ کے سامنے روزانہ کھڑا ہونا انسان میں احساسِ جوابدہی پیدا کرتا ہے۔ اگر نماز ظلم و جبر، تعدی اور فساد و زیادتی سے نہ روکے تو وہ نماز نماز ہی نہیں ہوتی۔

گیارہواں مقصد : غصہ اور بدتمیزی سے پرہیز کرنا

نماز دل کو سکون دیتی ہے اور غصے کو کم کرتی ہے۔ جو لوگ نماز پڑھتے ہیں، وہ عام طور پر نرم مزاج اور صبر و تحمل والے ہوتے ہیں۔ بدتمیزی سے بچتے ہیں اور غصہ پی جاتے ہیں۔ اللہ کا فرمان ہے
وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ (البقرہ: 45)
"صبر اور نماز کے ذریعے مدد حاصل کرو۔”

حدیث میں آتا ہے ۔ "نماز روشنی ہے۔” (مسلم: 223)

یہ روشنی انسان کے دل سے غصے اور نفرت کے اندھیروں کو ختم کرتی ہے۔ بدتمیزی اور بداخلاقی سے بچاتی ہے اور سچائی کا راستہ دکھاتی ہے۔
خود سوچیں کہ اگر ہماری نمازیں ہمیں غصہ، بدتمیزی، بداخلاقی اور بدزبانی سے نہ روکے تو کیا وہ نمازیں، نمازیں کہلانے کے مستحق ہونگی یا پھر ایک دکھاوا؟

بارہواں مقصد : حسد اور بغض سے بچنا

نماز دل کو صاف کر دیتی ہے اور حسد و بغض جیسی منفی صفات کو دور کرتی ہے۔ جو شخص دن میں پانچ بار اللہ کے سامنے جھکتا ہے، وہ دوسروں سے حسد، ضد، کینہ اور بغض نہیں کرتا
ذرا رسول اللہ کا ارشاد ملاحظہ فرمائیں
"مسلمانوں کے دلوں میں حسد نہیں ہوتا، جب وہ نماز پڑھتے ہیں اور اللہ کے ذکر میں مصروف رہتے ہیں۔” (مسند احمد: 20607)

تیرہواں مقصد : آخرت میں کامیابی اور جنت کا راستہ

نماز آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے اور جنت میں لے جانے والی اہم عبادت ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا:
"جس نے فجر اور عصر کی نماز پڑھی، وہ جنت میں داخل ہوگا۔” (بخاری: 574)

خلاصہ کلام

نماز محض ایک رسمی عبادت نہیں بلکہ اللہ سے تعلق جوڑنے، روحانی پاکیزگی حاصل کرنے، گناہوں سے بچنے، مشکلات میں صبر کا سہارا لینے اور قیامت کے دن کامیابی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ جو شخص باقاعدگی سے نماز ادا کرتا ہے، وہ نہ صرف دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی کامیاب ہوگا۔

نماز ایک ایسی عبادت ہے جو نہ صرف انسان کی روحانی اصلاح کرتی ہے بلکہ اسے سماجی اور اخلاقی برائیوں سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ قرآن و حدیث میں واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ اس کے ذریعے فرد اور معاشرہ دونوں کی اصلاح ممکن ہوتی ہے۔

اللہ ہمیں نماز کی حقیقت کو سمجھنے اور اسے زندگی کا لازمی حصہ بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور نماز کی آڑ میں ہر برائی اور گناہ کو کچھ نہ سمجھنا بھی ایک قبیح عمل ہے اور ہمارا پورا سماج اس قباحت میں ملوث ہے اور ساتھ اپنی نمازوں پر فخر بھی کرتا ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button