کالمز

منرلز ہمارے، حق بھی ہمارا

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں حالیہ منرلز سمٹ کا انعقاد بظاہر پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی کوشش ہے، لیکن جب اس میں گلگت بلتستان جیسے حساس اور قدرتی وسائل سے مالا مال خطے کے پہاڑوں اور ذخائر کو شامل کیا جاتا ہے، تو سوالات اٹھنا لازمی ہو جاتا ہے۔ یہ سوالات یقیناً یہاں کے باسیوں کے حق کے لیے ہیں، نہ کہ اس سمٹ کو ناکام بنانے کے لیے ۔

یہ بات اب کوئی راز نہیں کہ گلگت بلتستان کے پہاڑ قیمتی معدنیات (منرلز) سے بھرپور ہیں۔ سونا، چاندی، تانبہ،ماربل، کرومائٹ، یورینیم اور دیگر قیمتی دھاتوں کی موجودگی، اس خطے کو سرمایہ کاروں کی نظر میں ایک جنت بنا دیتی ہے۔ لیکن افسوس کہ یہاں کے اصل باشندے، جنہوں نے ان پہاڑوں کے دامن میں صدیوں زندگی گزاری، وہ آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔

جب سوشل میڈیا پر یہ آواز گونجی کہ “اب گلگت بلتستان کے پہاڑ بھی یہاں کے نہیں رہے” تو اس نے عوام کے دلوں میں وہ پرانا زخم پھر سے تازہ کر دیا جو دیامر بھاشا ڈیم جیسے میگا پروجیکٹس کے بعد پیدا ہوا تھا۔ مقامی افراد کی زمینیں لی گئیں، وعدے کیے گئے، مگر آج بھی ان وعدوں کی تکمیل باقی ہے۔

گلگت بلتستان کے عوام طرف سے پاکستانی حکام اور متعلقہ اداروں سے چند سوالات ہیں۔ یہ سوالات عوامی جذبات، وسائل پر حق، اور آئندہ کی پالیسی سازی کے تناظر میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک نے ان پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

1. کیا گلگت بلتستان کے معدنیات سے حاصل ہونے والی آمدن کا کوئی معینہ اور شفاف حصہ گلگت بلتستان کو دیا جائے گا؟ اگر ہاں، تو اس کا طریقہ کار کیا ہوگا؟

2. کیا تمام مائننگ پروجیکٹس سے قبل گلگت بلتستان کی عوام کی مشاورت اور رضامندی کو قانونی طور پر لازم قرار دیا جائے گا؟

3. کیا گلگت بلتستان کے فلک بوس پہاڑوں کے وسائل پر مقامی عوام کا پہلا حق تسلیم کیا گیا ہے یا وفاقی ادارے یکطرفہ فیصلے کر رہے ہیں؟

4. کیا گلگت بلتستان کے عوام کو ان کے وسائل کے بدلے بنیادی سہولیات، جیسے جدید تعلیم، صحت، روزگار اور سڑکوں کی فراہمی کو ترجیح دی جائے گی؟

5. کیا ماضی کی طرح دیامر بھاشا ڈیم جیسے منصوبوں میں کیے گئے وعدوں کو نظر انداز کرنے کا رویہ دوبارہ اپنایا جائے گا؟ یا اس بار شفافیت اور انصاف کو یقینی بنایا جائے گا؟ اور اس کے لئے کوئی واضح میکنزم تیار کیا جائے گا؟

6. کیا گلگت بلتستان کے نوجوانوں کو مائننگ اور انڈسٹریز میں تربیت، نوکریوں اور تکنیکی مہارت حاصل کرنے کے مواقع دیے جائیں گے؟ یا دیامر بھاشا ڈیم کی طرح باہر سے لوگ لا کر روزگار دیا جائے گا؟

7. کیا کوئی باضابطہ "منرلز پالیسی برائے گلگت بلتستان” بنائی جا رہی ہے جس میں عوامی نمائندوں اور مقامی اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت ہو؟ یا پھر…..؟

8. اگر گلگت بلتستان آئینی طور پر متنازعہ حیثیت رکھتا ہے تو کیا متنازعہ علاقوں کے لیے بین الاقوامی معیار کے مطابق خصوصی حقوق اور مراعات یہاں کے عوام کو بھی دی جائیں گی؟ یا پھر ماضی کی طرح لولی پاپ..؟

9. کیا گلگت بلتستان کے معدنیات کے بابت تمام معاہدوں اور سرمایہ کاری کی تفصیلات عوام کے سامنے لائی جائیں گی یا سب کچھ پس پردہ طے پا جائے گا؟

10. اگر گلگت بلتستان کے پہاڑ، دریا اور وسائل پاکستان کے لیے ناگزیر ہیں، تو پھر یہاں کے عوام پاکستان کے لیے کتنے ناگزیر سمجھے جا رہے ہیں؟

ایسے درجنوں سوالات ہیں۔اور یہ سوالات صرف سیاسی مطالبات نہیں، بلکہ وہ بنیادی انسانی اور قانونی تقاضے ہیں جن کا جواب دینا ریاست پاکستان کی اخلاقی، قانونی اور قومی ذمہ داری ہے۔ اگر ان سوالات کے جوابات دیے گئے اور عملی اقدامات اٹھائے گئے تو گلگت بلتستان اور پاکستان کے درمیان اعتماد کی ایک مضبوط فضا قائم ہو سکتی ہے۔

اس صورتحال میں چند ٹھوس اور عملی تجاویز پیش کی جا رہی ہیں۔جن پر عمل پیرا ہوکر شاید بہتری کی طرف راہیں نکل سکتی ہیں۔
۔
1. ریالٹی شیئرنگ کا جامع نظام

گلگت بلتستان کے تمام معدنیاتی منصوبوں میں مقامی حکومت اور عوام کو فیصدی حصہ (Revenue Sharing) دیا جائے۔ ہر کان سے نکلنے والی معدنیات کی قیمت میں سے ایک معینہ تناسب براہ راست مقامی حکومت کو منتقل ہو تاکہ وہ اسے تعلیم، صحت، سڑکوں اور روزگار کے منصوبوں پر خرچ کر سکے۔

2. مقامی نوجوانوں کی ملازمت میں ترجیح

تمام مائننگ، سروے اور پروسیسنگ کمپنیوں کو پابند بنایا جائے کہ وہ کم از کم 80 فیصد مقامی نوجوانوں کو ملازمت فراہم کریں۔ اس مقصد کے لیے مقامی طلبہ کو مائننگ، جیالوجی، انجیئرنگ اور بزنس ایڈمنسٹریشن کے شعبوں میں اسکالرشپس دی جائیں۔اور انہیں تیار کیا جائے۔

3. بنیادی سہولیات کی فراہمی

منرلز سے حاصل ہونے والی آمدن سے فوری طور پر درج ذیل سہولیات مہیا کی جائیں جن میں بالخصوص ہر ضلع میں جدید ہسپتال، بہترین تعلیمی ادارے (کالجز، یونیورسٹیاں)، ہر گاؤں تک پکی سڑک اور انٹرنیٹ کی سہولت، پینے کا صاف پانی اور بجلی کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔

4. مقامی لوگوں کی زمینوں کا مکمل تحفظ

ہر منصوبے سے قبل مقامی آبادی سے تحریری اجازت لی جائے۔ ان کی زمینوں کے عوض مارکیٹ ریٹ سے زیادہ معاوضہ اور متاثرین کی بروقت آبادکاری لازم بنائی جائے۔

5. قانونی تحفظ اور خود اختیاری

گلگت بلتستان چونکہ آئینی طور پر متنازعہ حیثیت رکھتا ہے، اس لیے یہاں کے وسائل پر بھی مقامی عوام کو پہلا حق حاصل ہونا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے ایک الگ منرلز پالیسی برائے گلگت بلتستان بنائی جائے جو مقامی اسمبلی سے منظور شدہ ہو اور اسے قانونی تحفظ حاصل ہو۔ یہ پالیسی ٹوٹلی عوام دوست ہو اور علاقائی مفاد پر مبنی ہو۔

6. ٹرانسپیرنسی اور احتساب

تمام معاہدے، سرمایہ کاری کی تفصیلات، اور آمدن کے اعداد و شمار کو عوام کے سامنے رکھا جائے۔ ایک عوامی شکایتی کمیٹی تشکیل دی جائے جو مائننگ سے متعلق شکایات کا جائزہ لے اور عوامی تحفظات کا ازالہ کرے۔

ان چند تجاویز کے سوا بھی بہت ساری تجاویز ہوسکتی ہیں جن کی بنیاد پر منرلز کے کام کو احسن طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکتا ہے۔

یہ ضروری ہے کہ وفاقی حکومت، پاکستانی ادارے اور بین الاقوامی سرمایہ کار اس خطے کو صرف وسائل کا خزانہ نہ سمجھیں، بلکہ یہاں بسنے والے لوگ بھی انسان ہیں، جن کا حق ہے کہ ان کے وسائل کا فائدہ انہی کو پہنچے۔ اگر پاکستان کو گلگت بلتستان کے معدنیات کی ضرورت ہے تو پھر پاکستان کو گلگت بلتستان کے لوگوں کو بھی درکار تمام حقوق اور سہولیات دینا ہوں گی۔

یہ ایک ایسا سیدھا راستہ ہے جس سے صرف گلگت بلتستان ہی نہیں، پورا پاکستان فائدہ اٹھا سکتا ہے، لیکن صرف اسی صورت میں جب انصاف، شراکت، اور اعتماد کی بنیاد پر معاہدے کیے جائیں۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button