کالمز

ہوشیار رہیں

سب سے پہلے میں اپنے پیارے وطن کے باسیوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔ ساتھ ہی ایک مخلصانہ گزارش ہے کہ اپنے کان اور آنکھیں پوری طرح کھول کر رکھیں۔ خاص طور پر اپنے با شعور جوانوں، بزرگوں اور علمائے کرام سے درخواست ہے کہ موجودہ حالات میں ہوشیاری اور بصیرت سے کام لیں۔
"پہاڑی سلسلے چاروں طرف اور بیچ میں ہم ہیں” — ایک قدرتی حصار کی مانند، جس کے بیچ ہم نایاب دولت کی طرح بسے ہوئے ہیں۔
اور یہی نہیں، بلکہ
"مثالِ گوہرِ نایاب ہم پتھر میں رہتے ہیں”
یعنی ہماری حیثیت ان قیمتی جواہرات جیسی ہے جو سخت پتھریلی زمین میں بھی اپنی چمک اور قدر برقرار رکھتے ہیں۔
لیکن یاد رکھیں:
"جو گوہر اپنی قدر نہ جانے، زمانہ اسے مٹی میں رول دیتا ہے۔”
پتھر میں رہنے والا گوہر بھی تبھی اپنی اہمیت منوا سکتا ہے جب وہ خود اپنی حقیقت کو پہچانے اور اس کی حفاظت کرے۔
گزشتہ دنوں شگر کے حسینی چوک پر ایک عظیم الشان جلسہ عام منعقد ہوا جس میں شگر کے دور دراز علاقوں سے بچے، جوان، بزرگ، علمائے کرام اور سیاسی نمائندے بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ عوام کا جوش و خروش دیدنی تھا اور تقاریر بھی ولولہ انگیز رہیں۔ اگرچہ بعض اہم باتیں سننے کا موقع نہ ملا، لیکن مجموعی طور پر یہ اجتماع قابلِ ستائش تھا۔
البتہ، یہ جذبہ اسی وقت نتیجہ خیز ہو سکتا ہے جب اس میں ہوش کی آمیزش ہو۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ بعض عناصر ایسے اجتماعات کا فائدہ اٹھا کر عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے اور اپنے مخصوص مقاصد کے لیے میدان ہموار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس لیے علاقے کے با شعور نوجوانوں کو ہوشیار اور بیدار رہنے کی اشد ضرورت ہے۔
علمائے کرام ہمارے سروں کا تاج ہیں۔ حق گو اور حق پرست علما کی ہمیشہ عزت کریں لیکن ان کی رہنمائی میں بصیرت سے کام لیں، جذبات میں بہہ کر فیصلے نہ کریں۔
جیسا کہ شاعر نے کہا ہے:
"چراغ سب کے بجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں
سمجھ سکو تو یہی وقت کی صدا ہے دوستو”
ہمارے علاقے کے قیمتی پہاڑ اور معدنیات دھیرے دھیرے غیر مقامی عناصر کی جھولی میں ڈالے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ سہولت کاری کس نے کی؟ کون لوگ ان کے لیے راستہ ہموار کر رہے ہیں؟ میں یہ سوال علاقے کے نوجوانوں کے ضمیر پر چھوڑتا ہوں۔ ان عناصر کی نشاندہی کریں اور ان کی چالوں سے باخبر رہیں۔
اسی جلسے میں موجود سیاسی نمائندوں کا احترام اپنی جگہ مگر ان سے ایک سوال ضرور کریں: کیا حکومتِ پاکستان ایسے اہم فیصلے براہ راست کرتی ہے یا مقامی قیادت سے مشورہ بھی لیا جاتا ہے؟ اگر مشورہ لیا جاتا ہے تو ہمارے سیاسی قائدین کی خاموشی کس بات کی نشاندہی کرتی ہے؟
کیوں ہر آنے والا اپنی مرضی سے ہمارے وسائل پر ہاتھ صاف کرتا ہے اور ہماری قیادت محض تماشائی بنی رہتی ہے؟ کہیں نہ کہیں ضرور سہولت کاری کا عمل جاری ہے جس پر سوال اٹھانا نوجوانوں کا فرض ہے۔
یاد رکھیں، صرف ایک جلسے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اگر آپ نے کانوں پر ہاتھ رکھ کر خاموشی اختیار کی تو کل یہی مسئلہ کسی اور انداز میں آپ کے سامنے آئے گا۔
جیسے سندھ کینال کے نام پر علاقے کے وسائل لوٹے گئے، ویسے ہی محبت اور ترقی کے خوشنما نعروں میں لپیٹ کر آپ کے حقوق چھینے جائیں گے۔ اس لیے خدارا ہوشیار رہیں، اپنے اثاثوں پر سودے بازی مت کریں۔
اپنے حق اور علاقے کی عزت کے تحفظ کے لیے دانشمندی اور تدبر سے کام لیں۔
آیئے عہد کریں کہ ہم اپنی سرزمین، اپنی معدنیات اور اپنے وسائل کا سودا کبھی نہیں ہونے دیں گے۔
خدا ہمیں فہم و فراست عطا کرے۔ آمین۔.

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button