برازیلین قصاب کا چترالی گاہک

ایک شخص جب دکان کھولتا ہے، اپنے گاہکوں کو متاثر کرنے کے لیے دکان کی آرائش کرتا ہے اور گاہکوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے مختلف اسکیمیں نکالتا ہے تاکہ کاروبار منافع بخش ہو، اور دکان کو بڑھانے کے لیے کوششیں کرتا ہے۔ اس سلسلے میں حکومتی ادارے بھی اس شہری کی مالی اور تکنیکی طور پر مدد فراہم کرتے ہیں
عرب ممالک میں دنیا کے مختلف ممالک سے گوشت آتا ہے جن میں بھارت، پاکستان اور برازیل وغیرہ شامل ہیں، اور جو ملکی پیداوار ہوتا ہے وہ کافی مہنگا ہوتا ہے۔ یہاں کے لوگ دیانتدار، شرافت دار اور پیار کرنے والے ہیں۔
خیر، میں سوچ رہا تھا کہ اگر برازیل یا بھارت سے گوشت چترال بھیجا جاتا، تو ہمارے معززین کا ردعمل کیا ہوتا؟ حکومت دھمکاتی، پر آمن چترال کے امن کے لیے زہر قاتل قرار دیتی، اور دکاندار سے ظلمًا راضی نامے پر دستخط کراتی، اس کی جگہ اپنی دکان کھول لیتی اور مزے کرتی، اور اس کارِ خیر میں مقامی انتظامیہ کا بھی بھرپور ساتھ ہوتا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ انڈین میڈیا کے مطابق گوشت کے کاروبار کرنے والی کمپنیاں عامر، عرفان کے نام سے تو چلتی ہیں، لیکن اب کے مالکان بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ہیں۔
اس نازک حالات میں ہمارے چترال کے معتبرات کا کیا ردعمل ہوتا، اور مقامی انتظامیہ دکاندار کو کیا مشورہ دیتی؟ اگر یہ گوشت سنٹرل چترال کے ہوٹلوں میں سپلائی کیا جاتا، تو اس دکاندار کو کتنا سال جیل اور جرمانہ ہوتا؟ یا مقامی فورس بزورِ بازو اس دکاندار کو سبق سکھاتی؟
آج ایک راضی نامہ موصول ہوا جس میں 98% اسماعیلی آبادی میں قصائی کی دکان کھولنے سے متعلق ایک حکم صادر کیا گیا ہے کہ اگر گوشت کسی غیر اسماعیلی کو بھیجا یا سنٹرل چترال سپلائی کیا گیا تو تین لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے گا۔ یہ کاغذی کارروائی ہے، اس کے علاوہ ہمارا مقامی انتظامیہ چترال اس دکاندار کو جیل بھیج سکتا ہے یا کوئی شخص خود جاکر اس دکاندار کو سبق سکھا سکتا ہے۔
رویہ دیکھ کر لگتا ہے ہمارے مقامی انتظامیہ کے ذمہ داران کو انسانی بنیادی حقوق کا مخصوص مضمون پڑھنا چاہیے تاکہ جہاں بھی پوسٹنگ ہو، وہ انسانی حقوق کا خیال رکھیں اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار نہ ہوں۔