کالمز

خواتین کے سیاسی کردار کی اہمیت اور پاکستانی معاشرے کا المیہ

پاکستان میں خواتین کے خلاف پرتشدد واقعات، جیسے ثنا یوسف، نور مقدم، ادیبہ اور دیگر کئی خواتین کے قتل کے مقدمات، ایک گہری سماجی بیماری کی علامت بن چکے ہیں۔ ان واقعات کے خلاف آوازیں تو ضرور بلند ہوتی ہیں، سوشل میڈیا پر مہمات بھی چلتی ہیں، لیکن یہ ردعمل وقتی ہوتا ہے۔ بنیادی مسئلہ وہی کا وہی رہتا ہے۔

پاکستانی معاشرے میں خواتین کو دانستہ طور پر "اے پولیٹیکل” رکھا گیا ہے، یعنی انہیں سیاست سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی ہے، اور یہ عمل محض اتفاقی نہیں بلکہ تاریخی اور نظامی ہے۔ مرد سیاست دانوں نے ایسا نظام ترتیب دیا ہے جس میں خواتین محض مخصوص نشستوں کے ذریعے اسمبلیوں تک پہنچتی ہیں, اور وہ بھی زیادہ تر خاندانی تعلقات یا سیاسی سفارش کی بنیاد پر۔

ان میں سے بیشتر خواتین اصل میں اپنے خاندانوں یا سیاسی جماعتوں کی نمائندہ ہوتی ہیں، نہ کہ عام پاکستانی خواتین کی۔ایسی صورتحال میں، خواتین کے مسائل کا حل تب تک ممکن نہیں جب تک خود خواتین انتخابات میں حصہ لے کر، اپنی نمائندگی کا حق خود حاصل نہیں کرتیں۔ انہیں سیاسی عمل میں فعال، باشعور اور خودمختار حیثیت سے شامل ہونا ہوگا۔ جب تک خواتین اپنی ذات، اپنی شناخت اور اپنے حقوق کے لیے خود سیاست کے میدان میں نہیں اتریں گی، ان کے مسائل صرف بیانات اور قراردادوں تک محدود رہیں گے۔

یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ موجودہ مرد سیاست دانوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ خواتین کے حقوق کے لیے عملی اقدامات کریں گے، محض خوش فہمی ہے۔ خواتین کی آزادی اور تحفظ کی جنگ انہیں خود ہی لڑنی ہوگی، اداروں میں، پارلیمان میں، سڑکوں پر اور بیلٹ باکس تک۔

میرے نزیک خواتین کے خلاف ظلم کا اصل توڑ صرف احتجاج یا سوشل میڈیا مہم نہیں، بلکہ سیاسی طاقت ہے اور وہ طاقت صرف تب حاصل ہوگی جب خواتین خود فیصلہ سازی کے عمل کا حصہ بنیں۔ یہی پاکستان کی آئندہ نسلوں کے لیے ایک محفوظ اور مساوی معاشرے کی بنیاد ہو سکتی ہے۔

آپ کی رائے

comments

روشن دین دیامری

روشن دین دیامری کا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع دیامر سے ہے۔

متعلقہ

Back to top button