یفتالی: جو خواب بھی دیکھتا تھا اور اُن کے لیے لڑ بھی سکتا تھا
کچھ لوگ دولت نہیں چھوڑتے، خودداری چھوڑ دیتے ہیں, یفتالی بھی اُنہی میں شامل تھا

تحریر: نورالہدیٰ یفتالی
1947 میں جب برصغیر و پاک و ہند بدل رہے تھے، تب لفٹننٹ ولایت خان کے خاندان میں ایک نئی زندگی نے آنکھ کھولی۔ وہ میرے دادا کی پہلی اولاد تھے۔ کہتے ہیں، گھر کے آنگن میں جیسے بہار اُتر آئی ہو، اور پورے خاندان میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ میرے پردادا نے فخر اور محبت سے اُن کا نام اپنے دادا کے نام پر رکھا: یفتالی امیراللہ خان۔
یہ صرف ایک نام نہیں تھا، یہ نسلوں کے وقار، عزت اور روایت کا تاج تھا، جسے اس امید کے ساتھ اُن کے ماتھے پر رکھا گیا کہ آنے والے وقتوں میں یہ نام صرف یاد نہ رکھا جائے، بلکہ فخر سے دہرایا جائے، نسل در نسل، دل سے دل تک۔
بچپن لاسپور کی حسین وادیوں میں گنگناتے جھرنوں، سبز ڈھلوانوں اور محبتوں کی چھاؤں میں گزرا۔ ابتدائی تعلیم بھی وہیں حاصل کی، مگر اُس کے خوابوں کی پرواز پہاڑوں کی بلندیوں سے کہیں بلند تھی۔ تعلیم کی جستجو نے اُسے شہرِ قائد، کراچی پہنچایا، جہاں اُس نے اسلامیہ کالج میں داخلہ لیا۔
یہ صرف تعلیم کا سفر نہ تھا، بلکہ شعور، جدوجہد اور بغاوت کا آغاز تھا۔ وہ اسلامیہ کالج اسٹوڈنٹ یونین کا صدر منتخب ہوا۔ ایک نڈر مقرر، جس کے لفظوں میں آگ ہوتی اور لہجے میں اثر۔ زمانۂ طالب علمی میں ہی اُس نے لوگوں کے دل جیتنا سیکھ لیا تھا۔
یہ وہ دور تھا جب اُس کے ساتھ کلاس میں بیٹھنے والا لڑکا الطاف حسین تھا، جو بعد میں ایم کیو ایم کا بانی بنا۔ دونوں میں دوستی بھی تھی، خیالات کی ہم آہنگی بھی، اور اختلاف بھی۔ سبق کم، سیاست کا سبق کچھ زیادہ ہی تھا۔ یفتالی کے انقلابی رجحانات کراچی کی گلیوں میں گونجنے لگے تو اُس کی معصوم مگر پُراثر سیاست کی خبریں لاسپور کے گھر تک پہنچنے لگیں۔
ایک دن والد کی طرف سے ایک خط موصول ہوا۔ اس خط میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کی دعوت تھی۔ خط پڑھتے ہی اُس نے فوراً واپسی کا فیصلہ کیا، جیسے اُسے اسی خواب کا انتظار تھا۔ اور یوں ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو کر وہ لاسپور کی مٹی پر واپس قدم رکھتا ہے۔ یہ واپسی محض بیٹے کی نہیں تھی، بلکہ ایک ایسے شخص کی تھی جو اپنے علاقے کی تقدیر بدلنے کا عزم لے کر آیا تھا۔ الیکشن میں بھرپور حصہ لیا، اور اسی لمحے باقاعدہ سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔ یہ صرف ایک انتخاب نہیں تھا، بلکہ یفتالی خاندان کے لیے ایک نئے باب کا آغاز تھا۔
وہ ایک ایسی شخصیت تھا جو بھیڑ میں بھی الگ پہچانا جاتا تھا، بیک وقت لکھاری، سیاستدان، کھلاڑی اور سماجی خدمت گزار۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں، وہ عوامی اعتماد کا علمبردار بن کر ڈسٹرکٹ کونسل کا رکن منتخب ہوا۔ اُس نے بلدیاتی انتخابات میں اُس وقت کے گورنر مستوج، شہزادہ خوش وقت الملک مرحوم کو شکست دے کر ایک تاریخی مثال قائم کی، جو آج بھی سیاسی بصیرت اور عوامی طاقت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ اُس کی قیادت میں لاسپور میں کئی انقلابی ترقیاتی منصوبے مکمل ہوئے۔ امیراللہ خان یفتالی کے دورِ اقتدار میں ایک یادگار لمحہ اس وقت آیا، جب جنرل فضل الحق مرحوم، جو اُس وقت گورنر سرحد تھے، ستمبر کے مہینے میں شندور کا دورہ کیا۔ اُس وقت یفتالی ایک نوجوان، چھوٹے قد کا مگر بلند حوصلوں کا مالک ممبر ڈسٹرکٹ کونسل تھا۔
یہ یفتالی کی گورنر سے پہلی ملاقات تھی، اور یہ کوئی معمولی ملاقات نہ تھی۔ گورنر جنرل فضل الحق، جو نہ صرف اقتدار کے نشے میں چُور ایک سخت گیر جنرل تھے، بلکہ جنرل ضیاءالحق کے قریبی دوست بھی، اُن کے سامنے کھڑا ہونا کمزور دل والوں کا کام نہ تھا۔ وہ کسی کو خاطر میں لانے کے قائل نہ تھے، اور اُن کی شخصیت خود ایک دباؤ کا مجسمہ تھی۔ مگر اُس دن فضا میں کچھ مختلف تھا۔ جب یفتالی اُن کے سامنے آیا تو ایک غیر متوقع گرمجوشی نے ماحول کو گھیر لیا۔ لوگوں کی نگاہوں میں حیرت، دلوں میں خوف، اور چہروں پر فخر کی چمک تھی۔ یفتالی نے اس ملاقات کو رسمی سلام و دعا کا لبادہ اوڑھنے نہ دیا، بلکہ اُس کی زبان سے نکلنے والے الفاظ اُس کے علاقے کے عوام کے دکھوں کا نوحہ تھے۔ وہ مانگ نہیں رہا تھا، وہ اپنا حق یاد دلا رہا تھا۔ اُس نے غیر معمولی اعتماد اور جُرات سے اپنے علاقے کے عوامی مسائل گورنر کے سامنے رکھ دیے، جیسے وہ کسی گورنر سے نہیں، ایک ضمیر سے مخاطب ہو، اور اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب رہا۔
یہ مطالبات اُس کے سیاسی شعور، علاقائی آگہی اور قائدانہ جُرات کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ گورنر سے اس پہلی ہی ملاقات میں یفتالی نے ثابت کیا کہ وہ صرف نمائندہ نہیں، بلکہ اپنے لوگوں کا حقیقی ترجمان ہے، جو موقع پر بات کرنے اور دل میں درد رکھنے کا سلیقہ جانتا ہے۔
تحریکِ استقلال پاکستان، جسے 1970 میں ایئر مارشل (ر) اصغر خان نے قائم کیا، اپنے وقت میں پاکستان کی دوسری سب سے مقبول جماعت کے طور پر ابھری، جو ملک میں صاف، شفاف اور اصولی سیاست کی داعی تھی۔ چترال جیسے دورافتادہ اور پُرامن خطے میں بھی اس جماعت کی بازگشت سنائی دی، اور اس کا سہرا بھی امیراللہ خان یفتالی کے سر جاتا ہے، جنہوں نے ذاتی طور پر تحریکِ استقلال کو چترال میں متعارف کروایا۔
بعدازاں، پاکستان پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے، ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں، امیراللہ یفتالی اور شہزادہ برہان الدین کو صوبائی اسمبلی کے لیے ٹکٹ سے الیکشن لڑنے کا موقع ملا، مگر بدقسمتی سے جلد ہی الیکشن ملتوی کر دیا گیا، اور یہ خواب ادھورے رہ گئے۔
الیکشن کے التوا اور جمہوری عمل کی بحالی کے لیے آواز بلند کرنا اُس کا جرم ٹھہرا۔ عوام کو شعور دلانے اور سڑکوں پر پُرامن احتجاج کی دعوت دینے پر اُسے گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ ایک مہینہ لاہور سینٹرل جیل میں قید رہا، اور دوسری مرتبہ ایک مہینہ پشاور سینٹرل جیل میں قید رہا۔ موقع ملتے ہی وہ دوبارہ عوام کے بیچ آیا اور سول نافرمانی کا اعلان کیا، مگر ایک بار پھر اُس کی آواز دبا دی گئی۔ مسلسل تین مرتبہ ڈسٹرکٹ کونسل کا ممبر بنا۔
وہ اپنی حیات تک چترال میں امن کمیٹی کا فعال رکن رہا۔ ایک ایسا فرد جس نے ہمیشہ محبت، رواداری اور بقائے باہمی کا پرچم بلند رکھا۔ مذہبی ہم آہنگی اُس کے ایمان کا حصہ تھی، اور فرقہ واریت سے اسے شدید نفرت تھی۔ وہ اختلافات میں نفرت نہیں، بلکہ مکالمے، برداشت اور فہم و فراست تلاش کرتا تھا۔ اپنی وسعتِ نظر اور دینی فہم کی بنیاد پر اُس نے جماعتِ اسلامی، جمعیت علمائے اسلام اور دیگر مذہبی جماعتوں کے قائدین کو اپنے علاقے میں خوش آمدید کہا۔ نہ کہ سیاسی وابستگی کی بنیاد پر، بلکہ اس یقین کے ساتھ کہ ہر مکتبِ فکر کو بات کرنے، سمجھنے اور مل کر چلنے کا حق حاصل ہے۔ وہ صرف ایک امن پسند شہری نہیں، بلکہ ایک ایسا پل تھا جو دلوں کو جوڑتا، ذہنوں کو روشن کرتا، اور معاشرے کو فرقہ وارانہ تقسیم سے محفوظ رکھنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتا تھا۔
شندور ایونٹ کو کامیاب بنانے میں ان کا کردار کلیدی رہا ہے۔ مرحوم لطیف حسین، جو اس وقت گلگت بلتستان کے چیئرمین تھے، ان کے ساتھ مل کر انہوں نے 1982 میں چترال کی میزبانی میں شندور کا تاریخی ایونٹ منعقد کیا، جو آج بھی یادگاروں میں شمار ہوتا ہے۔
شندور کی تاریخ میں پہلی بار اُسے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن پولو ٹیم کی قیادت کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ صرف ایک موقع نہیں تھا، بلکہ اُس کے دیرینہ خواب کی تعبیر تھی۔ وہ لمحہ، جب قومی پرچم اُس کی کلائی پر بندھا ہوا تھا، اُس کی آنکھوں میں چمک اور دل میں فخر کی لہر لیے آیا۔
مگر کھیل کے میدان میں جذبہ کافی نہیں ہوتا۔ قسمت ہر بار ایک جیسی مہربان نہیں ہوتی۔ گلگت بلتستان کی مضبوط ٹیم کے خلاف وہ جی جان سے لڑا، مگر مقابلہ سخت تھا، اور شکست کا مارجن بھاری۔ یہ محض ہار نہ تھی، بلکہ اُس کے لیے ایک کڑوا سچ، ایک سبق، اور ازسرنو اُٹھ کھڑے ہونے کا پیغام تھا۔ اسی تجربے نے اُسے اس قابل بنایا کہ وہ مستقبل میں لاسپور اور غذر کی پولو ٹیموں کو باقاعدہ طور پر شندور ایونٹ کا حصہ بنائے۔ یوں ایک کھلاڑی نے شکست کو بنیاد بنا کر دوسروں کے لیے دروازے کھول دیے۔
یفتالی نے 16 سال تک لاسپور پولو ٹیم کے کپتان اور چیف پیٹرن کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اُن کی قیادت میں لاسپور پولو ٹیم نے لگاتار 14 سال شاندار کامیابیاں سمیٹیں، اور یوں وہ شندور کی تاریخ کے سب سے کامیاب کپتان کا اعزاز بھی اپنے نام کیا۔ وہ چترال میں ڈسٹرکٹ پولو ٹورنامنٹ میں لاسپور پولو ٹیم کی نمائندگی کرتا رہا۔
ریٹائر ہونے کے بعد بھی اُس نے پولو سے اپنا رشتہ نہیں توڑا۔ وہ گھوڑے سے اترا ضرور، مگر شندور کے دل سے کبھی نہیں اترا۔ کھلاڑی کے طور پر میدان چھوڑا، مگر استاد کے طور پر شندور کے سبز میدانوں کی روح بن گیا۔ بطور چیف پولو کوچ وہ کئی برسوں تک نوجوانوں کو تربیت دیتا رہا، اُن کے گھوڑوں کی باگ تھام کر اُنہیں حوصلہ اور ہنر سکھاتا رہا۔ یوں اُس نے صرف ایک کھیل نہیں، بلکہ ایک تہذیب، ایک روایت نئی نسلوں تک منتقل کی—خاموشی سے، محبت سے، وقار سے۔
وہ فیاض تھا، مہمان نواز تھا—ایسا انسان جو خلوصِ دل سے دوسروں کی خدمت کو عبادت سمجھتا تھا۔ اکثر اپنا نوالہ نکال کر دوسروں کو کھلاتا۔ وہ صرف انسانوں ہی کا نہیں، بلکہ روایت، اقدار اور تہذیب کا بھی محافظ تھا۔ چترالی ثقافت اُس کے وجود میں سانس لیتی تھی۔ وہ گلگت بلتستان اور چترال کے ثقافتی ورثے کا سفیر تھا۔ امن، محبت اور روایات کا پیامبر تھا، اور وہ اُسے نسلِ نو تک پہنچانے کی جدوجہد میں عمر بھر مصروف رہا۔ لاسپور میوزیم کی شاندار عمارت اُس کی تیس سالہ محنت، لگن اور ثقافتی عشق کا عملی مظہر ہے۔ ایک خواب جو اُس نے دیکھا، اور اپنی زندگی کھپا کر اُسے حقیقت کا روپ دیا۔
وہ پوری زندگی لڑتا رہا—حالات سے، وقت سے، نظام سے، اور ظلم سے۔ اور جب زندگی کے آخری ایام آئے، تب بھی وہ ہتھیار ڈالنے والا نہیں تھا۔ برین ٹیومر جیسے خاموش قاتل سے لڑتا رہا۔ سانس لینا دشوار ہو چکا تھا، ہاتھوں میں جنبش باقی نہ تھی، مگر آنکھوں میں روشنی اب بھی زندہ تھی۔ کمال کا انسان تھا۔
اپنی پہچان، چترالی ٹوپی پر سجا مرغِ زرین کا تاج اور مارخور کا نشان، کبھی سر سے نہ اتارا۔
وہ بیماری کے بستر پر تھا، پرائیویٹ روم نمبر 10 میں لیٹا ہوا، لیکن اُسے اس بات کی پروا نہیں تھی۔ جو بھی اُسے دیکھنے آتا، اُس کے لبوں پر پہلا جملہ یہی ہوتا: "مہمانوں کے لیے کچھ لاؤ، کھانے کا بندوبست کرو۔”
یہ نہ جانے والا دل تھا—ایسا دل جو آخر تک دوسروں کی فکر کرتا رہا، خود کو بھول کر۔ وہ آخری لمحے تک لڑتا رہا، آخری سانس تک حوصلے کا پہرہ دیتا رہا۔
مگر جب قدرت کا فیصلہ آیا، تو یفتالی خاموش ہو گیا، مگر یادوں، خدمتوں اور حوصلوں کی ایک پوری تاریخ ہمارے دلوں میں چھوڑ گیا۔ نہ کوئی مال و دولت جمع کی، نہ دنیاوی عیش و آرام کا لالچ رکھا۔ جو کچھ بنایا، لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لی۔
جتنا جیا، خودداری سے جیا، سر اٹھا کے جیا، عزت کے ساتھ جیا۔