کالمز

گلگت بلتستان میں موسمیاتی تبدیلی کی تباہ کاریاں

گزشتہ چند برسوں میں گلگت بلتستان کی وادیوں میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ محض قدرتی مظاہر نہیں بلکہ انسانی غفلت اور موسمیاتی تبدیلیوں کا ایک بھیانک امتزاج ہے۔ رواں سال جو سیلابی ریلے پورے گلگت بلتستان میں آرہےہیں، وہ محض پانی کا بہاؤ نہیں تھا، بلکہ وہ ایک تنبیہ تھی، ایک انتباہ کہ وقت ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔ پورے گلگت بلتستان اور دیگر علاقوں میں حالیہ طغیانی نے درجنوں مکانات، کھیت، باغات، سڑکیں اور پل تباہ کر دیے۔ کئی قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئیں اور ہزاروں لوگ شدید متاثر ہوئے۔
یہ سیلاب صرف بارش کا نتیجہ نہیں تھے۔ ان کی بنیاد اس ماحولیاتی نظام کی بگاڑ میں ہے جسے ہم نے خود پیدا کیا ہے۔ گلگت بلتستان ایک حساس خطہ ہے جہاں دنیا کے بڑے گلیشیئرز موجود ہیں۔ انہی گلیشیئرز سے ملک کے بڑے دریا بہتے ہیں، اور یہی برفانی خطہ ہزاروں سال سے قدرتی توازن کا ضامن رہا ہے۔ لیکن اب یہ توازن تیزی سے بگڑ رہا ہے۔ بارشوں کے پیٹرن بدل چکے ہیں، گرمی کی شدت میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے، اور گلیشیئرز پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے پگھل رہے ہیں۔
ان قدرتی عوامل کے ساتھ ساتھ انسان کا کردار بھی اس تباہی کا اہم سبب ہے۔ پہاڑی علاقوں میں غیر منصوبہ بند تعمیرات، خاص طور پر آر سی سی (RCC) عمارات کی بڑھتی ہوئی تعمیر، ندی نالوں اور پانی کے قدرتی راستوں پر تجاوزات، زمین کی بے دریغ کھدائی اور درختوں کی کٹائی نے ماحول کو غیر متوازن کر دیا ہے۔ بلتستان جیسے علاقوں میں جہاں پہلے لکڑی اور پتھر کے ماحول دوست گھروں کی روایت تھی، وہاں اب کنکریٹ کی دیواریں اور چھتیں عام ہو گئی ہیں۔ یہ عمارات نہ صرف قدرتی زمینی جذب کو متاثر کرتی ہیں بلکہ پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ ڈال کر سیلابی کیفیت کو بڑھا دیتی ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی کے اس بگاڑ میں جنگلات کی کٹائی ایک اور بڑا المیہ ہے۔ درخت زمین کو تھامتے ہیں، پانی کو روکتے اور جذب کرتے ہیں، اور ہوا کو صاف رکھتے ہیں۔ لیکن گلگت بلتستان کے کئی علاقوں میں یا تو جنگلات ختم ہو چکے ہیں یا تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب زمین نرم اور غیر محفوظ ہو چکی ہے، جس سے معمولی بارش بھی زمین کھسکنے اور لینڈ سلائیڈنگ کا سبب بن جاتی ہے۔
دوسری طرف، بڑھتی ہوئی آبادی اور شہرکاری کے عمل نے قدرتی نظام کو مزید دباؤ میں ڈال دیا ہے۔ صفائی کے ناقص نظام، پلاسٹک کا استعمال، نالوں میں کچرا پھینکنے کی عادت، اور نکاسی آب کے غیر مؤثر انتظامات نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ نتیجتاً جب بارش ہوتی ہے تو نہ پانی کو گزرنے کا راستہ ملتا ہے اور نہ زمین میں جذب ہونے کا موقع۔ نتیجہ وہی ہوتا ہے جو حالیہ دنوں میں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
موسمیاتی تبدیلی ایک آہستہ زہر ہے، جو بظاہر خاموشی سے اثر انداز ہوتا ہے، مگر جب اس کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں تو وہ قیامت خیز ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس خطرے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ حکومت، مقامی انتظامیہ اور عوام سب کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ہم نے اب بھی قدرت کے ساتھ اپنی جنگ بند نہ کی، تو آنے والے سالوں میں یہ خطہ رہنے کے قابل نہ رہے گا۔
اس سنگین صورتحال سے نکلنے کے لیے ہمیں فوری طور پر قدرت کے اصولوں کی طرف لوٹنا ہوگا۔ سب سے پہلے ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پہاڑی علاقوں میں قدرتی نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ خطرناک نتائج دے سکتی ہے۔ ہمیں تعمیرات، خصوصاً آر سی سی عمارات کی اجازت صرف ان جگہوں تک محدود کرنی ہوگی جہاں وہ ماحولیاتی طور پر محفوظ ہوں۔ ہمیں پانی کے بہاؤ کے قدرتی راستوں کی بحالی کو ترجیح دینی ہوگی، اور ان پر کسی قسم کی تجاوزات کو ختم کرنا ہوگا۔
ساتھ ہی ساتھ ہمیں جنگلات کی بحالی، شجرکاری کی مہم، اور مقامی سطح پر ماحول دوست طرزِ زندگی کو فروغ دینا ہوگا۔ سکولوں اور کالجوں میں ماحولیاتی تعلیم کو عام کرنا ہوگا تاکہ نئی نسل نہ صرف موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں آگاہ ہو بلکہ اس کے خلاف عملی اقدامات کرنے کے لیے تیار بھی ہو۔ مقامی کمیونٹی کے ساتھ مل کر صاف صفائی، کوڑا کرکٹ کی درست تلفی اور ندی نالوں کی صفائی کے حوالے سے مہمات شروع کرنا بھی ناگزیر ہو چکا ہے۔
اب یہ صرف حکومت یا اداروں کی ذمہ داری نہیں رہی، بلکہ ہر فرد، ہر گاؤں، ہر بستی، ہر دکان دار، ہر طالب علم کو اس تبدیلی کا حصہ بننا ہوگا۔ فطرت ہمیں مسلسل خبردار کر رہی ہے، اور ہمیں اب اس کی آواز کو سننا ہوگا۔ وقت اب بھی باقی ہے۔ اگر ہم نے متحد ہو کر دانشمندی اور دور اندیشی سے کام لیا، تو ہم نہ صرف اپنے خطے کو بچا سکتے ہیں، بلکہ آئندہ نسلوں کے لیے ایک محفوظ اور خوبصورت گلگت بلتستان چھوڑ سکتے ہیں۔
لیکن اگر ہم نے خاموشی اختیار کیے رکھی، تو آنے والی تباہی نہ صرف ہماری بقا کو خطرے میں ڈالے گی، بلکہ وہ سب کچھ بہا کر لے جائے گی جس پر ہمیں فخر تھا — ہماری وادیاں، ہماری ثقافت، ہمارا حسن، ہمارا گھر۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button