کالمز

اہل سنت گلگت بلتستان کو تجدیدی کاوشوں کی اشد ضرورت

کبھی کبھی انسان کچھ ایسے حقائق پر قلم اٹھاتا ہے جو بظاہر سادہ، لیکن حقیقت میں سنگین اور دور رس نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ایک حساس اور اہم موضوع پر، میں نے گلگت بلتستان کے تناظر میں اہل سنت والجماعت کے لیے ایک "مجدد” کی ضرورت پر اپنے احساسات و خیالات کو لفظوں میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ بخدا یہ احساسات میرے طویل مشاہدات اور تجربات پر مبنی تھے۔

میرے اس مخلصانہ اشتیاق کو جہاں اہل علم و قلم، احباب فکر و دانش اور دردمند دلوں کی طرف سے حوصلہ افزائی، فکری تحسین اور دعوتِ تفکر کے تبصرے موصول ہوئے، وہیں کچھ احباب اور ناقدین نے اسے مسلکی بالادستی کا پیکر گردانا، بعض نے اسے تنقید برائے تنقید سمجھا، اور کچھ احباب نے خصوصیت کے ساتھ اس تحریر کو اپنے خلاف سمجھا اور کچھ احباب نے اپنے جذباتی تاثر کو دلیل کے پردے میں لپیٹ کر پیش کیا۔

تاہم، مجموعی طور پر جو کچھ بھی سامنے آیا، وہ اس امر کا ثبوت تھا کہ یہ موضوع دلوں میں جگہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور ذہنوں کو جھنجھوڑنے کی طاقت بھی۔

اس ردعمل کو اگر مختصراً بیان کیا جائے تو چار نمایاں رخ سامنے آئے۔

1. احبابِ علم و درد نے اس تجدیدی سوچ کو سراہا اور مطالبہ کیا کہ مذکورہ نکات کو مزید تفصیل، شرح و بسط اور وسعت کے ساتھ پیش کیا جائے تاکہ یہ ایک فکری روڈ میپ بن سکے۔ اور کام کرنے والے روشنی پالیں اور جو ابہام کی دہلیز پر کھڑے ہیں، ان کے ابہامات دور ہوجائیں۔

2. چند ناقدین اور احباب نے اسے فرقہ وارانہ بالادستی سے تعبیر کیا، حالانکہ میرا مدعا قطعی طور پر امتِ مسلمہ کے ایک بڑے طبقے کی اصلاح و رہنمائی تھا، نہ کہ کسی مخصوص گروہ کی برتری اور نہ ہی کسی اور کو زیر کرنا۔

3. بعض افراد نے اسے اپنی ذات، جماعت، تشخص یا فکری و عملی صف بندی پر حملہ سمجھا اور اپنے حلقے سے اعتراضات اٹھوائے، جو علمی ماحول کے لیے بہرحال مثبت ہیں، بشرطیکہ وہ خلوص اور فہم پر مبنی ہوں اور بغض و عناد سے مستشنی۔ اور ساتھ ہی کچھ احباب نے اپنا بغض میرے کندھے پر بندوق رکھ کر نکالنے کی سعی لاحاصل کی۔

4. کئی مخلصین نے نشان دہی کی کہ گلگت بلتستان جیسے اہم خطے میں تجدیدی کوششیں نہایت ضروری ہیں، اور اہل سنت کی علمی و تنظیمی صف بندی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

یہ چاروں رویے میرے لیے باعثِ فکر بھی بنے اور شکر کے احساس کا موجب بھی، کیونکہ یہ واضح ہوا کہ یہ موضوع محض تحریری مشق نہیں، بلکہ زندہ مسئلہ ہے۔ اور زندہ موضوعات کا ادراک کر کے مکالمہ کا موضوع بنانا ہی وقت کی ضرورت ہے۔

بہرحال اس تناظر میں، میں اپنی فکری پوزیشن واضح کرنا چاہتا ہوں کہ:

میں فرقہ واریت یا کسی گروہ کی بالادستی کا داعی نہیں۔ گلگت بلتستان میں موجود تمام برادر کمیونٹیز کو اپنے حدود و قیود میں رہ کر کام کرنے کی نہ خواہش رکھتا بلکہ اس کو ضروری بھی سمجھتا ہوں تاکہ سماجی بہتری اور معاشرے کا حسن برقرار رہے۔ اور فرقہ واریت کے عفریت سے ہمیشہ پوری قوت اور دلیل کیساتھ ٹکڑایا ہے۔ اس حوالے سے پورا تھیسز لکھا ہے جو گلگت بلتستان میں قیام امن اور سماجی ہم آہنگی پر مبنی ہے۔

قرآن کریم کا ارشاد ہے: "وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا” (آل عمران: 103)
یعنی: "اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں نہ بٹ جاؤ۔”

میں اہل سنت والجماعت کو امت مسلمہ کا سوادِ اعظم مانتا ہوں، جیسا کہ حدیث میں آیا:

"عليكم بالسواد الأعظم”(ابن ماجہ)
یعنی: "تم سوادِ اعظم کے ساتھ رہو۔”

یہاں یہ بات واضح کرتا جاؤں کہ میری بنیادی فکر "اہلِ سنت والجماعت” کو بطور فرقہ زندہ رکھنے کی نہیں، بلکہ اسے سوادِ اعظم اور طائفہ منصورہ کی حیثیت سے پیش کرنے کی ہے، جیسا کہ قرآن و حدیث رسول صل اللہ علیہ والہ وسلم کی روشنی میں امت کی اصل پہچان اور اجتماعیت کی بنیاد یہی ہے۔

میں اہل سنت کو صرف ایک فقہی یا کلامی مکتب نہیں، بلکہ امت مسلمہ کے اعتدال، توازن، اور روایتِ رسول ﷺ کی سب سے بڑی نمائندہ اکائی سمجھتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے مضمون میں بھی میں نے مجددِ وقت کے لیے اسی طرزِ فکر اور اسی دائرۂ فہم کے حامل ہونے کی نشاندہی کی ہے، تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ دین کی تجدید اور امت کی رہنمائی کا عمل ہمیشہ سوادِ امت ہی کے دائرے میں رہ کر انجام پاتا ہے، نہ کہ کسی انفرادی یا انتہاپسندانہ گروہ کے ذریعے۔

میری کوشش یہی ہے کہ ہم فرقہ واریت سے بلند ہو کر، اُس اصل اہل سنت فکر کو اپنائیں جو قرآن و سنت سے مربوط، اجماعِ امت سے منسلک، اور صحابہ و تابعین اور سلف صالحین کے فہم و منہج پر مبنی ہے۔

دوسری بات ،میں ہر اس عالم دین، محقق، مصلح، مبلغ، مدرس و مقرر اور دینی،تعلیمی اور فلاحی ادارہ، شخص و کارکن کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں جو دین، ملت اور انسانیت کی خدمت خلوص نیت سے کر رہا ہو۔ میری دسیوں تحاریر ان چیزوں کی گواہی دیں گی۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ تجدیدی آواز میری کوئی نئی کاوش نہیں۔ برسوں سے، میں مختلف نشستوں، مجالس،مکالموں ،تقاریر ،اور تحریروں کے ذریعے اہل سنت کی علمی، فکری اور تنظیمی صف بندی کی ضرورت کو بیان کرتا آیا ہوں۔ لہذا یہ کسی کے لیے نئی بات نہیں ہونی چاہیے بلکہ ہم اس کو مزید مزین و مرتب انداز میں آگے بڑھائیں تاکہ اصلاح و بہتری اور تجدید و احیاء کا سلسلہ جاری و ساری رہے۔

قرآن کریم کا ارشاد ہے:
"إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ”(الرعد: 11)

"بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں۔”

اسی آیت کی روشنی میں اب وقت آ چکا ہے کہ ہم فرداً فرداً نہیں، بلکہ مجموعی طور پر اپنی فکری و تنظیمی سمت کا تعین کریں، اور ایک عملی و فکری تجدیدی سفر کا آغاز کریں۔ ہمارے بہت سارے احباب کا تقاضہ تھا کہ کن تجدیدی کاموں کی گلگت بلتستان میں ضرورت ہے اور وہ کون سے شعبے ہیں جن میں فی الفور اصلاح اور تجدید و احیاء کی ضرورت ہے۔ ان تمام احباب کے جذبات و احساسات اور سوالات و ابہامات اور اعتراضات کو ملحوظ خاطر رکھ کر کوشش کرتا ہوں کہ چند اہم امور میں فوری طور پر تجدیدی کام شروع کیے جاسکیں، یہاں مختصراً صرف اشارات کررہا ہوں ورنا ان میں ہر امر پر تفصیل سے لکھنے اور کام کے لیے مکمل خاکہ بنانے کی گنجائش ہے۔ ایک بات یہ بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ آسمانوں سے کوئی مجدد، پرواز کرکے آئے اور ان خطوط پر ہنگامی کام شروع کرے، ایسا نہیں ہوتا، ہم میں سے موجود اصحاب علم دانش اور صاحبان فکر و نظر اور عمل نے ہی میدان میں اترنا ہوتا ہے، ٹیم بنانی ہوتی ہے اور کام کا آغاز کرنا ہوتا ہے، لازمی نہیں کہ یہ سارے کام بیک وقت شروع کیے جائیں بلکہ ان میں چند ایک یا صرف ایک سے بھی آغاز کیا جاسکتا ہے۔ ذیل میں اہل سنت گلگت بلتستان میں ،تجدید و احیاء کے لیے چند سمتیں مختصراً و اشارۃً ذکر کرتے ہیں تاکہ ابہامات و اشکالات جنم نہ لیں اور کام کرنے والے کام کا آغاز کریں۔

1. نوجوان نسل کی فکری و روحانی تیاری

یہ وقت ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو محض دینی معلومات ہی نہیں بلکہ فکری استقامت، نظریاتی آگہی، روحانی بالیدگی اور تہذیبی شعور سے بھی بہرہ مند کریں۔ مدارس، کالجز اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے نوجوان اب محض "طلبہ” نہیں رہے؛ وہ مستقبل کے معمار، رہنماء، مصلح، مبلغ، اور فکری نمائندے ہیں۔ "كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ” (بخاری)
"تم میں ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔”
اب نوجوانوں کو اسی تناظر میں دیکھنے ہوگا۔ انہیں سطحیت و جذباتیت سے نکال کر ایک درست فکری و عملی سمت پر گامزن کرنا ہوگا۔

2. دینی اداروں کی ازسر نو تنظیم

دینی مدارس و جامعات اور مکاتب محض درس و تدریس کے مراکز نہیں، بلکہ یہ تہذیب، تربیت، تحقیق اور دعوت کے قلعے ہونے چاہئیں۔ ان کے نظم، نصاب اور نظام کو زمانے کی ضروریات کے مطابق اپڈیٹ کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ وہاں اساتذہ و طلبہ کے لیے جدید خطوط پر ایسے پروگرامز اور ورکشاپس منعقد کرنے ہونگے جو ان کو قرآنیات، دینیات ،اسلامی ادبیات اور فقہی امور و مسائل میں جدید دور کی رہنمائی کرنے کا اہل بنائے اور ہنگامی بنیادوں پر ان مدارس میں دارالتصانیف(ریسرچ اکیڈمیز) کا قیام عمل میں لانا ضروری ہے تاکہ اہل سنت کی خدمات اور تجدید کاموں کے لیے لٹریچر مہیا کیا جاسکے۔

3. دعوت و تبلیغ میں حکمت و جدت

دعوت و عزیمت کا کام ہر دور میں مسلم رہا ہے۔ اب انبیاء تو آئیں گے نہیں، کیونکہ ختم نبوت کے ساتھ یہ معاملہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوا ہے۔ یہی کام اب امت کے صالح افراد نے انجام دینا ہے۔ اس کام محض نقل، نقالی اور روایت سے آگے بڑھ کر تبلیغ و دعوت میں وہ فکری ندرت، حکمت عملی، اور جدید ذرائع کا استعمال ضروری ہے جو عصر حاضر کے انسان کی ذہنی ساخت کو سمجھ کر پیغامِ حق پہنچا سکے۔ "ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ….. ” (النحل: 125)
"اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت سے دعوت دو۔”
لازمی نہیں کہ یہ کام مروجہ تبلیغی جماعت کے مقابل میں کیا جائے بلکہ اس کے ساتھ چھیڑے بغیر نئے انداز و اسلوب میں یہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔اور انہیں بھی جدید خطوط پر ٹرینڈ کرنے کی ضرورت ہے۔

4. جدید و دینی تعلیم کا امتزاج

یہ دور جدید علوم اور ٹیکنالوجی کا ہے، گلگت بلتستان میں ایسے ادارے قائم کیے جائیں جہاں طالب علم بیک وقت قرآن و سنت سے جُڑا ہو، اور جدید علم و فن سے بھی آشنا ہو۔ امت کو ایسے ذہنوں کی ضرورت ہے جو محراب و ممبر سے نکل کر عالمی فکری محاذ پر بھی دین کی نمائندگی کر سکیں۔ یہ کام قدیم و جدید علوم کے امتزاج کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ جو عالم قدیم و جدید کا حامل ہے اس کا علمی، ابلاغی ، دعوتی ،خدمتی اور اصلاحی و روحانی حلقہ بھی بہت وسیع ہے۔

5. اعلی اور بین الاقوامی تعلیمی رسائی

ہمارے نوجوان جب رسمی تعلیمی سے فارغ ہوتے ہیں تو ان کو کچھ پتہ نہیں ہوتا ہے، بالخصوص اعلی تعلیم کے حوالے سے انہیں کوئی رہنمائی نہیں ملتی ہے۔ یہ کام بہت اہم ہے کہ ہمارے ذہین اور دیندار طلبہ کو عالمی جامعات میں پہنچانے کے لیے علمی، مالی اور ادارہ جاتی معاونت دی جائے تاکہ وہ دین و ملت کا روشن چہرہ دنیا کو دکھا سکیں۔ اس کمی کی وجہ سے اعلی ترین ٹیلنٹ ضائع ہوتا جارہا ہے۔

6. ذرائع ابلاغ میں فکری نفوذ اور رجال کار کی تیاری

یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ابلاغِ عامہ کی دنیا اب میدانِ جنگ بن چکی ہے۔ ففتھ جنریشن کا دور چل رہا ہے۔ ہمیں ایسے رجال کار تیار کرنے ہوں گے جو قلم، میڈیا، صحافت اور سوشل نیٹ ورکس پر دین کے سچے نمائندے بن کر ابھریں۔ اور دین اسلام کے خلاف کاؤنٹر بیانیہ کو فروغ دے سکیں۔ جدید ذرائع ابلاغ کو مثبت انداز میں استعمال کرنا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے اس کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کام کی ضرورت ہے۔پرنٹ ،الیکٹرونک ، ویب اور سوشل میڈیا کا طوفان برپا کرنے کی ضرورت ہے۔

7. سیاسی و آئینی شعور کی بیداری

گلگت بلتستان کی سیاسی حیثیت، آئینی محرومیاں، اور بین الاقوامی اہمیت جیسے موضوعات پر ہماری نئی نسل کو آگاہ اور فعال بنانا اب دینی ضرورت بن چکی ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ دینی مدارس و جامعات اور عصری اداروں میں پڑھنے پڑھانے والے حضرات بھی ان اہم موضوعات سے مکمل نابلد ہیں، جمعۃ المبارک کا درس و وعظ دینے والے چھوٹے بڑے خطباء بھی اس موضوع کو غلطی سے ٹچ نہیں کرپارہے ہیں کیونکہ انہیں اس حوالے سے بنیادی معلومات کا بھی علم نہیں۔ یہی حال سیاسی زعماء کا بھی ہے تو ایسے میں علاقائی، ملی اور بین الاقوامی سیاست کا خاک شعور ہوگا۔ حقوق و فرائض اور ملکی و عالمی قوانین سے آگاہی کو کسی طور نظراندا نہیں کیا جاسکتا۔

8. تہذیبی یلغار کا ادراک و تدارک

یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ عالمی ادارے، غیر ملکی ثقافتیں، اور جدید معاشی قوتیں اس خطے پر ہر طرح اثرانداز ہو رہی ہیں۔ ہمیں فکری خودمختاری اور تہذیبی تحفظ کے لیے پیشگی حکمت عملی اختیار کرنی ہو گی۔ اس حوالے سے بھی بروقت بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

9. اہل سنت عوام کا اجتماعی پلیٹ فارم

گلگت بلتستان کے اہل سنت میں مسلکی، قبائلی و سیاسی تنوع موجود ہے۔ مسلکی، سیاسی، فکری، علاقائی اور لسانی اختلافات کے باوجود اہل سنت کے تمام ادارے، افراد اور تنظیمیں ایک پلیٹ فارم پر آئیں، تاکہ بطور ایک "قومی فکری وجود” اپنی بات منوا سکیں۔ کراچی سے شندور تک بکھری یہ قوم ایک مشترک پلیٹ فارم کے لیے ترس گئی ہے مگر اس بات کو سوچنے والا بھی کوئی نہیں۔

10. برادر کمیونٹیز سے اشتراکِ عمل

یہ بات بھی چودھویں چاند کی طرح واضح ہے کہ صدیوں سے گلگت بلتستان میں میں مختلف مکاتب فکر اور مذاہب کے لوگ آباد ہیں۔ کوئی ایک دوسرے کے وجود کو ختم نہیں کرسکتا، تو ضرورت اس امر کی ہے کہ گلگت بلتستان کی مقامی برادر کمیونٹیز سے علمی، سماجی اور رفاہی میدان میں اشتراک عمل کے مواقع پیدا کیے جائیں، تاکہ نفرتیں ختم ہوں، اور خیر کا پیغام مشترکہ انسانی زبان میں پہنچایا جا سکے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ گلگت بلتستان ایک ایسا علاقہ ہے جہاں مذہبی تنوع ایک حقیقت ہے، اور یہی تنوع اگر فہم، بردباری اور باہمی احترام کے ساتھ برتا جائے تو یہ علاقہ پورے پاکستان کے لیے امن، ترقی اور بین المسالک ہم آہنگی کی مثال بن سکتا ہے۔ اہل سنت کمیونٹی کو چاہیے کہ وہ اس خطے میں موجود برادر کمیونٹیز، خصوصاً اہل تشیع ، اسماعیلی اور نوربخشی مکاتبِ فکر کے ساتھ باہمی عزت، مشترکہ انسانی قدروں، اور علاقائی مفادات کے دائرے میں رہ کر تعاون کے راستے کھولے۔ دین اسلام کا مزاج بھی یہی ہے کہ نیکی، بھلائی، علم، اور فلاحِ انسانیت جیسے کاموں میں ہر خیر خواہ کے ساتھ ہاتھ ملایا جائے۔ ہمارے اسلاف و اکابر کا طریقہ بھی یہی رہا ہے۔

یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اسماعیلی کمیونٹی نے حالیہ دہائیوں میں گلگت بلتستان میں جو مثالی طبی، تعلیمی اور فلاحی ادارے قائم کیے ہیں، وہ کسی تعصب کے بغیر تعریف کے قابل ہیں۔ ان کے اسپتال، اسکول، تعلیمی وظائف، دیہی ترقیاتی پروگرام، اور کمیونٹی سینٹرز ایک مکمل سسٹم کے تحت چل رہے ہیں۔ اہل سنت کمیونٹی کے لیے یہ چیزیں نہ صرف باعثِ تقلید ہونا چاہیے بلکہ ایک سیکھنے کا موقع بھی ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ ان اداروں کے نظام، منصوبہ بندی، نظم و ضبط، اور افراد سازی کے پہلوؤں کا مشاہدہ کریں، ان سے تعاون بڑھائیں اور اپنی دینی و سماجی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہوئے اپنے رفاہی اداروں کی بنیاد رکھیں یا موجودہ اداروں کو مؤثر بنائیں۔

اس وقت گلگت بلتستان کی نوجوان نسل، بے روزگاری، تعلیمی پسماندگی، فکری ژولیدگی ، ذہنی انتشار، قلبی پراگندگی ،عملی سپرافگندگی اور جدید چیلنجز کا شکار ہے۔ یہ مسائل مسلک، زبان یا علاقہ دیکھ کر نہیں آتے، لہٰذا ان کا حل بھی اجتماعی شعور، مشترکہ کوشش، اور فکری وحدت سے ہی ممکن ہے۔ اہل سنت کے ادارے اگر چاہیں تو تعلیم، ٹیکنیکل تربیت، نوجوانوں کی فکری رہنمائی، خواتین کی کردار سازی، اور انسانی خدمت جیسے میدانوں میں برادر کمیونٹیز کے ساتھ مل کر ایک ایسا سماجی نیٹ ورک قائم کر سکتے ہیں، جو صرف اس خطے کی فلاح نہیں بلکہ ملک بھر میں مذہبی ہم آہنگی کا نمونہ بن سکتا ہے۔

ان دس کاموں کے علاوہ

ان دس باتوں کے علاوہ بھی مزید قابلِ عمل امور موجود ہیں جن میں خواتین کی پردے کے دائرے میں کردار سازی، بچوں کی سیرت و اخلاق پر ابتدائی تربیت، مساجد کے خطباء اور دیگر علمائے کرام کی جدید فکری تربیت، تھنک ٹینک کا قیام ، ریسرچ یونٹ اور تجدیدی فورمز کا قیام، اجتماعی شوریٰ اور فیصلہ سازی کا کلچر، معدنیات اور قدرتی وسائل کا تحفظ جیسے اہم امور میں بھی تجدیدی کام کی ضرورت ہے۔

اسی طرح اہل سنت الجماعت گلگت بلتستان کے علمی و فکری حلقوں کو اس وقت کئی داخلی چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں سب سے اہم چیلنج عقائد و اعمال میں غیر ضروری، غیر مستند اور غیر ثابت شدہ افکار و روایات کا دُر آنا ہے۔ کئی ایسے تصورات جو نہ قرآن سے ماخوذ ہیں، نہ مستند احادیث سے ثابت، آہستہ آہستہ عوامی ذہنوں میں راسخ ہو چکے ہیں۔ ان کے نتیجے میں دین کی اصل روح دھندلا گئی ہے اور دین کی سادگی، حکمت اور مقصدیت پر رسم پرستی، نئی نئی بدعات، ہندوانہ رسوم و خرافات اور غیر شرعی تقلید نے سایہ کر لیا ہے۔

اس صورت حال میں وقت کی بڑی دینی ضرورت یہ ہے کہ اہل سنت عوام کی صفوں میں عقائد کی تطہیر، رسومات کی اصلاح، اور غیر شرعی رواجوں کی بیخ کنی کے لیے بھرپور علمی و اصلاحی تحریک شروع کی جائے۔ اس مقصد کے لیے قرآن و سنت کی تعلیمات کو عام فہم انداز میں عوام کے سامنے پیش کرنا، باقاعدہ درسِ قرآن و حدیث کے حلقے قائم کرنا، خطبات و دروس میں اصلاحی موضوعات کا احیاء کرنا، اور مدارس و مساجد کو اصلاحِ باطن اور فکری تزکیہ کا مرکز بنانا ازحد ضروری ہو چکا ہے۔ اور ایک تگڑا شعبہ "امربالمعروف اور نہی عن المنکر” کا قیام لازم ہے۔

ایسے مواقع مفکر اسلام علامہ اقبال رحمہ اللہ یاد آرہے ہیں۔ انہوں نے کیا خوب کہا تھا:

آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اَڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

اقبال کا یہ شعر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کسی بھی قوم کی سب سے بڑی آزمائش یہ ہوتی ہے کہ وہ کب اپنے فرسودہ سانچوں سے نکل کر نئی فکری منزلوں کی طرف بڑھتی ہے۔ "آئین نو سے ڈرنا” یعنی تبدیلی سے خوف کھانا، اور "طرز کہن پہ اڑنا” یعنی پرانی روایت کو بلا تمیز و تحقیق تھامے رکھنا، دراصل جمود کا وہ زہر ہے جو کسی بھی ملت کی فکری موت کا سبب بن سکتا ہے۔ تجدید کا تقاضا یہ نہیں کہ بنیادیں بدلی جائیں، بلکہ یہ ہے کہ بنیادوں کو باقی رکھتے ہوئے عمارت کو وقت کے مطابق ازسرِ نو تعمیر کیا جائے۔ امت مسلمہ، بالخصوص اہل سنت والجماعت، اگر آج بھی فکری جمود کا شکار رہی، تو نہ منزل ملے گی نہ کارواں بچے گا۔ یہی وقت ہے کہ ہم آئینِ نو کا سامنا جرأت، حکمت اور یقین کے ساتھ کریں۔

تجدید کا مطلب ہے کہ جڑوں سے جُڑے رہتے ہوئے شاخوں کو تازہ رکھنا۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنی اصل کی طرف رجوع کریں۔ گروہ بندی، فرقہ واریت، سطحی جذبات، شخصی رعب اور ذاتی نرگسیت کے خول سے نکل کر امت کے مجموعی مفاد کو دیکھیں۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"يَبعَثُ اللَّهُ على رأسِ كلِّ مائةِ سنةٍ مَن يُجدِّدُ لَها دينَها” (ابو داؤد)
"اللہ ہر صدی کے آغاز پر ایسے افراد بھیجتا ہے جو دین کی تجدید کرتے ہیں۔”

تو آئیے! ہم اس تجدیدی قافلے کا حصہ بنیں۔ ہم وہ لوگ بنیں جن کے بارے میں کل آنے والی نسل کہے:
"یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دین کو ماضی کا نوحہ نہیں، حال کا سرمایہ اور مستقبل کی امید بنا دیا۔”

آخر میں یہ بات نہایت بصیرت کے ساتھ ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ کوئی بھی دینی یا فکری کمیونٹی صرف ماضی کے فخر یا جذباتی نعروں سے زندہ نہیں رہتی، بلکہ تجدید، تنظیم، تعلیم، تحقیق، دعوت، رفاہ، اور تہذیبی خودشناسی جیسے دائمی اصولوں پر استوار ہو کر ہی زندہ و تابندہ رہتی ہے۔ جو قومیں اپنے نوجوانوں کی فکری تربیت، تعلیمی قیادت، علمی مراکز، میڈیا میں نمائندگی، جدید ادارہ سازی، اور باہمی تعاون کی بنیاد پر آگے بڑھتی ہیں، وہی تاریخ میں اپنا مقام برقرار رکھتی ہیں۔ اہل سنت والجماعت کو اگر اس خطے میں فکری وقار، سماجی اثر، دینی قیادت اور تعلیمی بالا دستی درکار ہے، تو انہیں فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر، اخلاص، حکمت، اور تنظیمی بصیرت کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔

یہی وقت ہے کہ اہل سنت کے تمام مخلص علماء کرام، اسکالرز، اشخاص و افراد، ادارے اور طبقات مل بیٹھ کر ایک جامع تجدیدی ایجنڈے پر عمل کا آغاز کریں، تاکہ ہم اپنے لیے نہیں، آنے والی نسلوں کے لیے ایک متوازن، مہذب اور بامقصد دینی و فکری ورثہ چھوڑ سکیں۔
اب یہ سب کچھ پڑھنے، سمجھنے اور تسلیم کرنے کے بعد انصاف سے بتلائیں کہ ایک مجدد کی ضرورت ہے یا نہیں؟
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button