کالمز

گلگت بلتستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں

گلگت بلتستان کی وادیوں میں پھیلا ہوا سکون، گنگناتے چشمے، لہلہاتے درخت اور برف پوش پہاڑ… یہ سب حسنِ فطرت کی وہ جھلکیاں تھیں جو دل کو مسحور کر دیتی تھیں۔ مگر افسوس! آج انہی وادیوں میں آہ و بکا کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ ہر سو ویرانی کا عالم ہے، سیلاب نے بستیاں بہا دیں، کھیت اجاڑ دیے، خواب کچل ڈالے۔ دل ہے کہ اس منظر پر خون کے آنسو روتا ہے۔ کئی بار چاہا کہ قلم اٹھاؤں اور ان تباہ کاریوں پر لکھوں، مگر کیا لکھوں؟ جب تک تحریر شروع کرتا، کہیں اور بادل پھٹ پڑتے، کہیں اور وادی آہیں بھرنے لگتی۔ اور ہر طرف سے تباہی و بربادی پر مبنی خبریں آرہی ہوتیں۔ کونسا گاؤں ہے جس کو سیلاعنے متاثر نہیں کیا؟

کلاؤڈ برسٹ، بادل کا اچانک پھٹ جان، (جس کو مقامی شینا زبان میں تندر کہا جاتا ہے) نے گلگت بلتستان کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ لوگ بے گھر ہیں، دربدر ہیں، اور ان کی آنکھوں میں وہ کرب چھلک رہا ہے جسے الفاظ میں سمونا مشکل ہے۔

میری دانست کے مطابق اس المیے کے پیچھے دو جہتیں ہیں، ایک تکوینی اور ایک انسانی۔ تکوینی اس لیے کہ زمین پر ظلم و فساد، عدل و انصاف کی پامال، ناشکری اور گناہوں کی کثرت کے نتیجے میں رب العالمین کبھی زمین کو لرزا دیتا ہے، کبھی بادلوں کو قہر بنا دیتا ہے۔ کبھی بارش رحمت کے بجائے زحمت بلکہ عذاب بنا شروع ہوجاتی ہے۔ اور طرح طرح کی آزمائشیں اور مصیبتیں ہمارا پیچھے کرتیں ہیں اور ہم مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔
اس بارے اللہ رب العزت کا ارشاد ہے

"ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِ النَّاسِ…”(الروم:41)
ترجمہ: خشکی اور تری میں فساد ظاہر ہوگیا، لوگوں کے اپنے اعمال کی وجہ سے۔

اور دوسری جہت ہماری اپنی ہے۔ برسوں سے اہل دانش کہتے آئے کہ موسمیاتی تبدیلیاں انسانیت کے لیے خطرہ ہیں، مگر ہم نے کبھی کان نہ دھرے۔ دنیا بھر سے اس تباہی سے بچاؤ کے لیے فنڈز آئے، لیکن شفافیت اور دیانت کے بجائے وہی پرانی کہانی، کرپشن کی نذر ہوگئے۔ درختوں کے بے دریغ کٹاؤ نے زمین کی سانسیں چھین لیں۔ جنگلات اجڑ گئے تو بارش نے بھی اپنا رخ بدلا۔

حکومتی بدانتظامی، کمزور ڈھانچہ، اور ہماری اجتماعی کوتاہیاں… پھر دریا اور ندی نالوں کے راستوں پر بستیاں بسانا، گویا خود موت کو دعوت دینا۔ پانی کے بہاؤ کو روکنا ایسے ہی ہے جیسے کسی طوفان کے آگے دیوار کھڑی کر دینا۔ انجام ظاہر ہے، طوفان دیوار کو روند ڈالے گا۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
"جب لوگ ناپ تول میں کمی کریں گے تو قحط نازل ہوگا، جب زکوٰۃ روک لیں گے تو بارش روک دی جائے گی۔”(ابن ماجہ)

گویا بارش کی برکت یا تباہی ہماری نیتوں اور اعمال سے جڑی ہے۔

فطرت کہتی ہے کہ درخت لگاؤ تاکہ زمین زندہ رہے، پانی کا راستہ چھوڑو تاکہ بستیاں سلامت رہیں۔ مگر ہم نے فطرت کے قانون سے بغاوت کی۔ سائنس بھی یہی کہتی ہے کہ گلوبل وارمنگ گلیشیئرز کو نگل رہی ہے، جنگلات کی کٹائی بارشوں کو بے قابو کر رہی ہے، اور دریاؤں پر قبضے سیلاب کو جنم دے رہے ہیں۔

پانی زندگی ہے، مگر جب ہم نے اس کے راستے مسدود کیے تو وہ زندگی موت کا پیغام بن گئی۔

تعلیمات اسلام اور سائنس و فطرت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ تباہی محض حادثہ نہیں، یہ پیغام ہے۔ پیغام اس ذات کی طرف سے جو زمین و آسمان کا مالک ہے۔ وہ ہمیں متوجہ کر رہا ہے کہ پلٹ آؤ، ظلم چھوڑ دو، انصاف قائم کرو، درخت لگاؤ، پانی کا احترام کرو۔ قرآن کہتا ہے:
"وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ”
(الاعراف: 96(

اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم آسمان و زمین کی برکتیں ان پر کھول دیتے۔

گلگت بلتستان کے پہاڑ آج ہمارے لیے گواہی بنے کھڑے ہیں کہ انسان جب فطرت کے اصول توڑتا ہے تو پہاڑ بھی لرز جاتے ہیں اور بادل بھی پھٹ پڑتے ہیں۔ اگر ہم نے توبہ نہ کی، زمین کو نہ سنبھالا، درخت نہ لگائے، ظلم و ستم اور مس منیجمنٹ سے گریز نہ کیا اور سائنس کی آواز کو نہ سنااور انصاف قائم نہ کیا تو یہ وادیاں پھر اجڑیں گی۔ لیکن اگر ہم نے اصلاح کا راستہ اپنایا تو یہی بارشیں ہمارے کھیتوں کو سرسبز کریں گی، یہی پہاڑ ہماری حفاظت کریں گے، یہی ندیاں رحمت کی موسیقی سنائیں گی۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button