کالمز

گلگت بلتستان کی فرقہ وارانہ سوچ میں تبدیلی ممکن ہے

گلگت بلتستان، جو اپنی نسلی و مذہبی تنوع اور جغرافیائی اہمیت کے باعث ہمیشہ نمایاں رہا ہے، طویل عرصے سے فرقہ وارانہ کشیدگی کا شکار رہا ہے۔ ماضی میں بارہا ایسے خونریز واقعات پیش آئے جنہوں نے سینکڑوں قیمتی جانیں لے لیں، ہزاروں افراد کو زخمی کیا، اور گھروں، بازاروں اور سماجی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچایا۔ ان پرتشدد لہرون نے معاشرتی ہم آہنگی کو بری طرح متاثر کیا اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر محلوں، اسکولوں، اسپتالوں اور ٹرانسپورٹ کے نظام میں غیر رسمی تقسیم کو جنم دیا۔ اگرچہ گزشتہ چند برسوں میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی ہے، لیکن ماضی کے زخم اب بھی معاشرتی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر نمایاں ہیں۔ عوام آج بھی اس خدشے میں زندگی گزار رہے ہیں کہ کہیں کوئی واقعہ دوبارہ فرقہ وارانہ تشدد کو نہ بھڑکا دے، خصوصاً جب مذہبی رہنماؤں یا اداروں کو نشانہ بنایا جائے۔

گزشتہ ہفتے، 5 اکتوبر 2025 کو گلگت کے سنٹرل پولیس آفس کے قریب ایک دہشت گرد حملے میں مولانا قاضی نثار، امیر اہلِ سنت والجماعت گلگت بلتستان، اور چار دیگر افراد زخمی ہوئے۔ اسی دن چیف کورٹ گلگت بلتستان کے جج، جناب عنایت الرحمان پر بھی حملہ ہوا، تاہم وہ محفوظ رہے۔ مولانا نثار پر حملے نے فوری طور پر عوام میں فرقہ وارانہ ردعمل کے خدشات پیدا کیے کیونکہ ماضی میں ایسے ہی واقعات نے گلگت بلتستان کو خونی تصادموں میں دھکیل دیا تھا۔ مگر اس بار ایک نمایاں اور امید افزا تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ مولانا قاضی نثار نے عوام سے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے اور کسی بھی قسم کے انتقامی اقدام سے گریز کی اپیل کی۔ ان کے اس امن بیانیے نے ممکنہ فرقہ وارانہ تصادم کو روکنے میں کلیدی کردار ادا کیا اور ماضی کے مقابلے میں ایک مثبت اور باشعور رویے کی مثال قائم کی۔

اگرچہ عوام کی بڑی تعداد نے اس اپیل پر عمل کیا، لیکن گلگت اور اس کے نواحی علاقوں میں فضا تاحال تناؤ کا شکار ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ حملے کسی بڑی سازش کا حصہ ہو سکتے ہیں جن کا مقصد خطے کے امن کو کمزور کرنا اور بین المذاہب ہم آہنگی کے حالیہ رجحان کو نقصان پہنچانا ہے۔ یہ شبہ اس وقت مزید تقویت پاتا ہے جب دیکھا جائے کہ یہ واقعات ایسے وقت میں ہوئے جب مختلف مسالک اور طبقات کے لوگ مشترکہ مسائل پر متحد ہونا شروع ہو گئے تھے، جیسے دیامر ڈیم متاثرین کا احتجاج اور سوست (پاک چین بارڈر) پر تاجروں کا دھرنا۔ یہ واقعات اس بات کی علامت تھے کہ عوام اب فرقہ وارانہ اختلافات سے بالاتر ہو کر اپنے اجتماعی مفادات کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں، ایک ایسا رجحان جو شدت پسند اور انتشار پسند عناصر کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

حالیہ حملے کے بعد تین دن تک گلگت کے بازار، سڑکیں، اسکول، دفاتر اور دیگر عوامی مقامات بند رہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں ماضی کے تشدد کی بھیانک یادیں تازہ ہو گئیں۔ بہت سے شہری اب بھی اس دور کے اثرات کے ساتھ جی رہے ہیں جب معاشرہ جغرافیائی اور سماجی طور پر منقسم ہو گیا تھا۔ آج بھی صحت، تعلیم، اور ٹرانسپورٹ جیسے کئی عوامی شعبے غیر رسمی طور پر فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم ہیں، جو اس خطے میں فرقہ وارانہ تنازعات کے طویل المیعاد اثرات کی یاد دلاتے ہیں۔ عوامی خوف میں اضافہ اس وجہ سے بھی ہوا کہ ریاست کی جانب سے ردعمل سست رہا اور حملہ آور تاحال گرفتار نہیں ہو سکے۔ انصاف میں تاخیر نے عوامی مایوسی اور بداعتمادی کو بڑھایا، جبکہ لوگوں کا عام تاثر ہے کہ ایسے حالات میں مجرموں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور فرقہ وارانہ عناصر کو دوبارہ متحرک ہونے کا موقع ملتا ہے۔

یہ صورتحال کئی بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے سنگین سوالات اٹھاتی ہے۔ شہریوں کے حقِ زندگی اور تحفظ کو یقینی بنانا ریاست کی بنیادی آئینی و بین الاقوامی ذمہ داری ہے۔ مذہبی آزادی، برابری، اور عدم امتیاز جیسے حقوق براہ راست متاثر ہوتے ہیں جب کوئی طبقہ خوف اور جبر کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو۔ بار بار کے تشدد اور عدم تحفظ نے معاشرتی ذہنی صحت پر بھی گہرے اثرات چھوڑے ہیں، خاص طور پر بچوں اور خواتین پر۔

اس پس منظر میں مولانا قاضی نثار کا امن بیانیہ گلگت بلتستان کی فرقہ وارانہ تاریخ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کا عدم تشدد کا پیغام تمام مسالک اور طبقات میں سراہا گیا۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ حملے کے بعد مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ ہسپتال جا کر مولانا نثار سے ملے، ان کی خیریت دریافت کی اور ان کے امن کے پیغام کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ یہ واقعہ گلگت بلتستان کی تاریخ میں پہلی بار حقیقی معنوں میں بین المسالک ہم آہنگی کی مثال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس نے ثابت کیا کہ عوام کے دلوں میں فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر پائیدار امن اور باہمی احترام کی خواہش شدت سے موجود ہے۔

تاہم، پائیدار امن صرف عوامی صبر و تحمل سے ممکن نہیں۔ اس کے لیے ریاستی اداروں کو اپنی ذمہ داری پوری کرنا ہو گی۔ حکومتِ گلگت بلتستان اور وفاقی اداروں پر لازم ہے کہ وہ حملوں کی شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کریں، مجرموں کو گرفتار کریں اور ان کے پشت پناہوں کو قانون کے کٹہرے میں لائیں۔ فرقہ وارانہ تشدد کی نگرانی کے لیے ایک مستقل ادارہ قائم کیا جانا چاہیے، جو ایسے واقعات کی بروقت روک تھام اور متاثرین کی مدد کے لیے موثر اقدامات کرے۔ ساتھ ہی تعلیمی نصاب میں امن، برداشت، اور شہری ہم آہنگی کے اسباق شامل کیے جائیں تاکہ نئی نسل ایک بہتر اور پرامن سماجی رویہ اپنا سکے۔

دوسری جانب مذہبی رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ اپنے خطبات اور اجتماعات میں امن اور بھائی چارے کے پیغامات کو مزید مضبوط کریں اور نوجوانوں کے درمیان بین المسالک مکالمے کے پلیٹ فارم قائم کریں۔ سول سوسائٹی اور میڈیا پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ امن اور اتحاد کی پرچار کریں اور نفرتوں کی حوصلہ شکنی میں اپنا کردار ادا کریں۔ 

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button