کالمز

ننگا بادشاہ اور بے خوف بچہ

تحریر: شیرنادر شاہی

بادشاہ ننگا تھا لیکن اس کے ارد گرد بیٹھے حواری، وزراءاور مشیران بادشاہ کے رعب و دبدے اور غیض و غضب کی وجہ سے اس بات کا اظہار نہیں کرتے تھے کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ اگر بادشاہ کو یہ بتایا جائے کہ وہ ننگا ہے تو وہ اس کے غصے سے نہیں بچیں گے اس لئے انہوں اپنی آنکھیں بند رکھے۔
بالآخر ایک دن ایسا آیا کہ ایک بچے نے سر دربار بادشاہ کو دیکھا اور کھلم کھلا کہا کہ عالی جاہ! آپ بالکل ننگے ہیں، آپ کے جسم پر کپڑے نہیں ہے۔ بچے کی یہ جرات گفتار وقت کے بادشاہ اور اس کے وزراء و رعایا کے سامنے بدتمیزی اور بغاوت کے زمرے میں تو آیا اور اس کی سزا بھی بچے کو ملی لیکن اس سے ان ہی وزراء اور رعایا کو اندر سے یہ احساس بھی ہوا کہ بچہ تو بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے کیونکہ بادشاہ حقیقت میں ننگا ہے۔
گلگت بلتستان کے حکمران اشرافیہ اور ان کے مقامی سہولت کاروں کی مثال بھی بالکل اس بادشاہ کی طرح ہے جو عوام کے سامنے ننگے ہوچکے ہیں ، ان کو یہ معلوم بھی ہے کہ وہ عوام کے سامنے ننگے ہیں، یہ نظام ننگا ہے،اس نظام کو پروان چڑھانے والے ننگے ہیں لیکن ان کے اس ننگاپن کے بارے میں بات کرنے والے صرف چند سرپھیرے ہیں جو کھل کر یہ کہتے ہیں کہ یہ عوام کے اوپر مسلط کردہ ٹولہ، ان کے سہولت کار اور ان کو پروان چڑھانے والا نظام مکمل طور پر ننگا ہے اور وہ اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں لیکن ان کو بدلے میں غدار اور ایجنٹ جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے، ان کے اظہار رائے پر قدغن لگایا جاتا ہے اور شیڈول فور اور انسداد دہشتگردی ایکٹ جیسے کالے قوانین کے ذریعے ان کا گلا گھونٹا جاتا ہے لیکن اس طرح جبرکے سائے میں سچائی اور آواز حق کو دبانے سے اس نظام، اشرافیہ، سہولتکار ٹولے کا ننگاپن عوام کے سامنے چھپایا نہیں جاسکے گا بلکہ ایسے بچےضرور پیدا ہونگے جو کھل کر بادشاہوں کو کہیں گے کہ وہ ننگے ہیں ، ان کا جابرانہ و ظالمانہ نظام ننگاہو
چکا ہے، وہ برملا اظہار کرینگے کہ ہسپتالوں میں پیراسٹامول دستیاب نہیں ہیں اور آپ اپنے تنخواہوں میں پانچ سے چھ سو فیصد اضافہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں، وہ اس بات کا ضرور اظہار کرینگے کہ ہزاروں بچے فیسیں ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے سکولوں سے باہر ہیں اور آپ اپنے بچوں کے لئے بیرون ممالک جزیرے اور ڈی ایچ اے میں بنگلے بنا رہے ہیں، وہ یہ بھی ضرور پوچھیں گے کہ ان کے غریب اجداد کی خون کی کمائی سے آپ پورپ جیسے مہنگے ترین ممالک کے بڑے ریستورانوں میں اپنی بچیوں کے ہاتھوں کو مہندی لگا رہے ہیں، وہ آپ کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر ضرور سوال کرینگے کہ ان کی زندگی خط غربت سے نیچے بسر ہورہی ہے اور آپ 32سو سی سی کی بلٹ پروف گاڑیوں میں کس خوشی میں سفر کررہے ہیں؟ وہ اس کا بھی بدلہ ضرور لیں گے کہ اس کرہ ارض کو تمہاری غیر سنجیدگی اور ماحول دشمنی نے اس نہج تک پہنچایا کہ اب زمین موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ان غریبوں کے لئے سیلاب کی شکل میں زہر اگل رہی ہے۔
نظام کے اس ننگا پن اور اس نظام پر حاوی ننگے حکمران اور ان کی سہولت کاری کرنے والے ننگے سہولتکاروں کی ننگا پن نئی نسلوں کے سامنے عیاں ہوچکی ہے اور اس ننگاپن کا ذکر نوجوان نجی محفلوں میں سر عام کررہے ہیں، نوجوانوں کو یہ معلوم ہوچکا ہے کہ ان کے زمینوں پر قبضوں میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے، ان کے قدرتی وسائل جیسے معدنیات عالمی سطح کے بدمعاشوں کے ہاتھوں بک چکے ہیں ،ان کی مستقبل کا سودا ہوچکا ہے، نوجوان یہ سمجھ چکے ہیں کہ اس نظام سے ان کے لئے کوئی خیر کی توقع نہیں ہے، اس نظام میں ان کو کوئی باعزت روزگار کا موقع نہیں مل سکتا بلکہ جب تک یہ نظام موجود ہیں یہاں سے عرب ممالک کے لئے لیبر کے علاؤہ کچھ پیدا نہیں ہونے والا، اس نظام میں یہاں کے غریبوں کو علاج کے مواقع ، تعلیم کے مواقع، ان کے وسائل پر ان کے اختیار کے مواقعے کبھی میسر نہیں آنے بلکہ اس نظام کے اندر تو ان کا خون مزید چوسا جائے گا۔ نوجوان اس نظام سے تنگ آچکے ہیں اب تو نوجوان کیا ان سہولتکاروں کو بھی اس بات کا اندازہ ہوچکا ہے کہ یہ نظام اور اس پر مسلط کردہ گروہ بھی ننگا ہے لیکن اظہار کی کمی ہے اس کے برملا اظہار کے لئے ایک بچے کی ضرورت ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button