کالمز

سید شاہ ابوالحسن سے سید عبدالغفور شاہ تک  غیرت، علم اور عوامی شعور کی روایت

سید شاہ ابوالحسن چرون، ریاستِ چترال کے اُن نامور سپوتوں میں سے تھے جنہوں نے علم، بصیرت اور قیادت کے میدانوں میں اپنی ایک منفرد پہچان قائم کی۔ ریاستی نظام میں اُن کا کردار نہایت مؤثر، باوقار اور فیصلہ کن رہا۔ انہوں نے جنگِ بریکوٹ میں نہ صرف بہادری سے حصہ لیا بلکہ عزت و وقار کے ساتھ سرحدوں کے دفاع کا شرف بھی حاصل کیا۔ وہ شاہی باڈی کے رکن رہے، مگر اُن کی فطرت میں بغاوتِ حق گوئی اور غیرتِ ملی کی ایسی چنگاری تھی کہ اقتدار کے ایوانوں میں رہتے ہوئے بھی وہ ہمیشہ حق کے ساتھ اور باطل کے خلاف کھڑے نظر آئے۔ انہی کے گھرانے سے تعلق رکھنے والے اُن کے صاحبزادے سید عبدالغفور شاہ نے بھی والد کی دانش اور عزم کا ورثہ سنبھالا۔

ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے حاصل کی، مگر اُن کے ذہن و فکر پر والد کی انقلابی سوچ کا گہرا اثر رہا۔ ثانوی تعلیم تک پہنچتے پہنچتے یہ اثر شعور میں ڈھل گیا۔ روزگار کے لیے مختلف اداروں میں خدمات انجام دیں، مگر فطرت نے ان کے لیے کوئی اور راہ مقرر کر رکھی تھی  وہ کسی معمولی ملازمت کے لیے نہیں، بلکہ ایک بڑے مقصد کے لیے پیدا ہوئے تھے۔  1947  میں جن آزادی کی لہرچترال تک پہنچی، تب بھی بیشتر آبادی ریاستی مراعات یافتہ خاندانوں کے زیرِ اثر تھی۔ عام آدمی کے لیے اقتدار کے دروازے بند تھے، غریب عوام محرومی اور محکومی کے اندھیروں میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ اسی دور میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے عوامی شعور کی بیداری کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی، مساوات، خودداری اور سماجی انقلاب کا نعرہ بلند کیا روٹی، کپڑا اور مکان کی انقلابی لہر نے پورے چترال کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، ہر دل میں نئی امید اور جدوجہد کی روح جاگ اٹھی  تو چترال میں چند ہی باہمت آوازیں تھیں جو اس نعرے کی گونج بنیں۔ انہی میں سب سے نمایاں نام تھا سید عبدالغفور شاہ کا، جنہوں نے نہ صرف بھٹو کے نظریے کو لبیک کہا بلکہ اپنی سرزمین پر عوامی شعور اور سیاسی بیداری کے علمبردار بن گئے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ایک نئی سوچ نے جنم لیا  محکومی کے سناٹے میں بیداری کی صدا، اور سید غفور شاہ اُس صدا کے سب سے پہلے ترجمان بنے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی کارکن کی حیثیت سے سید غفور شاہ نے نہایت مختصر عرصے میں اپنی انقلابی جدوجہد اور انتھک کوششوں سے پارٹی کے نظریے اور ذوالفقار علی بھٹو کے فلسفۂ مساوات کو چترال کے ذرے ذرے تک پہنچا دیا۔ انہوں نے چترال میں پیپلز پارٹی کو اس استحصالی طبقے کے خلاف ایک عظیم چٹان بنا دیا، جس کے سائے تلے محروم و مظلوم طبقے کو پہلی بار اپنی آواز ملی۔

پارٹی کو منظم کرنے میں اُن کا کردار آج تاریخ کے سنہری اوراق میں رقم ہے۔ سیاسی مخالفین نے سازشوں، رکاوٹوں اور دباؤ کے ذریعے اس عوامی تحریک کو کمزور کرنے کی کوشش کی، مگر سید عبدالغفور شاہ نے ہر موقع پر حوصلے، تدبر اور یقین کے ساتھ ان تمام چیلنجز کا مقابلہ کیا۔ وہ ہمیشہ کارکنان کو صبر، وفاداری اور نظریاتی استقامت کی تلقین کرتے رہے اور بھٹو کے مشن کو گھر گھر تک پہنچا کر اپنے عہد سے وفا کا ثبوت دیا۔ ان کی سیاسی زندگی اصول پسندی اور وفاداری کا پیکر تھی  کبھی مفاد پرستی کو جگہ نہ دی، کبھی نظریے سے انحراف نہ کیا۔ اسی استقامت کا صلہ تھا کہ 1977میں اسے پہلی  مرتبہ صوبائی اسمبلی کے نشت کے لئے ٹکٹ دے دی ۔

1977کا سال چترال کی سیاسی تاریخ میں ایک یادگار باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب عوام نے روٹی، کپڑا اور مکانکے نعرے کے زیرِ اثر ایک نئی امید، ایک نئے خواب اور ایک نئی سمت کا انتخاب کیا۔اس تاریخی انتخاب میں کئی امیدوار میدانِ سیاست میں اُترے، پاکستان پیپلز پارٹی کے پرچم تلے انتخاب لڑنے والے سید عبدالغفور شاہ نے اپنی سیاسی بصیرت، عوامی خدمت اور نظریاتی وابستگی کے ذریعے چترال کے گلی کوچوں میں بھٹو کا پیغام عام کیا۔ ان کے مقابلے میں شہزادہ محی الدین بطور آزاد امیدوار سامنے  آئے  سید عبدالغفور شا ہ نے 7472  ووٹ حاصل کئے اس کے مدمقابل شہزادہ محی الدین آزاد اُمیدوار کے طور پر 3038 ووٹ حاحل کئے دیگر امیدواروں میں طائی محمد خان (2,295 ووٹ)، صاحب نادر خان (694 ووٹ)، محمد جہانگیر خان (612 ووٹ)، سعیدالرحمٰن (550 ووٹ)، محمد مراد خان (192 ووٹ)، اور قاضی محمد انور خان شامل تھے۔ مگر عوام کا فیصلہ دوٹوک تھا  چترال کی زمین نے پاکستان پیپلز پارٹی کے نظریے کے حق میں گواہی دی۔

یہ کامیابی محض ایک انتخابی جیت نہیں تھی، بلکہ یہ عوامی شعور، نظریاتی بیداری اور سماجی تبدیلی کی علامت تھی۔ سید عبدالغفور شاہ نے نہ صرف چترال میں بھٹو کے فلسفے کو جڑوں تک پہنچایا بلکہ ایک نئی سیاسی سوچ کو جنم دیا ایک ایسی سوچ جو آج بھی چترال کی فضا میں گونجتی ہے۔بعد ازاں جنرل ضیاءالحق کے طویل مارشل لا کے تاریک دور میں، جب پارٹی پر پابندیاں لگیں، کارکنوں کو خوف، لالچ اور دباؤ کے شکنجے میں کسا گیا  تب بھی سید غفور شاہ نظریے کی مشعل لیے ثابت قدم رہے۔ انہوں نے بطور جنرل سیکریٹری پاکستان پیپلز پارٹی (چترال)، کارکنوں سے رابطہ قائم رکھا، حوصلے بلند کیے اور پارٹی کی تنظیم نو میں بنیادی کردار ادا کیا۔

1988کے عام انتخابات میں بیگم نصرت بھٹو نے چترال سے قومی اسمبلی کی نشست جیتی، تو ضمنی انتخاب میں پارٹی نے سید غفور شاہ پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں امیدوار نامزد کیا۔ ان کے مدمقابل شہزادہ محی الدین جیسے بااثر حریف تھے، مگر عوامی محبت اور نظریاتی قوت کے سہارے سید غفور شاہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔

اس کامیابی کے بعد وہ پیپلز ورک پروگرام کے ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوئے۔ ان کی خدمات کا دائرہ صرف سیاست تک محدود نہ تھا انہوں نے پسماندہ دیہات کی ترقی، غریب عوام کی فلاح، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور زرعی خوشحالی کے بے شمار منصوبے مکمل کیے۔
ان کی کاوشوں سے زرعی ترقیاتی بینک بونی کا قیام عمل میں آیا، چترال روڈ کی تعمیر ہوئی، ریشن بجلی گھر جیسے عوامی منصوبے حقیقت بنے، اور ترقی کی وہ راہیں کھلیں جن سے عام انسان کو پہلی بار روشنی نصیب ہوئی۔

اگر چترال کے سیاسی نمائندوں کی زندگیوں پر روشنی ڈالی جائے تو سید عبدالغفور شاہ ایک منفرد اور درخشاں مثال کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی اخلاق، سچائی، اور دیانت کے اعلیٰ اصولوں پر گزاری۔ نہ معاشی مفادات کے پیچھے بھاگے، نہ مالی لالچ میں پڑے۔ زندگی کے آخری ایام تک نہ کسی بینک میں رقم جمع کی، نہ جائیدادیں بنائیں۔ جتنا وقت گزارا، عوامی سوچ کے ساتھ گزارا خلوص، خوداری اور خدمت کے جذبے کے ساتھ۔ انہوں نے خودداری کو اپنا شعار بنایا، سر اُٹھا کر جیا اور رخصت ہوتے ہوئے بھی قوم کو عزت، وقار اور اصول پسندی کا درس دے گئے۔ان کے فرزند سید آصف وقار وکالت کے شعبے سے وابستہ ہیں، جبکہ چھوٹے بیٹے سید جواد حسین شاہ سماجی خدمات سے منسلک اور سرکاری ٹھیکیدار ہیں، تاہم وہ پارٹی کے معاملات میں کم ہی نظر آتے ہیں۔

آپ کی رائے

comments

نور الہدی یفتالی

نورالہدی یفتالی بالائی چترال کے علاقے مستوج سے تعلق رکھنے والے لکھاری ہیں

متعلقہ

Back to top button