کالمز

طالبان کی دھمکی کے بعد قیادت کی مجرمانہ خاموشی

چند رو ز قبل قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں طالبان کی طرف سے چترال میں سینکڑوں برسوں سے مقیم منفرد تہذیب کی حامل کلاش برادری اور اسماعیلیوں کو دئیے گئے دھمکی کی خبریں نشر ہوئی رپورٹ میں لکھا گیا تھا کہ طالبان اپنی ویب سائٹ پر پچاس منٹ کی ایک ویڈیو نشر کی ہے جس میں اقلیتی کلاش برادری کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ جلد از جلد دائرہ اسلام میں داخل ہو جائے یا پھر جہنم رسید ہونے کے لئے تیار ہو جائے اسی طرح آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے حوالے سے بیان میں کہا گیا تھا کہ وہ اسرائیل طرز کا ریاست چترال میں قائم کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں ۔ساتھ ہی اسماعیلیوں اور کلاش برادری کے خلاف جہاد کے لئے مقامی لوگوں سے مدد کی بھی اپیل کی گئی تھی اس دھمکی کی رپورٹ قومی و بین الاقوامی تقریباََ سارے میڈیا گروپوں نے نشر کی وائس آ ف امریکہ ریڈیو نے اس پر باقاعدہ تیس منٹ کا پروگرام بھی کیا یہ کوئی چھوٹی موٹی دھمکی نہیں تھی جس کو یوں ہی نظر اندازکیا جا سکے رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد علاقے میں خوف و ہراس کا عالم ہے ہر طرف چمیگوئیاں ہو رہی ہے اور اہلِ علاقہ ڈر کے ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں ۔

unnamedتاریخ کا مطالعہ بتا رہا ہے کہ بحرانی حالات میں قوم کی حوصلہ افزائی میں قیادت کا کردار مسلمہ ہے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ آج تک پاکستان کو کوئی ایسی قیادت نہیں ملی جن کا جینا مرنا اپنی قوم کے ساتھ ہو کیونکہ جنکو ہم لیڈر کہتے ہیں وہ سکیورٹی خصار میں بڑے بڑے محلات میں مقیم ہے وہ اپنی جانوں کو بچانے میں ناکام ہے عوام سے ان کا کیا لینا دینا انہی حکمرانوں کے متعلق اردو کے مشہور شاعروصی شاہ نے کیا خوب کہا تھا کہ

بڑے لوگوں کے اونچے ،بدنما اورسرد محلوں کو
غریب آنکھوں سے تکتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں 

خاص کر موجودہ قیادت(ضلعی،صوبائی اور قومی)کے پاس عوام کو تسلی دینے کے لئے ہمدردی کے دو الفاظ بھی نہیں ہے تاکہ ا س خوف کے عالم میں عوام کو تھوڑا حوصلہ ملے ماسوائے پاکستان پیپلز پارٹی کے کسی بھی سیاسی جماعت نے دوٹوک انداز سے اس دھمکی کا جواب دینے کی زخمت گوارا نہیں ہاں البتہ عمران خان کا بیان بھی کسی حد تک عوام کی اعتماد بڑھا سکتی ہے ۔یہی نہیں مرکزی وصوبائی حکومت ہو یا سیاسی و مذہبی جماعتیں کسی نے بھی اس صورتحال میں عوامِ چترال کی حمایت میں بیان دینے کا گناہ نہیں کیا۔ تاکہ کلاشنکوف اور خون ریزی سے ناواقف شدید ذہنی و جسمانی دباؤ کاشکار متاثرین کے ساتھ اظہارِ ہمدردی ہو سکے جو کہ اس مخدوش صورتحال میں انتہائی مجرمانہ غفلت کے علاوہ اور کچھ نہیں اتنی سنگین صورتحال کے بعد بھی اگر علاقے کے لوگ حکمرانوں سے کوئی امید رکھتے ہیں تو پھر اس سادگی پہ ہنسنے کے علاوہ کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔اس سے بڑھ کر یہ کہ چترال کے سیاسی ومذہبی قیادت کی خاموشی بھی سمجھ سے باہر ہے رحمان ملک جب بیان دیا تھا کہ کراچی میں جاری دہشتگردی میں گلگت بلتستان اور چترال سے تعلق رکھنے والے کچھ عناصر بھی ملوث ہے تو اس پر پریس کانفرنسز،اخباری بیانات اور احتجاجی مظاہروں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروغ ہوا کھوار قاعدہ میں معمولی غلطی پر اتنا شور مچایا گیاکہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دی ،لیکن افسوس یہ کہ طالبان کی جانب سے دی گئی کھلم کھلادھمکی میں کوئی لب کشائی کے لئے تیار نہیں ابھی تک اس حوالے سے چترال کی سیاسی ومذہبی قیادت کا ایک بیان بھی نہیں آیا نام نہاد سول سوسائیٹی اور انسانی حقوق کے دعوے دار بھی چھپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے بھی کوئی خاض ردعمل ابھی تک دیکھنے کو نہیں ملا جہاں کہیں فوٹو سیشن ہو وہاں لمبی لمبی تقریریں ہوتی ہے الفاظ کے گورکھ دھندوں پر مشتمل ایسے دعوے اور وغدے کئے جاتے ہیں کہ گاؤں کے سادہ لوح افراد ہی نہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باشعور افرادبھی دھوکہ کھا جاتی ہے لیکن جہاں عوام کی بات آجائے دو الفاظ کوئی ادا کرنے کے لئے تیا ر نہیں ۔ضلعی انتظامیہ کے سربراہ اورپولیس اس سلسلے میں عوام کو بتاناچاہئے تھا کہ سکیورٹی کی صورتحال قابو میں ہے یا چترال کے اندر کوئی مسئلہ نہیں اگر انتظامیہ اور حکومت یو ں خاموش ہی رہا تو عوام میں مزید بے چینی اور مایوسی پھیلے گی اس لئے جلد از جلد ضلعی انتظامیہ کو اس سلسلے کو حقیقت مندانہ اقدامات اٹھانی چاہئے۔ اس سے پہلے جب ملاکنڈ ڈویژن میں فوجی آپریشن جاری ہوا تھا تو اس وقت کے کمانڈنٹ چترال سکاؤٹ اور انتظامیہ پورے چترال میں کھلی کچہریاں منعقد کرکے عوام کو ساری صورتحال سے آگاہ کر دیا تھا اور عوام بھی فوج اور سکیورٹی اداروں کے ساتھ تعاون کی یقین دہانی کی تھی حالانکہ اس وقت چترال کے لئے اس طرف کی براہ راست دھمکی بھی نہیں آئی تھی لیکن حالیہ بیان کے بعد اداروں کی خاموشی سے عوام میں احساسِ عدم تحفظ اور تشویش بڑھ رہا ہے ساتھ ہی پروپیگنڈے کا بازار بھی گرم ہے ۔

چترال سے خصوصی ہمدردی رکھنے والا پرویز مشرف اپنے کیسز میں الجھے ہوئے ہیں ان کے نام کا کارڈ استعمال کر کے ایوانِ اقتدارکی کرسی پر براجمان ممبر قومی اسمبلی بھی خاموشی ہی کو بہتر چوائس سمجھ رکھاہے ۔موجودہ غیر یقینی صورتحا ل میں سول سوسائیٹی ،اہلِ قلم،صحافیوں اور علمائے کرام کو چاہئے کہ وہ اپنا مثبت کردار ادا کرے عوام کو حوصلہ دینے کے ساتھ سب کو ذمہ دار شہری کا کردار نبھانا ہوگا خصوصاََ اپنے علاقوں میں غیر متعلقہ مشکوک افرادپر نظر رکھنی چاہئے عوامی حمایت کے بغیر حکومت اور فوج یا لااینڈ فورسز ایجنسیز کچھ نہیں کر سکتی اگر خدا ناخواستہ کہیں حالات خراب ہوجائے تو اس سے ایک فریق یا گروہ متاثر نہیں ہو گا بلکہ پوری چترال اس کی زد میں آسکتا ہے اگر سول سوسائیٹی اور سیاسی جماعتیں 1979ء میں نام نہاد افعان جہاد کی حقیقت کو بھانپتے ہوئے اسی وقت حقیقت کا ادراک رکھتے اپنی سر زمین کو دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے نہیں دیتے اور دوسروں کے معاملات میں بے جا مداخلت سے گریز کرتے تو آج پاکستان کی یہ حالت نہ ہوتی ہر طرف آگ وخون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے مساجد،امام بارگاہ،خانقاہیں ،چرچ،مندر،بازارلہو لہو ہے مرنے والے سب مکاتبِ فکر اور ہر پیشے کے لوگ ہے دہشتگرد وں کا نظریہ یہ ہے کہ ان کے (دہشتگردوں)کے علاوہ کسی کو بھی جینے کا حق نہیں آج ہمیں اپنی مذہبی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مل کر دہشتگردی کے اس ناسور کا مقابلہ کرنا چاہئے تاکہ چترا ل کی امن بر قرار رہے آج ہمیں قلم اور کتابین چاہئے نہ کہ کلاشنکوف اور ڈرگس کا کاروبار۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button