Sir, You are great
پہلا منظر
شدید گرمی ہے، درجہء حرارت 42 ڈگری سنٹی گریڈ ۔۔ ۔کراچی کے ایک مصروف شاہراہ کو چند پولیس اہلکاروں نے بند کیا ہوا ہے اور چوکس کھڑے ہیں ۔اس روڈ پرپھنسے لو گ شدید گرمی کی تمازت سے پسینے سے شرابور ہیں ۔موٹر سائیکل اور
سائیکل سوار افراد سر تا پا پسینے میں نہار ہے ہیں ۔بسوں اور کو چز کے مسافر وں کی حالت بُری ہے ۔گرمی اور ضرورت سے زیادہ سواری کے سبب دم گٹھ رہا ہے ٹریفک کی لمبی لائن میں گدھا گاڑی کے گدھے کے منہ سے رال ٹپک رہا ہے اور مالک اپنی آنکھوں کو سورج کی تپش سے بچانے کی ناکام کوشش کررہا ہے۔لاچاری ،بے بسی اور غصہ گدھے سمیت اس منظر میں شامل تمام لوگوں میں آسانی سے دیکھی جا سکتی ہے۔
دوسرا منظر
گاڑیوں کی لمبی قطار ہے، آگے اور پیچھے پولیس اور رینجرز اہلکار وں کی گاڑیاں۔ ان کے درمیان میں چند چمکتی گاڑیاں ،جن کی پچھلی نشستوں پر بندوق بردا ر افراد ۔۔۔ اے سی کی ٹھنڈی ہوا میں لوگ آرام سے بیٹھے ہیں کچھ لوگ خوش گپیوں میں مصروف ہیں اور چند جدید موبائل فونزپر گانے سننے کے ساتھ ساتھ فیس بک اورٹویٹر کو اب ڈیڈ کررہے ہیں ۔گاڑیوں کا یہ قافلہ سائرن بجاتا ہوا جس سڑک سے گزرتا،وہاں کا منظر بالکل پہلے منظر کے جیسا ہو جا تاہے۔ باہر کھڑے لوگ حسرت بھری نگاہوں سے اس قافلے کو دیکھتے ہیں اورکچھ غصے اور نفرت سے۔۔۔
تیسرا منظر
ہسپتال کے بیڈ پر ایک10,12سالہ لڑکی لیٹی ہے اس کے ہاتھ میں پانچ ہزار کا کڑک نوٹ چمک رہا ہیں ۔ بیڈ شیٹ اتنے گندے کہ شایدمہینوں سے نہ دھلے ہوں ۔جگہ جگہ داغ دھبےَ َََََََََََ……..سفید چادر پر دو چار سفید دھبے بھی نظر آرہے تھے باقی کالے رنگ کا معلوم ہوتا ہے۔ کمرے کی کھڑی پان اور گٹکا تھوکنے کی وجہ سے لال ہوئی ہے، دیواریں اور الماری گردوغبار سے اٹے ہوئے ہیں ۔لڑکی کے ساتھ بیٹھی ادھیڑ عمر کی خاتون کبھی پانچ ہزار کے نوٹ کو دیکھتی اور کبھی لڑکی کے زرد چہرے کو…..اور کبھی سفید کپڑوں میں ملبوس صاحب کو جس نے پانچ ہزار کے نوٹ سے’ نوازا‘ تھااور کبھی تصویریں اتارتے لوگوں کو……….
چوتھا منظر
سفید کپڑوں میں ملبوس شخص نے جھاڑو پکڑ کر کھڑکی پر پڑے گھوٹکے کو صاف کیا ۔نیکون کا کیمرا تھامے شخص اور اسمارٹ فون سے لوگوں نے تصویرے اُتار ی پھر ان صاحب نے باتھ رو م کی بالٹی میں ادھا پانی بھر کر گندے ٹائلوں پر گرایا۔ 8,10نئے بیڈ شیٹ انتظامیہ سے منگوائے ۔پلاسٹک کی تھیلیوں میں لایا گیا کھانا ’’صاحب‘‘مریضوں کو اپنے ہاتھوں سے دے دیا۔اپنی جیب سے اور اپنے ہمراہیوں سے لیکر کچھ مریضوں کو نقد تھمایا۔ایک ایک لمحے کی تصویریں اُتاری گئی ۔ نیکون کیمرے والا شخص نہایت پُھرتیلا تھا۔ وہ کبھی بیڈ پر (جن کے بیڈ شیڈ چند لمحے قبل تبدیل کئے گئے تھے )کبھی کرسی پر چڑھ کر صاحب کی تصور اُتارتا۔۔ ایک شخص اسمارٹ فون سے تصویریں لیکر فوراً ٰفیس بک کو اب ڈیٹ کر رہاتھا ۔
یہ تمام مناظر چیف سکٹر یری سند ھ سجاد سلیم ہو تیانہ کے لیاری ہسپتال کے دورے کے ہیں ۔ سفید کپڑوں میں ملبوس صاحب ’’ہر دلعزیز‘‘ چیف سکٹریری صاحب ہیں فیس بک پر اِب کے مداحوں کی تعداد 32000 سے تجاوز کر گئی ہے ۔ اس دن ان کی گاڑیوں کے قافلے میں میں بھی اے سی میں آرام سے بیٹھ کر باہر کے مناظر کو دیکھ رہا تھا ۔ دوسرے منظر میں تپتی دھوپ میں کھڑے لوگوں کی بے بسی دیکھ کر مجھے خود سے نفرت ہو رہی تھی کیونکہ بالکل اسی طرح میں خود بھی کئی بارٹریفک میں پھنس چکا ہوں۔ میں لوگوں کی آنکھوں میں موجود غصہ اور نفرت دیکھ سکتا تھا۔ ان کی لاچاری ، بے بسی کو بھی محسوس کر سکتا تھا، مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ لوگوں نے گاڑیوں کے اس قافلے کو اور ان میں سوار لوگوں کو (جن میں میں بھی شامل تھا) کن کن ’القابات‘ سے نوازا ہوگا اور کیسی ننگی ننگی گالیاں دی ہونگی۔ مگر یہ ’’بے وقوف لوگ‘ ‘ کیا جانیں کہ ہم انہی کی ’’خدمت‘‘ کی خاطر اتوار کو وقت نکال کر چیف سکڑیری صاحب کے ساتھ سرکاری اسپتال کے دورے پر گئے تھے۔
ٹھیک ایک گھنٹہ بعد گھر پہنچ کر میں نے جب فیس بک کھولا تو اسی بچی کی تصویر میرے کمپیوٹر اسکرین پر آگئی جس کے ہاتھ میں پانچ ہزار کا کڑک نوٹ تھااس کے نیچے چار سو لوگوں نے تبصرہ (comments) اور ہزار لوگوں نے پسندیدگی (Likes) کا اظہا ر کیا تھا۔ چند تبصرے کچھ یوں تھے۔
God bless you
Sir, you are great