اندھے کو پرچی کا عطیہ
تحریر: محمدجان رحمت جان
کہاجاتاہے کہ ایک زمانے میں موسم بہار میں ایک اندھا سٹرک کے کنارے بھیک مانگنے روز آیا کرتا تھا۔ پورے دن زور زورسے آوازیں دیتالیکن کوئی بھی آپ کی آواز کو نہیں سنتا۔رحم کھانے کی بجائے مزاق اڑا کر چلے جاتے تھے۔ ہر روز بمشکل کچھ پیسے مل جاتے جس سے اُن کا گزارا نہیں ہوپاتا تھا۔ اندھے نے بہت کوشش کی کہ لوگوں کی توجہ اور رحم حاصل کرسکے لیکن اُن سے یہ کام نہ بن سکا۔اُسی راستے ہزاروں لوگوں کی گزر ہوتی لیکن کوئی اُن کی طرف نہیں دیکھتا۔ روزانہ کئی لوگ اُن کو بھیک مانگنے کی تجاویز بھی دیتے لیکن بارآور نہ ہوئے۔ ایک دن ایک زِیرک آدمی وہاں سے گزرے اور اُن کو کچھ دینے کی بجائے ایک پرچی لکھ کے دیا۔ نابینا کو اُن کی یہ حرکت پسند نہ آئی اور پیسوں کی بجائے کاغذ دینے پر بہت برہم ہوئے۔ غصے میں اُس نے وہ لکھائی اپنے گلے میں باندھا اور یہ تائثردینے کی کوشش کی ’کہ آپکی لکھائی گلے کا ہاربن سکتی ہے لیکن کھانے کا سامان نہیں‘۔ اندھے کو اس نسنے کا اندازہ نہ تھا۔ جس لمحے گلے میں کاغذ کیا باندھا لوگوں کی طرف سے پیسوں کی برمار ہوگئی۔ ہر آدمی اندھے کو کچھ نہ کچھ دے کرجاتااوریوں اندھادن میں ہزاروں روپے کمانے لگا۔ اندھے نے کاغذ کو تعویزسمجھاتھاایک دن کسی عزیزسے پوچھاکہ اس پرچی پر لکھاکیاہے؟ وہ کہنے لگا اس پر لکھاہے’’ کاش میری بھی بینائی ہوتی تواس موسم کے پھول اور قدرت کی حسین منظر دیکھ پاتا‘‘۔ اندھے نے کہا یہ کیا نئی بات ہے۔ یہ بات تواس سے پہلے میں روز کہتا تھا۔ اُس نے کہا ’روزکے شورمچاکر بولنے سے نہیں بھیک مانگنے کا بھی کوئی طریقہ ہوتا ہے۔ غربت کی کہانیاں اس ملک کا ہر شہری سناتا ہے لیکن کسی کی دکھ بھری کہانی زیرک انداز میں کہنا آسان نہیں‘۔
آج کل کسی کو نصیحت کرناہویاسبق دیناروایتی طریقے سے ممکن نہیں۔ والدین ہرشام کو گھرمیں واعظ ونصیحت کیاکرتے ہیں جتنی وہ نصیحت کرتے ہیں بچے اتنے ہی اُن کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ اس طرح سکول میں اساتذہ اور کلاس میں استاد کے زور زور دیکر پڑھانے سے نہیں بلکہ سمارت اور مہارت انگیز طریقہ ہی بچوں کو اپنی طرف متوجہ کرسکتی ہے۔ علماء کی خطابت اور سیاست دانوں کی تقریر کے گڑگڑانے کا زمانہ چلا گیا۔ اب کوئی کسی کو ڈراکر یا بڑبڑھاکر متوجہ نہیں کرسکتا۔ آج کا زمانہ سوچ وفکر کا ہے۔ عملی طرز عمل ہی اس معاشرہ میں کارآمد ہوسکتا ہے۔ لطیفے اور کہانیوں کا زمانہ نکل گیا۔ اندازے اور مفروضے بھی ختم اب ایک ہی طریقہ کارگر ہوسکتی ہے۔ منطقی اور تحقیق و تفتیش۔ اس زمانے ہم اُس وقت تک کسی سے توجہ حاصل نہیں کرسکتے جب تک تحقیق اور دلیل نہ ہو۔ متقابلے کا زمانہ اب نہیں رہا۔ قدیم زمانے میں لوگ ہر چیز کو دوسرے پر فوقیت دینے کی غرص سے کیاکرتے تھے۔ لوگوں کو اشتعال دِلاکر اپنا کام نکالتے۔ تکثیریت اور گوناگونی کا یہ تقاضا نہیں۔ آج مقابلہ کھیل اورکسی چیز کی صنعت میں ہوسکتی ہے لیکن نظریے اور دین میں نہیں۔ کیونکہ ہر کسی کی دین اُس کیلئے عزیز اور محترم ہے۔ اس لئے قرآن پاک نے حکم دیا’’تمہارے لئے تمہارا دین میرے لئے میرا دین‘‘۔ اس طرح تمہارے لئے تمہاری ثقافت میرے لئے میری ثقافت عزیز ہے۔۔۔ ان میں مقابلہ تناؤ کا باعث بن سکتا ہے‘ جیت جیت کا نہیں۔ سکول میں بچوں کو ایک دوسرے سے مقابلہ کرانے کی بجائے ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے اور ایک دوسرے سے سیکھنے کی تلقین کرنا چائیے۔ مدد اور تسلیم صلاحیت بھی بڑی عقل مندی ہے۔ عناد اور دشمنی کو پھیلانے کی بجائے کم کرنے ‘ ماضی کی تلخیوں کو بھلانے اورخوشیوں کوپھیلانے کی ضرورت ہے۔ انفرادی جدوجہد اپنی جگہ اور اجتماعی سوچ‘ فکر اور تحمل کی بہت ضرورت ہے کیونکہ ہماری ایک بات سے قوم لٹ بھی اورجیت بھی سکتی ہے۔ طاقتور کی طاقت دائمی نہیں اور حکمران کی حکمرانی عارضی ہوتی ہے اگر ہم وقت کی دھار وقت پر نہ سمجھے تو زور زورسے یا بڑبڑھانے سے ہمارے مقاصد حل نہیں ہونگے۔ مظلوم اور محکوم بھی کسی دن طاقتور ہو سکتے ہیں۔
’’ہرچیز سے ہے تیری کاریگری ٹپکتی
یہ کارخانہ تونے کب رائیگاں بنایا‘‘۔
بات کہاں سے کہاں گئی۔۔۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سوچ سمجھ کر تحقیق وتفتیش کے بعداپنا مدعا بیان کریں۔ پہلے سوچو پھر بولو ناکافی ہے۔ خالی سوچ سے کام نہیں چلتا۔ تحقیق و تفتیش بھی ضروری ہے۔ اندازے اور اپنی حد تک کی سوچ نے بھی قوموں کو نقصان پہنچایاہے۔ سوچ تب بہتر ہوسکتی ہے جب سوچنے والا دنیا بین ہو۔ خالی اپنے سیاق میں سوچنا بھی نقصان دہ عمل ہے۔ آج چہار سمت نہیں شش سمت سوچنے کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ اپنی سوچ پر بھی نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے اپنے حلقوں پرناز بھی کسی دن انسان کو انسانیت سے گرابھی سکتاہے۔ جس دن ہم نے خود کو سب سے بہتر سمجھا اس دن ہمارا وجودختم ہوسکتاہے۔ دنیا آج کُھل چکی ہے۔ تہذیب وتمدن کی تہیں اشکار ہوچکی ہیں۔ ماضی کی دنیاکے کارنامے واضح ہوچکے ہیں۔ مغرب کی انسان کُشی کی داستانیں اور مشرق کی انسانی تذلیل کے کارنامے بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ یہ وقت اس سیارے کی اجتماعی خود کشی کا نہیں۔ آج ہر لمحے کے مناظر شام کو پوری دنیا دیکھتی ہے کون سی قوم کیاکارنامے سرانجام دیتی وہ سب کے سامنے ہے۔ بڑے قد‘ بڑی تقریر‘ بڑے خاندان کا زمانہ ختم ہونے لگا ہے۔ یہ زمانہ مہارت‘ قابیلیت اوراہلیت کی ہے۔ ہر کسی کو اُن کے اعمال کے برابراجر ملنے لگا ہے۔ آج جالی فقیر اورغریب بھی بے نقاب ہوچکے ہیں۔ ہر چیز اور ہرشخص کی اصلیت منٹوں میں وضح ہوجاتی ہے۔ جھوٹ بولنے کی گنجائش کم ہوتی جارہی ہے۔ ہم کیمروں اور میڈیا لُکیٹر(Locater)کی زد میں ہیں۔ ہر عمل ریکارڈ ہونے لگی ہے۔ہم نے کندوں والے ریکارڈر کا خیال نہیں رکھا۔ ایمانداری اورسچائی کارگر نہ ہوئی تو ہر آفس میں سی سی کیمرے لگنے لگے ہیں۔ اللہ سے دعاہے کہ ہمیں گفتار کے قاضی کے بجائے کردار کا قاضی بننے کی توفیق دیں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا آپ نے کبھی اپنے حدودسے باہر سوچا ہے؟ اپنے سیاق وسباق سے باہر کسی کو داد دی ہے؟ کسی کو نیک مشوہ دینا بھی نیکی ہوسکتی ہے۔
’تعلیم کے تیزاب میں ڈال ان کی خودی کو
ہوجائے ملائم تو جدھر چاہیے ادھر پھیر‘