کالمز

باباکی باتیں

دکان کے سامنے دھوپ میں بیٹھا تھا۔ہاتھوں میں ’’اخبار‘‘تھا ایک بزرگ آکے ساتھ بیٹھنے لگا۔میں نے کھڑے ہوکرگدی سجادی۔ایک ادھ دعا کے ساتھ بزرگ بیٹھ گیا۔میں نے’’اخبار‘‘سامنے کیا۔۔۔بیٹا میں پڑھنے سے معذور ہوں اکھیاں جواب دے گئی ہیں۔۔۔۔ہاں !سناؤ!اخبار میں کیا ہے؟۔۔۔۔بابا بہت ساری باتیں ہیں اپریشن ،جلسے جلوس،پھر پارلیمنٹ کی بالادستی ،دھرنے،ضمنی انتخابات،ٹریفک حادثے،کرپشن ،اغویٰ،ڈکیتی،پھر تعلیم ،تہذیب ،عدل وانصاف۔۔۔بابا سب کچھ ہے۔۔۔۔بیٹا!سب باتیں زندگی کا حصہ ہیں زندگی انہی باتوں سے عبارت ہے۔مگر بیٹا!یہ دھرنے والے کیا کہتے ہیں؟۔۔۔۔ان کا ایک نعرہ ہے بابا۔۔۔۔کیسا نعرہ۔۔۔۔بابا۔نیا پاکستان۔۔۔۔۔انھوں نے عزم کررکھا ہے بابا کہ وہ معاشرے میں موجود ساری خرابیوں کو دور کریں گے۔طرز حکمرانی تبدیل کرنے،اشرافیہ کی من مانیاں ختم کرنے ،جاگیر کی زنجیریں توڑنے ،زاتی مفادات ختم کرکے قومی مفادات پر سوچنے ،ملک کی تعمیر ،اداروں کی مظبوطی ،عوام کو بنیادی سہولیات باہم پہنچانے،غربت مکانے ،بیرونی قرضوں سے قوم کو نجات دلانے ،حقیقی جمہوریت کا احیاء اور پاکستان کو حقیقی جمہوری ملک بنانے کا تہیہ کررکھا ہے۔۔۔تو آپ لوگ کیا چاہتے ہیں؟۔۔۔بابا ہم لوگ انتظار میں ہیں۔ہم اللہ کے حضور دعا گو ہیں کہ اللہ ہمارے پیارے پاکستان سے ساری پریشانیاں دور فرمادے۔۔۔بابا سوچنے لگا۔۔

hayat۔بیٹا!یہ جو آپ کہتے ہیں یہ ’’نیا پاکستان‘‘ہوگا۔۔۔بابا پھر کہیں دور ماضی میں چلاگیا ۔۔۔بیٹا !یہ تو’’ُپرانا پاکستان‘‘ہوا1947ء کا عجیب پاکستان اللہ کا انعام پاکستان۔۔۔جو صرف اللہ کے نام پہ بنا تھا اس کی بنیادوں میں امن ،خوشحالی ،انصاف ،عدل ،رواداری اور آزادی رجی بسی تھی۔اُس وقت یہ نا انصافی ،ظلم،عیاشی ،کرپشن یہ سب مفروضے تھے۔لوگوں کے سینوں میں جو دل تھے۔وہ صرف ’’پاکستان‘‘کے لئے دھڑکے تھے۔اُس زمانے میں کوئی آفسر،کوئی نوکر،کوئی کارخانہ دار،جاگیردارنہیں تھا۔سب ’’پاکستانی‘‘تھے۔سب ایک دوسرے کے لئے پھر پاکستان کے لئے زندہ تھے۔’’قانون‘‘ان کی پہچان تھا۔تعمیر وطن ان کا ’’خواب ‘‘تھا۔ان کے پاس پیسے نہیں تھے۔عیاشیاں نہیں تھیں۔۔۔’’صرف جذبہ تھا‘‘شوق تھا ہندو ہمیں طعنہ دیا کرتے تھے۔کہ’’پاک ‘‘لوگوں کی زمین ہے واقعی ہم نے ثابت کیا تھا کہ ہم ہر برائی سے پاک ہیں ہم لالچ ،بغض اقتداراقربا پروری کی کمزوریوں سے مبراتھے۔ہمارے بدن سلامت تھے۔آج جو نعرے اوردعوے ہیں یہ حقیقت کی روپ میں اُس وقت موجود تھے۔ایمانداری اور دیانتداری ہماراخاصہ تھا۔بیٹا !قائداعظم کے جوتے پھٹے ہوئے تھے۔۔۔ان کی تنخواہ 100روپے سے کم تھی۔وہ اسمبلی ہال میں ریفرشمنٹ کے خلاف تھا۔اس کا کوئی بنگلہ،کارخانہ،بینک اکاونٹ کچھ نہیں تھا۔وہ کھرا ،سچا،راست گو،مخلص خادم قوم تھا۔ان کے نزدیک لوگوں کی اہمیت ،حق وصداقت اور محنت کی اہمیت تھی۔وہ محنت پر یقین رکھتا تھا۔یقین محکم اور عمل بہیم کا جیتا جاگتا پیکر تھا۔اس لئے اس کے خلوص کی چھیٹین ارض پاک پر رحمت بن کر برستی تھیں۔اس وقت پاکستان ہر لحاظ سے غریب اور مفلوک تھا۔مگر ’’جذبہ تعمیر‘‘زندہ تھا۔اس وقت ہر پارٹی ،ہرگروہ،ہرفرقے اور ہرعلاقے کا نعرہ’’پاکستان‘‘تھا آج پاکستان میں دولت ہے،پیسہ ہے،لیکن بیٹا ہمیں کیا ہوگیاہے۔قرآن کا فیصلہ ہے کہ اگر قوم چاہے تو اس کی حالت بدلی جاسکتی ہے۔علیم وخبیر زات ہماری نیتوں سے واقف ہے۔

بیٹا ہمیں وہ’’پراناپاکستان‘‘چاہیئے۔جس میں محبت کی حکمرانی تھی۔ہم ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔یہ ہماری کمزوری ہے کہ آج ہم پاکستان کو ’’نیا‘‘’’پرانا‘‘کہہ رہے ہیں۔یہ ملک وہی ہے بس اس کی تعمیر کرکے اس کو بے مثال بنانا ہے۔پاکستان انمول ہے دنیا کی کوئی قوم اپنے ملک کو’’نیا‘‘اور ’’پرانا‘‘نہیں کہتی ہمیں صرف اپنے کرداروں پر غور کرنا چاہیئے۔یقیناًہم ایک غیرت مند قوم کہلانے کے مستحق ہیں بیٹا!بیٹا ہم ایک ہیں ایک رہیں گے۔یہ گلے شکوے ختم ہوجائیں گے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button