ِ سانحہ عطاآباد اورسانحہ علی آباد کے متاثرین
پانچ سال پرانی بات ہے کہ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے الیکشن میں جب ہنزہ نگرسے پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر جناب وزیر بیگ صاحب کو کامیابی ملی تو حلقے کے عوام نے جشن منایا کہ اب ایک باکردار، مخلص، فرض شناس اوربزرگ نمائیندہ ان کی بہتر ترجمانی کرسکے گا۔ وفاق میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت ہونے کی وجہ سے ان کی امیدوں میں مزید اضافہ ہوگیا۔ ہنزہ نگر کے بالائی علاقوں سے لوگ قافلوں کی شکل میں ضلعی مرکز علی آباد میں میں جمع ہوگئے، جو وزیر بیگ کا آبائی گاوں بھی ہے، یہاں ہفتوں تک جشن کا سماں رہا۔ہر جگہ جئے بھٹو کے نعرے گونج اٹھے۔بعد میں موصوف کو گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے سپیکر کا عہدہ دیا گیا، اس سے عوامِ ہنزہ اور بلخصوص متاثرینِ عطاآباد کی خوشیوں میں اور اضافہ ہوگیا۔ یقینایہ خوشی کی بات تھی۔
4جنورری 2010 کو عطاآباد کا افسوسناک واقعہ رونما ہوا، اس میں انسانی جانیں بھی ضائع ہوگئی اور مالی لحاظ سے بھی کافی نقصانات ہوئے۔ عطا آباد سانحہ اور بعد میں مصنوعی جھیل بننے کی وجہ سے سرٹ، سلمان آباد، آئین آباد اور ششکٹ کے تقریبا 497 متاثرہ خاندانوں کو التت اور علی آباد میں عارضی کیمپوں میں منتقل کیا گیا۔ ان کی کل تعداد تقریبا 3000 نفوس پر مشتمل تھی۔ بعد میں 150 خاندان جو مالی لحاظ سے مضبوط تھے ، ان کیمپوں کو چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں چلے گئے اور باقی تاحال ان کیمپوں میں ابتری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ابتدائی طور پر ان کی بحالی کیلئے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں نے بہت کام کیا، تاہم وقت کے ساتھ جب ان متاثرین کے مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا، ان کی طرف کسی نے توجہ نہیں دیا ۔
عطاآباد کے واقعے کے بعد دریائے ہنزہ پر جھیل بننا شروع ہوگیا اور کئی گاوں اس کے زد میں آکر مکمل طور پرڈوب گئے، لوگوں کے گھر، زمین اور درخت سبھی پانی کی نذر ہوگئے۔ ان آبادیوں میں گلمت اور غلکن گاوں کا آدھا حصہ اور ششکٹ و آئین آباد مکمل طور ڈوب گئے۔ ہنزہ سے گوجال جانے کے لئے نقل و حمل کا نظام ختم ہوگیا۔ سیاسی نمایندوں و دیگر ذمہ دار افراد نے ان علاقوں کے دورے کئے اور ان کی بحالی کے لئے کئی وعدے کئے، جن کے گھر اور زمینیں پانی میں ڈوب گئے تھے انہیں سرکار کی طرف سے معاوضہ دینے کا بھی اعلان کیا گیا۔ وقت گزرتا گیا لیکن ان اعلانات پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ متاثرین سرکاری دفاتر کے چکر کاٹتے رہے۔ آخر تنگ آکر احتجاج کرنے پر مجبور ہوگئے۔
11 اگست2011 کو گلگت بلتستان کے جناب وزیر اعلیٰ کے دورہ ہنزہ کے مو قع پر متاثرین عطاآباد نے موقع غنیمت جان کر اپنے حقوق کے حصول اور سرکار کی طرف سے ان کو معاوضہ دینے کے وعدوں پر عمل کروانے کیلئے علی آباد ہنزہ میں احتجاج کیا۔
احتجاج کے ووران وزیر اعلیٰ اور اس کے رفقاء متاثرین کے مسائل سننے اور انہیں حوصلہ دینے کے بجائے انہیں ہر حال میں وی آئی پی پروٹوکول کے قافلے کے سامنے آنے والے ہر رکاوٹ کو ختم کرنے کا حکم صادر فرمایا ، اور یہ فرمان اتنا سخت تھا کہ پولیس نے وزیر اعلیٰ کے لئے راستہ خالی کرانے کیلئے متاثرین پر فائر نگ کی اور شِشکٹ گوجال سے تعلق رکھنے والے باپ اور بیٹے( شیر اللہ بیگ اور شیر افضل) کو قتل کر دیا، جو اپنے حقوق کیلئے وزیر اعلیٰ سے ملنا چاہتے تھے۔ اس واقعے کے ذمہ دار وں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی بلکہ کہا جاتا ہے کہ ان کو ترقی دینے کے بعد مدتِ ملازمت ختم ہونے پر باعزت گھر بھیج دیا۔ اس واقعے کی انکوائری رپورٹ جو ایک ہفتہ کے اندر پیش ہونی تھی، تاحال منظرِعام پہ نہیں آسکی۔
متاثرین عطا آباد کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے اور مقتولوں کے لواحقین کو انصاف دلانے کے لئے کام کرنے والے ہنزہ کے سیاسی کارکنوں کے اوپر مقدمہ بنا کر انہیں جیلوں میں ڈال دیا گیا اور انہیں اذیتیں دی گئی۔ یہ سیاسی کارکن اپنی سزائیں پوری کرنے کے بعد جب جیلوں سے واپس آگئے اور دوبارہ ہنزہ کے متا ثرین اور عوام کو حقوق کیلئے دوبارہ کوششیں شروع کی تو ایک بار پھرانسدادِ دہشت گردی کے دفعات لگا کر انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی اور دوبارہ ان کو جیلوں میں ڈال دیا۔ تاکہ متاثرین کے حقوق کے لئے کوئی کارکن آواز بلند کرنے کی جرات نہ کر سکے۔ ہماراسیاسی نمائندہ جو اسمبلی میں اعلیٰ عہدہ پر براجمان ہے، اپنی پانچ سالہ دورِ حکومت میں میرٹ، انصاف اور برابری کے صرف نعرے لگاتے رہے۔
انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے اے ٹی اے کے تحت بابا جان سمیت گیارہ سیاسی کارکنان کو عمر قید کی سزا سنا کر دوبارہ جیلوں میں ڈالے گئے کارکنوں کی رہائی اور انہیں انصاف دلانے کے لئے 14 اکتوبر 2014 کو گلگت کے سول سوسائٹی تنظیموں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے گلگت میں اقوامِ متحدہ کے دفتر کے سامنے پرامن مظاہرہ کیا اور اقوامِ متحدہ کے دفتر میں ان اسیر سیاسی کارکنوں کی رہائی کے لئے یاد داشت پیش کی تو ایک بار پھر پرامن مظاہرہ کرنے والے سماجی تنظیموں اور انسانی حقوق کے کارکنوں پر غداری کا مقدمہ بنایاتاکہ حقوق کیلئے کوئی آوا ز نہ اٹھا سکے۔ حالانکہ اس مظاہرے میں کسی نے ریاست کے خلاف نعرہ بازی کی اور نہ ہی کوئی تقریر۔ اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے، 29 اکتوبر 2014 کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ایک بار پھر ہنزہ اور عطاآباد کے متاثرین کے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والے بابا جان سمیت ہنزہ کے چھے افراد کو 11 اگست ، سانحہ علی آباد کے دوران ایس ایچ او کے گھر پر حملہ کرنے کے الزام میں ایک ایک لاکھ روپے جرمانہ اور عمر قید کی سزا سنائی۔ مقامی لوگوں کا الزام ہے کہ 11 اگست کے واقعے کو چھپانے اور اس کی انکوائری رپورٹ منظرِ عام پر نہ لانے کے لئے یہ سب کھیل کھیلا جا رہا ہے، تاکہ اس واقعے میں ملوث اصل ملزمان عوام کے سامنے نہ آسکے۔
متاثرین عطاآباد کی یہ حالت ہے کہ اس واقعے کو ہوئے پانچ سال ہونے کو ہے، لیکن یہ متاثرہ خاندان ابھی تک ان کیمپوں میں ذلت کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔ کم آمدن کی وجہ سے یہ اپنے بچوں کے ٹیوشن فیس ادا نہیں کرسکتے ،ان کے بچوں کو سکولوں میں تنگ کیا جاتا ہے اور کئی بچے اسکول چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ صحت و صفائی کا نظام بقول ان کے، جیل کا منظر پیش کر رہی ہے۔ سردیوں کے موسم میں ان کیمپوں میں آگ اور گرم کپڑوں کے بغیر رہنا بہت مشکل ہے، شدید سردیوں میں عمر رسیدہ افراد، مریض اور بچے بہت زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ ان افراد کو یہ نہیں معلوم کہ ان کو کب تک ان کیمپوں میں رکھا جائیگا، یہ اس انتظار میں ہیں کہ سرکار کی طرف سے کب ان کے مسائل کو مستقل بنیادوں پر حل کیا جاتا ہے۔
گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے انتخابات چند مہینوں کے بعد متوقع ہے۔ اس میں گلگت بلتستان کے عوام اور خاص طور پر ہنزہ نگر کے عوام جو خود اپنے آپ کو سو فیصد تعلیم یا فتہ ہونے پر فخر کرتے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ اب اس چناو میںآئیندہ پانچ سالوں کے لئے اپنے نمائندے کا انتخاب کس طرح کرتے ہیں، روایتی انداز میں سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مزید پانچ سال کیلئے وفاداری کاثبوت پیش کرتے ہیں یا جدید وقت کیلئے ایک با کردار، تعلیم یافتہ، نڈر، اور سب سے بڑکر عوام کے کیلئے درد رکھنے والے امیدوار کو منتخب کرتے ہیں؟
بولوں اگر میں جھوٹ تو مر جائے گا ضمیر
کہہ دوں اگر میں سچ تو مجھے مار دینگے لوگ