لاجواب ’’جواب‘‘
ایک بڑی کلاس میں سوال وجواب کا سیشن تھا۔ایک طالب علم نے کھڑے ہوکر استاد سے سوال کیا۔۔۔سر!آپکا تعلق کس ’’پارٹی‘‘سے ہے؟استاد نے کہا۔۔۔محمد مصطفےؐکی’’پارٹی‘‘سے۔۔۔ساتھ بیٹھے طالب علم نے کہا۔۔۔سر بھائی کا مطلب ہے۔۔۔استاد نے کہا بیٹا!میں نے کہا نا۔۔۔۔بیٹا!مجھے کسی دوسری’’پارٹی‘‘کا کوئی شعور نہیں۔۔۔میں کم فہم ہوں کم علم ہوں۔میں نے صرف ایک جملہ پڑھا ہے۔لا الہٰ الا اللہ محمد الرسول اللہ اس لئے مجھے کسی دوسری پارٹی،کسی مسلک،کسی فرقے کا کوئی شعور نہیں۔میں نے پڑھا ہے۔۔۔اللہ کے سیوا کوئی معبود نہیں اور محمد ؐاس کے رسول ہیں۔۔۔پھر میں نے پڑھا محمد ؐکا دین حق ہے۔۔۔پھر میں نے پڑھا۔۔۔اللہ کی ’’رسی‘‘کومضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔پھر میں نے پڑھااللہ کی’’رسی‘‘اللہ کی دین ہے۔۔۔پھر فخر موجوداتؐکے وہ الفاظ میں نے پڑھے۔۔۔میں تم میں دوچیزیں چھوڑے جارہا ہوں ان کی پروی کروگے توگمراہ نہ ہوجاؤ گے اللہ کی کتاب اور میرا سنت۔۔۔بیٹا!میں کم علم ہوں میں نے اس کے بعد صرف خلفائے رسول ؐکی سیرتیں پڑھی۔میں ابھی اس سحر سے نہیں نکلا۔۔۔میں صدیق اکبرؓکے صدق،عدل فاروقی کے طلسم،سخاوت عثمانؓ کے کرشمے اور علی مرتضیٰؓ کی بہادری کے جادو سے آزاد نہیں ہوا۔میری آنکھوں کے سامنے خالدؓ کی تلوار چمکتی ہے۔علیؓکی ہمت موجیں مارتی ہے۔عثمانؓ کی سخاوت کرشمہ دیکھاتی ہے۔عدل فاروقیؓ کی تماشا دیکھاتاہے۔صدیق اکبرؓ آآکے کھڑے ہوتے ہیں۔میری اکھیاں چند ھیا جاتی ہیں۔میں بے ہوش ہوجاتا ہوں۔
بیٹا!میری آنکھیں اور کوئی منظر دیکھنے سے قاصر ہیں۔میرے کان اور کوئی نعرہ سننے سے معذور ہیں میری عقل کی حدود بس وہاں تک نہیں۔ان حدود سے باہر شاید اور کوئی دنیائیں ہوں،حکومت ہوں،آئین زمانوں ہوں،جماعتیں ہوں،مسالک ہوں،فرقے ہوں،نظریات ہوں،منشور ہوں،طریقے ہوں۔۔میں اس لحاظ سے بے خبر ہوں ان پڑھ ہوں۔بیٹا!میں نے کچھ نہیں پڑھا۔۔۔میں نے کسی ملک کا آئین پڑھا نہ کسی قوم کا نظریہ پڑھا۔میں اپنا حال تباہ آپ کو کیا سناؤں ۔۔۔میں تنہا ہوں،جھاٹ ہوں۔۔۔اُمت جب مدت واحدہ تھی تو دنیا پہ حکمران تھی بیٹا۔۔۔کفر لرزہ براندام تھا۔پھر ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں بننے لگیں۔اُمت بٹتی گئی۔۔پھر پارٹیاں بنیں۔۔۔میں وحدت کا وہی خواب دیکھ رہاہوں۔اس لئے تنہا ہوں۔۔جہاں پر مجھے نعرہ حق ملتا ہے۔وہاں پر جھک جاتا ہوں۔لیکن پھر ٹوٹ جاتا ہوں کہ وہاں پر بھی وحدتیں ٹوٹتی ہیں کسی دینی جماعت کا ہدف دوسری دینی جماعت ہوتی ہے۔ایک دوسرے پر تنقید ہوتی ہے ۔بیٹا!کفر سلامت ہے پنپتا ہے۔امت پہ آگ برستی ہے۔اُمت کے افراد کے دلوں کی دھڑکنیں جدی جدی ہیں۔ان کے آنسو ایک دوسرے کے لئے نہیں بہتے۔اختلاف کا کیا اختلاف ہوتا رہا ہے مگر اپنے اپنے ہی ہوتے ہیں۔تاریخ میں یہ تلخ حقیقت موجود ہے جب امت میں اختلاف پیدا ہوا تو کفر نے سراُٹھایا۔روم کے بادشاہ نے حضرت امیر معاویہؓ کو مدد کی پیشکش کی۔آپؓ نے بڑے سخت الفاظ میں یہ تاریخی جملہ کہا بے شک ہم میں اختلاف ہے مگر تمہارے مقابلے میں ہم ایک ہیں ایک ہی رہیں گے۔ہم نے وہ سبق بھلا دیا ہے بیٹا۔۔۔اس لئے میں ’’تنہا‘‘ہوں۔۔۔میرا ائڈیل میرے نبیؐ ہیں۔میں جس سے متاثر ہوں وہ محمد مصطفےٰؐ ہیں۔میری پارٹی،میرا ملک،میری منزل سب کچھ وہی ہے۔میرے خیال میں یہ سوال پھر کم از کم مجھ سے نہ کرنا۔بچے یہ لاجواب’’جواب‘‘سن کر ششدر رہ گئے اور استاد افسردہ۔