افغان قیادت کا دورہ پاکستان , دوررس بہتر نتائج کا حامل
عنایت اللہ اسیر
افغانستان کے طویل جنگی حالات اور دونوں سپر پاورز کے علمداری کے بعدآزادی کا سانس لینا افغانستان کے آزاد مشن قوموں کیلئے مبارک باد ، تسلی ، اطمنیان سکون اور امن کا سبب ہوگا۔ اللہ کرے کہ اسلام کے شدائی مختلف قوتین بھی اس بات کی اہمیت کو بہتر سمجھ جائیں کہ ان کے طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد کہیں جاکے آج ایک جمہوری افغانستان کا نقشہ سامنے آیا ہے اگرچہ جمہوریت ، جمہوریت پر چلنے ہی سے نشونما پاتی ہے اور افغانستان جیسے اہم جغرفیائی منظر نامے پر موجود ملک میں اگر 40 سال کے بعد 5 سال بھی امن رہے تو جنگ قتل وغارت سے بیزار افغان قوم ضرور اس ملک کو ایک مثالی ملک بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور اس عظیم افغان قوم کی جان دینے کے جزبے کو ا گر مثبت راہ پر ڈھائی گئی تو پھر مختصر مدت میںیہ محنتی ، دیانتدار اور بہادر افغان قوم ہر میدان میں دوسرے ممالک کا مقابلہ کرنے کیلئے اوران سے آگے نکلنے کیلئے تیار ہوگا۔پاکستان نے اس عظیم افغان قوم کی آزادی ، خود مختاری ، پر آمن ماحول کے قائم کرنے کیلئے اپنے تمام مملکتی زرائع کو داؤ پر لگا کر 40 سال جدوجہد کی ہے اور اس جدوجہد کے نتیجے میں مخالف قومیں پاکستان کے اندر دہشتگردی پھیلانے میں مصروف ہیں اگر آج پاکستان، افغانستان اور انڈیا نے مشترکہ مظبوط فیصلہ کیا اور دہشت گردی کی حوصلہ شکنی کا عزم مسمم کیا تو پھر دہشت گردوں کوکہیں ٹھکانہ نہیں ملے گا اور تینوں پڑوسی اور قدرتی جغرفیائی حدود میں بسنے والے مختلف رنگ ونسل ، مذہب و زبان سے آ راستہ باشندگان پھر سے پر آمن اور سکون کی زندگی گزار سکیں گے ۔صرف افغانستان اور پاکستان کا اتحاد بھی پاکستان کو مغربی محاز پر بڑی فوج رکھنے کے بجائے اپنے اندرونی حالات پر نگاہ رکھنے کیلئے بہترین ہوگا ۔ ہندوستان کے ساتھ 1947 سے 2014 تک کی جنگی جنون نے دونوں ممالک کو غربت ، افلاس ، موت اور دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں دیا اور آج کے سانٹیفک دور جدید میں تھر، اتر پر دیش ، اسام اور دیگر علاقوں کے باشندے دو وقت کی روٹی کیلئے محتاج موت کے منہ میں جا رہے ہیں ۔اور ہم لاکھوں کے تعداد مین جنگی جنون سے بھرپور فوج رکھنے پہ اس لئے مجبور ہیں کہ کہیں جنگ نہ چھڑ جائے اور سیا چین کے یخ بستہ 6000 1فٹ کی بلندی پر اربوں روپیہ سالانہ لگانے پر مجبور ہیں کیونکہ یہ ہمارے انا کا مسئلہ ہے۔ہندوستان کو تو اسکاٹ لینڈ کے مہذب معاشرے سے سبق لیکر تیمور کی آزادی کا مثال بن کر مقبوضہ کشمیر میں ریفرنڈم کرنے سے انکار کرنے کا لمبا رویہ ختم کرکے زمینی حقائق کے مطابق باعزت راستہ امن اور گفت و شنید کا اختیار کرنا ہوگا ۔اگر آٹھاسٹھ سال تک کشمیر کے باشندوں کے دلوں پر حکومت کرنے کا بزور شمشیر رویہ کامیاب نہ ہوا تو 60 سال بعد بھی یہ ممکن نہ ہو گا بلکہ حالات بھی اس سے بد تر ہونگے لہذا اس انسانی ہمدردی کے مسئلے کو کشمیر کے باشندوں کی رائے کے مطابق جتنی جلد حل کی جائے پاکستان اور ہندوستان کے ملکوں کے لئے بہتر اور دونوں ممالک کے باشندوں کیلئے سلامتی اور ترقی کا سبب ہوگا۔افغانستان سے پاکستان کی دوستی سنٹرل ایشیا کو سمندر تک مختصر ترین زمینی راستے سے ملانے کا زریعہ ہوگا اور لواری ٹنل سے براستہ گرم چشمہ ، تورکہو اور یارخونی کی وادی سے کئی ایک زمینی راہیں افغانستان کی سرزمین سے گزر کر تاجکستان تک بچھائی جا سکیں گی۔اور چترال گرم چشمہ ، اشکیشم ھائی وے کا 1993 کا سروے شدہ شاہراہ براستہ زیباک تاجکستان تک مختصر مدت میں تعمیر ہوسکے گی ۔ یہ منصوبہ صرف افغان حکومت کی آج تک NOC نہ دینے کی بنا پر کھٹائی میں پڑی ہوئی ہے ۔ حالانکہ مختصر مرمت سے چترال ، بد خشان ، تاجکستان تک 4X4 ٹرکین مختصر مدت میں چلائی جا سکتی ہیں۔تجارت اور سیاحت کے نمائندوں کا مشترکہ وزارتی اجلاس وزرائے مواصلات کے ساتھ بلا کر راہداری وزٹ پر مٹ اور فری تجارت کے راستے انہی مہینوں میں کھو لکر براستہ چترال سال بھر بدخشان ، نورستان ، لغمان اور دیگر افغانستان کے شمال مغربی صوبوں تک گھنٹوں میں سامان پہنچایا جا سکتا ہے ۔ہم نے روسی یلغار سے پہلے اور بعد میں بھی ابھی تک 40 سے 50 سال ضائع کئے ہیں لہذا ابھی مزید وقت ضائع کئے بغیر عملی اقدامات اٹھانے اور علمدرآمد کے نئے راستے ہموار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔سنٹرل اشیاء کے نوآزاد اسلامی ریاستوں اور افغانستان کے وزارتی کمیشن کا اجلاس اسلام آباد میں بلا کر تمام برادرر ممالک آپس میں عزت و احترام کی بنیاد پر سیاحت و تجارت کی راہیں آسان اور ہموار کرسکتی ہیں ۔
افغانستان کے صدر کی پاکستان آمد اور اس کے نتائج
لواری ٹنل کی تعمیر نے اسلام آباد، دہلی اور گوادر سے تاجکستان زمینی فاصلہ کو سال بھر کے لیے مختصر ترین اور قابل عمل بنا دیا ہے۔ چترال کی پر امن وادی ملک خداداد کے لئے کثیر زرمبادلہ کمانے کا ذریعہ ہونے کا منتظر ہے۔ لہذا چترال میں خشک گودی کا قیام عمل میں لا کر افغانستان اور سنٹرل ایشیاء کے ممالک کے لئے پاکستان اور دنیا بھر کے مصنوعات کے ان علاقوں تک رسائی کو آسان بنایا جائے۔