سعودی تیل اور دریاۓ سندھ۔
شرافت علی میر
سلیم سعودیہ میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتا ہے ۔وہ کہتا ہے کہ سعو دیہ میں بجلی کے حوالے سے ایک سیمنار ہوا اور اس میں پاکستان کا بھی ذکر ہوا کہ پاکستان میں بجلی کا بحران ہے ۔ جس کے جواب میں ایک پاکستانی انجنیرنے کہا کہ سعودی عرب تیل کی دولت سے مالا مال ہے اس لیے یہاں بجلی کا کوئی مسلہ نہیں ہے ۔ جس کے جواب میں سعودی انجنیر نے کہا کہ پاکستان کے پاس اشیا کہ سب سے لمبی اور دنیا کے 21 ویں لمبی دریا ہے جو جا کے سمندر میں گرتا ہے۔پھر آپ لوگ اس سے کیوں بجلی نہیں بناتے ہے۔
کچھ یہی بات ایک انگریز نے گلگت میں کہا ان کو جب بتایا کہ آج لوڈشیڈنگ ہے تو ان کا جواب تھا کہ "آپ لوگوں کا بجلی جا کے بحرہ عرب میں گرتا ہے ” لوڈشیڈنگ تو ہوگا ان کا اشارہ بھی دریاۓ سندھ کی طرف تھا۔
زرا سوچاجاۓ تو وہ لوگ ٹھیک کہتے ہے ۔ان کے ملک میں تیل ہے انھوں نے اس سے بجلی پیدا کیا ہے ہمارے ملک پاکستان کو بھی اللہ تعالی نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔لیکن ہم اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے ہے ۔
مثلا سعودی عرب اگر تیل کی دولت سے مالا مال ہے تو پاکستان کے پاس دریا سندھ ہے جو دنیا کہ 21 ویں لمبی دریا اور اشیا کی سب سے لمبی دریا ہے جس کی کل لمبائی 3200 کلومیٹر ہے جو جا کے بحرا عرب میں گرتا ہے۔
2006 کے سروے کے مطابق پاکستان میں صرف 12 فیصد بجلی پانی سے پیدا کی جاتی ہے جبکہ تیل سے 46 فیصد اور گیس سے 37 فیصد کوئلہ سے 4 فیصد اور نیوکلر سے 3۔0 فیصد بجلی پیدا کی جاتی ہے ۔
قدرت نے ہمیں جن نعمتوں سے نوازا ہے ہم ان کی قدر نہیں کرتے ہے اگر ہم دریاۓ سندھ پہ چھوٹے چھوٹے ڈیم بناۓ تو ہمارے ملک سے لوڈشیڈنگ کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوجائیگا اورپاکستان دوسرے ممالک کو بجلی فروخت بھی کرۓ گا اورسیلاب سے جو ہر سال نقصانات ہوتا ہے وہ بھی نہیں ہوگا۔
اس وقت صرف بوبنجی ڈیم سے 7000 ہزار میگاواٹ بجلی پید ا کی جاسکتی ہے اور دیامر باشا ڈیم سے 4500 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے ۔ لیکن دونوں منصوبوں پہ کام نہيں ہورہا ہے اوردیامر باشا ڈیم کا ذکر ہم گزشتہ 30 سالوں سے سن رہے ہے لیکن ابھی تک اس کی تعمیر میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔عین ممکن ہے کہ اس کو بھی کالا باغ ڈیم کی طرح متازع بنائنگے۔ صرف گلگت بلتستان میں پانی سے 40000 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ شرم کی بات یہ ہے کہ گلگت جہاں بہت سارے گلشیرز چشمے اور دریا ہونے کے باوجود لوڈشیڈنگ کا شکار ہے اور گلگت شہر میں بھی دو بڑے جنریٹرز ہے جو تیل سے چلتی ہے ۔
کالاباغ ڈیم کو بھی ہمارے حکمران خواہ مخواہ متازع بنا رہے ہے۔
یو ۔ایس ۔ایڈ کی ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ہوا سے 90000ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے لیکن اس طرف کسی نےتوجہ نہیں دی ہے۔جس میں سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقے اور سوات کے علاقے ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے لیے بہت موزوں ہے۔
اس وقت ہمارے ملک میں تھرمل کے زریعے بجلی پیدا کی جاتی ہےکیونکہ اس میں ہمارے حکمرانوں کا فائدہ ہے کیونکہ تھرمل کے لیے جو تیل وغیرہ سپلائی ہوتی ہے اس کا ٹھیکہ ہمارے حکمرانوں کے پاس ہے ۔المیہ یہ ہے کہ ہم ہائیڈرو کی بجاۓ تھرمل اور نیوکلر پروجیکٹ بنارہے ہے جو نہ صرف مہنگا ہے بلکہ اس سے ہمارے ماحول کو بھی نقصان پہنچتا ہے امریکہ اور یورپ میں اس وقت نیوکلیر اور تھر مل بجلی کے پلانٹ کو آئستہ آئستہ بند کررہا ہے اور پانی ،ہوا اور سورج سے بجلی پیدا کرریے ہے ۔
جبکہ ہمارے وزیر اعظم صاحب نے ادھرکوسٹل نیوکلیر پاور پلانٹ کا سنگ بنیاد رکھا جونہ صرف بہت زیادہ مہنگی ہے بلکہ خطرناک بھی ہے۔پھر وہی بات کہ اس میں حکمرانوں کا فائدہ ہے کیونکہ اس میں ان کو کمیشن ملتاہے۔
انڈیا نے سندھ تاس معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوۓ ہمارے پانی کو بند کیا اور اس پہ ڈیم بنایا اور جب چاہتا ہے پاکستان کی پانی بند کرتا ہے اور جب چاہتا ہے کھولتا ہے ۔
اس وقت بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ملک کے بہت سے کارخانے اور صنعت متاثر ہیں بلکہ بہت سارے کارخانے یاتو بند ہوگے یا پھر کسی اور ملک میں منتقل ہوگۓ ہے ۔ کیونکہ ان کو بجلی نہیں ملتی ہے اور ملتی بھی ہے تو مہنگا۔
حکومت ایسے منصوبوں پہ کام کررہی ہے جس میں حکمرانوں کا فائدہ ہو آسان لفظوں میں ان کو کمیشن ملتا ہو بلے عوام ایسے منصوبوں کے خلاف سراپا احتجاج ہو ۔لیکن حکومت ایسے منصوبوں سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں بلکہ ایسے منصوبوں کے لیے ہمارے حکمران طاقت کا استعمال بھی کرتے ہے ۔ جس کی ایک مثال میٹرو بس سروس ہے ۔ اور حکومت کی تمام تر توجہ میٹرو بس پہ ہے ۔یا پھر ایسے منصوبوں کی طرف ہے۔جس میں ان کا فائدہ ہو۔اس وقت حکومت کی حیثیت ایک کمیشن ایجنٹ سے کم نہیں ہے ۔
ایسے نااہل حکمرانوں کی وجہ سے دوسرے ممالک ہمیں طعنہ دیتے ہے کہ ہمارے ملک جس کو قدرت نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ۔آج وہ دوسرے ملکوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے بھیک مانگتا ہے۔
ہمارے ملک میں پانی ہے ہوا ہے سورج ہے جس سے نہ صرف سستی بجلی پیدا ہوسکتی ہے۔بلکہ یہ ماحول دوست بھی ہے اور سستی بھی ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے ملک میں گھنٹوں گھنٹوں لوڈشیڈنگ ہوتا ہے دیکھا جاۓ تو یہ لوڈشیڈنگ ہمارے حکمرانوں کی نااہلی اور ان کے مفادات کی وجہ سے ہے اور ہمارے وجہ سے ہے کہ ہم ایسے نااہل لوگوں کو منتخب کرکے اسمبلی میں بیجھتے ہے ۔