حاجی صاحب اپنی چال بھول گئے
خط بنام اڈیٹر
منجانب: افسر خان مستوج
مکرمی!
میں آپ کے مؤقر آن لائن جریدے کی وساطت سے سابق ایم پی اے حاجی غلام محمد کے جماعت علمائے اسلام میں شرکت کے حولے سے خواص کو عوام کی رائے سے اگاہی دلانا چاہتا ہوں ۔ اس ضمن میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ JUI ایک اسلامی سیاسی جماعت ہے اور مولانا محترم ایک پاکیزہ سیاست دان ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ لوگ اُسے مولانا ڈیزل کہتے ہیں ۔ کیوں کہ ہمارے ملک میں ہر اچھے اور منجھے ہوئے لوگوں کو اُ ن کی مستقل مزاجی یا کسی بھی اچھے کردار ( چاہے مذہب کے حوالے سے ہو یا سیاست کے حوالے سے ) کی وجہ سے حسد کے نتیجے میں مختلف غلط ناموں سے منسوب کرتے ہیں ۔ مولانا صاحب ہر حکومت کے ساتھ سیاسی اور جمہوری لحاظ دارو احترام سے چلتا رہا ہے ۔ کچھ لوگوں کی نظر میں یہ سیاسی کمزوری اور سیاسی بیماری ہے تاہم لوگوں کی وہ کثیر تعداد جو اپنی ذات سے زیادہ دوسروں کی تکالیف اور غم کو اپنا سمجھتے ہیں کا کہنا یہ ہے کہ مولانا صاحب ایک پرامن سیاستدان ہی نہیں بلکہ ایک دور اندیش اور دانشمند انسان بھی ہیں۔ لیکن افسوس اس بات پر کہ مولانا صاحب کاصاف و شفاف سیاسی تالاب کچھ آفت زدہ بیرونی مچھلیوں کے در آنے سے مکروہ ہونے کا خدشہ ہے ۔
حاجی غلام محمد صاحب ایک ٹھیکہ دار ہیں وہ بہتر طور پر جان سکتا ہے ایک عمارت کو کتنے مزدور کتنے وقت میں کم لاگت پر استادہ کر سکتے ہیں تاکہ ٹھیکہ دار کو بھی خاطر خواہ مالی فائدہ ہو ۔اور ایک پختہ سڑک کی تعمیرکو کم از کم لاگت کے ساتھ کتنے سالوں میں ممکن بنائی جا سکتی ہے ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن ، حاجی صاحب کے لئے سیاست کی مثال اُس کوے کی ہے جو ہنس کی چال چلنے کی کوشش میں اپنا انداز بھی بھول جاتا ہے ۔ عوام حیران ہیں کہ حاجی صاحب کو مولانا صاحب کے ساتھ میل کھانے والی آخر کونسی ایسی قدر مشترک نکلی کہ حاجی یکسر مدغم ہوگئے اور مولانا صاحب ہضم کر گئے۔ ایک بات بہت خوش ائند ہے کہ حاجی صاحب کی JUI میں شمولیت سے یہ پارٹی مکمل سیاسی پارٹی بنے گی ۔ سیاسی پارٹی ان معنوں میں کہ ہمارے ملک میں ہر وہ پارٹی سیاسی ہوتی ہے جس میں کرپشن اپنی آخری حدوں کو چھوئے ، اقربا پروری ، سفارش، رشوت اور ہر طرح کے کرپشن کا بازار گرم ہو۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ مولانا صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں کیوں کہ اب کے بعد مولانا صاحب کا ہر پُرزہ گرم ہوگا ۔ کیوں کہ جاجی صاحب بلائی چترال میں کثیر تعداد میں بسنے والا قبیلہ ’’ زوندرے‘‘ کا پیشوا ہے ۔مولانا کے لئے حاجی صاحب کی شرکت اس لئے بھی سونے پر سہاگہ ہے کہ حاجی کے پیروکار یعنی زوندرے قبیلے کی اکثیریتبالائی چترال میں بستی ہے اور یہ اتنے جذباتی لوگ ہیں جو کہ حاجی صاحب کے معاملے میں آؤ دیکھتے ہیں نہ تاؤ بس جیالے بن جاتے ہیں ۔ پچھلے الیکشن میں جب حاجی صاحب ووٹوں کے غلط گنتی کی وجہ سے جب لیکشن جیت گئے تھے تو اُس وقت بھی شایداِسی قبیلے سے کسی روحانی طاقت کا استعمال ہوا تھا ۔ ہمیں امید ہے کہ حاجی صاحب اپنے قبیلے کے لوگوں کو’’ اوا زوندرے تو زوندرے‘‘ نامی رسی میں باندھ کر مولانا صاحب کے سپرد فرمائے گا ۔ یہ بوسیدہ رسی ہر وقت کام آتی ہے ۔ جیسے اسی رسی سے مسلم لیک نون اور مسلم لیگ قائد اعظم سے لیکر اب کی بار مولانا تک خوب کام لیا گیا۔
اب رہی بات ایم پی اے سردار حسین سے بلاوجہ مخالفت: عوام خوب جانتی ہے کہ اُ ن کا خون کس نے پیا ہے بونی مستوج روڈ اب بھی سب کے سامنے ہے بونی مستوج روڈ کو تعمیر کرنے کا ڈھونگ رچا کر اپنے اُن سیاسی لوٹوں کو ارب پتی بنانا کہ جوکہ کل ایک موٹر سائیکل بھی اپنی حلال کی کمائی سے خریدنے کے متحمل نہیں تھے ۔ اور کچھ کے بچوں کو تعلیم کے لئے بیرون ملک بھیج دینا وغیرہ کیا حقیقت پر مبنی نہیں ہیں ؟ بونی مستون ہائی وے کے نام سے جب سے روڈ کو جگہ جگہ سے اُکھاڑا گیا تو سڑک کی حالت انتہائی نگفتہ بہہ ہوگئی ۔ کہیں خطرناک کھڈے کہیں غیر ضروری اور تنگ و تاریک موڑ یہی وجہ ہے کہ تعمیرِ روڈ کے نام پر بربادیِ روڈ کی شروعات سے اب تک کتنے حادثے پیش آئے ؟ کتنی جانیں گئیں ؟ کتنے سہاگ اُجڑ گئے ؟ لیکن اُس وقت کے نمائندوں کے کانوں مٰیں جوں تک نہین رینگی ۔ مستوج کے عوام اس مألے کو محسوس تو ضرور کرتھے لیکن اظہار اس لئے نہیں کیا کہ (ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں ورنہ کیا بات کرنہیں آتی ) لوگ چپ رہے کیوں کہ منظور تھا پردا تیرا ۔
حاجی صاحب آسمان سے گرتے وقت شاید سوچا تک نہیں تھا چترال میں اَٹکنے کے لئے کھجور کے درخت نہیں ہوتے بلکہ یہاں شنجور ہوتے ہیں جس کے بڑے بڑے کانٹے ہوتے ہیں ۔ اب چونکہ کھجور رمیں اٹکنے کے بعد اپنیگرجانے کا واحد سبب سردار حسین کو سمجھتے ہیں ۔ ہماری ناقص رائے میں حاجی صاحب کو گرانے میں شاہ صاحب کا ہاتھ ضرور ہوسکتا ہے تاہم اٹک جانا حاجی صاحب کی پرواز کی کوتاہی ہےکیوں کہ یہاں کوتاہی زوق عمل ہے خود گرفتاری جہاں بازو سمٹتے ہیں وہاں صیاد ہوتا ہے ۔ حاجی صاحب کے کام کرنے کا طریقۂ کار شاید نیک نیتی پر مبنی نہیں تھا اسلئے خود بخود گرفتار ہوئے جا رہے ہیں ۔ سنا ہے کہ ان دنوں حاجی صاحب اپنے کیے کی سزا بھگت رہے ہیں اور زنانہ کالج بونی کی بلڈنگ کو اپنے اقتدار سے پہلے جب ٹھیکے پہ لیا تھااس وقت 27 لاکھ کا غبن کیا تھا اب پیشیوں میں لگا ہوا ہے اور اب پیشیوں کے لئے پشاور جاتے ہوئے پشاور میں راتیں گزارنے کے لئے مولانا صاحب کی سواگت حاصل ہوگی ۔ حاجی صاحب کو چاہئے کسی صیاد سے گلہ نہ کرے بلکہ یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ قسمت میں قید لکھی تھی فصلِ بہار میں ۔
بالائی چترال کے عوام تمام تعصبات سے پاک ہو کر حاجی صاحب اور شاہ صاحب کو ایک کسوٹی پر پرکھ کر یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں : حاجی صاحب ایک ٹھیکہ دار ہے ،پیسے کے بل بوتے پر سیاست میں قدم رکھا ، جو جو اُسے ووٹ دیتے رہے اُن کے حق رائے دہی کا احترام کئے بغیرمتعدد مرتبہ پارٹی بدلتے رہے جبکہ شاہ صاحب ایک سیاسی شعور کے مالک، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مستقل مزاجی کے ساتھ ایک ہی پارٹی کے ساتھ و فاداری نبھانے والا فرد ہے ۔ شاہ صاحب کے لئے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ یہ بُرے دنوں کے دوست ہیں جبکہ حاجی صاحب اچھے دنوں کے یار ہیں ۔کسی نے ایک آن لائن اخبار میں درست لکھا تھا کہ حاجی صاحب سیاسی خود کشی کر رہے ہیں ۔ لیکن حاجی صاحب کے پاس اور کوئی چارۂ کار نہیں سوائے اس کے کہ خود کشی کرے تاکہ کم از کم ہم یہ آسانی سے کہ سکیں کہ ؔ جس دھج سے وہ مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے