سانحہ در سانحات
ابو حارث شجاعت
ویسے تو آج کل پاکستان میں وحشت کا راج ہے ہر طرف خون و غارت گری کا راج ہے کبھی کہیں انسانی جانوں کوانفرادی طور پر ٹارگٹ کیا جارہا ہے تو کہیں اجتماعی طورپر بموں سے اڑا دیا جاتا ہے کبھی علمائ کا قتل عام ہوتا ہے تو کبھی مسافروں کو اجتماعی قتل کیا جاتا ہے۔ پاکستان سے روح فرسا خبریں ہمیشہ خبروں کی زینت بنتی رہتی ہے یوں لگتا ہے کہ پاکستان قتل گاہ بن چکا ہے جہاں مسلمان ہی مسلمان کا خون بہا رہا ہے جہان راج صرف درندوں کا ہے لیکن سانحہ پشاور کی خبر نے رگوں میں ڈورتا ہوا خون منجمد کردیا قلم ہاتھ میں تھامے کل سے لکھنے کی کوشش مسلسل ناکام ہوئی جارہی ہے سمجھ نہیں آتا کہ ان معصوم پھولوں کا نوحہ لکھوں تو کس طرح قلم ساتھ دے رہا ہے نہ ہی دماغ کچھ سوجھ رہا ہے جب بھی کاغذ اٹھاتا ہوں تو ان معصوموں کا چہرہ سامنے آتا ہے اور آنکھوں کے آگے ایک اندھیرا سا چھاجا تا ہے الفاظ میرے احساسات کے ساتھ نہیں دے پارہے ہیں نہ ہی ذہیں یکسو ہوپارہا ہے الفاظ کاغذ پر اتارتا ہوں مگر الفاظ ہی گم ہوجاتے ہیں ۔ سانحہ پشاور پر نوحہ لکھنے تو بیٹھا ہوں مگر کس کس چہرے کا نوحہ لکھوں کس چیز سے لکھوں سمجھ سے بالاتر ہے۔ اپنوں کی نالائقی پہ لکھوں کہ آپس میں الجھے ہوئے ہیں اور ایک دوسروں پر کفر کے فتوے لگائے جارہے ہیں یا پھر دشمن کی عیاری پر لکھوں کہ جس کےلئے ہم سب پاکستانی اور مسلمان ہیں ۔ ہم لوگ تقسیم در تقسیم ہوتے جارہے ہیں اور دشمن اکھٹے ہم کہیں پنجابی ہیں تو کہیں سندھی کہیں بلوچ ہیں تو کہیں پٹھان پھر ذات میں کھوے ہوئے نادان لوگ اور دشمن کےلئے ہم صرف اور صرف پاکستانی۔ ٧١ دسمبر کے دوپہر کو تمام بچے اور اساتذہ سکول کے کلاسوں میں مگن ہیں کہیں طلبہ امتحانات میں مگن تو کہیں استاد سے دوبارہ پڑھائی کا مطالبہ ہے تمام پاکستان کے سکولوں میں استاد اور طلبہ تعلیم میں مگن اسی لمحے پشاور کے آرمی پبلک سکول میں کچھ درندے ہتھیاروں کے ساتھ داخل ہوتے ہیں اور تعلیم میں مگن طلبہ اور اساتذہ پر اندھا دھن فائرنگ کرتے ہیں اور بہت سے بچوں اور ان کے معلمین کو شہید کردیتے ہیں جب تک حکومت اور آرمی حرکت میں آتی ہے وہ گیڈر اپنے مقصد میں بڑی حد تک کامیاب ہوتے ہیں ۔ میڈیا کے ذریعے خبر پاکستان کے طول و عرض میں پھیل جاتی ہے پورا پاکستا ن اضطراب کا شکار ہوجاتا ہے ہر سکول ہر ادارے ہر گھر جہاں جہاں خبر پہنچ جاتی ہے پشاور کے سکول میں موجود افراد کی سلامتی کےلئے دعائیں شروع ہوجاتی ہے۔ ہر چہرہ غمگین نظر آتا ہے فکر مند ہے کہ یہ کیا ہورہا ہے ہر دل مضطرب ہے بے چین ہے دعائوں کے سہارے ٹی وی پر نظر جمائے ہوئے حالات کا جائزہ لے رہا ہے لیکن کیا ہوگا اگلے دو تین دن ان کی یاد منائی جائے گی پھر یہ قوم بھول جائے گی اور ایک بار پھر کافر کافر کے نعرے ہونگے اور پھر ایک دوسروں کا قتل عام۔
سانحہ پشاور میں شہید ہونے والے تمام طلبہ اور اساتذہ تو اللہ کے ہاں اپنا اجر پائےنگئے انشائ اللہ، لیکن ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم کل اللہ کے حضور کیا جواب دیں گئے خاص طور پر ہمارے حکمران۔ حضرت عمرؓ نے ایک بار کہا تھا کہ دریائے دجلہ کے کنارے اگر کوئی کتا بھی پیاسا مرا تو اس کی پوچھ اے عمرؓ تجھ سے ہوگئی کیا کل کو اللہ کے ہاں ہم سے پوچھ نہیں ہوگی کہ تو نے کیا کیا تھا ۔ دہشتگردی کا جن پاکستان میں مکمل طور پر آزاد ہے جب جہاں جس کو چاہا مار دیا مگر ہم اپنے مسائل میں الجھتے رہے ہمارے حکمران اپنے اقتدار کے پیچھے مگن رہے اور ہم اپنے روزگار کے پیچھے۔ کبھی کسی نے ان گیڈروں کی حمایت کی تو کسی نے ان سے اختلاف کیا مگر اختلاف کرنے والے بھی مسلک کی بنیاد پر ایسا کرتے رہے کسی کو پروا نہیں تھی کہ طالبان نامی یہ گیڈر اب شیر کی خال پہن کر آرہا ہے گیڈر کی خاصیت ہی یہی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے سے کمزور پر حملہ کرتا ہے اور پیتھ پیچھے سے حملہ آور ہوتا ہے مگر اس میں اتنی طاقت نہیں ہوتی ہے کہ وہ اکیلا یہ کام کرےاور یہی کچھ ان گیڈروں نے پشاور میں کیا۔ ہمارے لئے مسئلہ ہی ہمیشہ یہ رہا ہے کہ پاک فوج کی مخالفت کرنے والے ہمیشہ سے طالبان نامی گیڈر کے پشت پر رہے ہیں جن کی وجہ سے یہ لوگ سادہ لوح افراد کو گھیر لیتے ہیں اور ان سے اپنا کام نکال لےتے ہیں ہمارے بعض نادان دوست اس قسم کی کاروائیوں کےلئے ہمیشہ پاکستان کی جاسوسی اداروں پر ڈال کر خود کو اور طالبان کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں ۔ ہمارے ساتھ المیہ ہی یہی رہا ہے کہ ہم اب تک ایک متحدہ قوم نہیں بن سکے اور اس میں ہمارے دشمنوں کے ساتھ ہمارے نادان دوست بھی شامل رہے ہیں کبھی مذہب کے نام پر ہمارے ساتھ سیاست کی گئی اور کبھی قومیت کے نام پر اور کبھی علاقائیت کے نام پر ہمیں الو بنا کر اپنا الو سیدھا کیا گیا مگر ہم ٧٦ سالوں سے دھوکہ کھارہے ہیں اور جانتے بوجھتے کھارہے ہیں کہیں ہم قوم پرستی کے بت کے ساتھ مگن ہیں تو کہیں ہم علاقا ئیت کا سومنات اٹھائے پھر رہے ہیں تو پھر ہمارا دشمن ہمارے ہی بچوں کو نہ مارے تو کیا کرے۔ ہم اب تک پاکستان کےلئے صحیح راستے کا انتخاب نہیں کرسکے ہم سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ دلفریب تو لگا دیتے ہیں مگر جب بات پاکستانیوں کی آتی ہے تو مذہب کی طرح ہم اس میں بھی تقسیم ہوجاتے ہیں جب ڈاکٹر عافیہ کو امریکہ کے حوالے کیا جاتا ہے تو وہ دہشت گرد بن جاتی ہے کیوں کہ وہ انسانیت کا خدمت کا جذبہ رکھتی تھی اور مسلمانوں کا درد اپنے دل میں رکھتی تھی وہ پاکستانی نہیں ہوتی ہے لیکن ملالہ کو سوات میں گولی ماری جاتی ہے تو وہ پاکستانی بن جاتی ہے جب وزیرستان میں ڈمہ ڈولا میں مدرسہ ڈرون کی زد میں آجاتا ہے تو کسی کو یاد نہیں رہتا کہ وہ بھی پاکستانی تھے لیکن سکول کے طلبہ پر حملہ ہوجاتا ہے تو یہ سیکولر طبقہ چیخ اٹھتا ہے کہ ظلم ہوا، یہ دو رنگی کیوں ؟ ہمیں اب یہ منافقانہ رویہ ترک کرنا ہوگا ہمیں پاکستانی بن کر سوچنا ہوگا اور اس بنیاد پر آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنا ہوگا کہ اب ہمیں کیا کرنا ہے ہمیں یہ بات ماننی ہوگی کہ وزیرستان بھی پاکستان کا حصہ ہے اور تمام قبائلی علاقے پاکستان کا ایک اہم علاقہ ہے اور ان علاقوں میں مرنے والے بھی پاکستانی ہیں اور ا نکی حفاظت بھی حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے اور حکومت پاکستان کو بھی ایک بار پھر اپنی قومی پالیسی پر دوبارہ غور کرنا چاہیے اور اسکو از سرنو ترتیب دینی ہوگی اپنی تمام پالیسیوں کو امریکی دماغ سے سوچنے کے بجائے اپنے ملکی مفاد میں ترتیب دینی ہوگی۔ پاکستان آرمی کے کرتادھرتوں کو بھی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی ہوگی اور امریکی جنگ سے نکلنا ہوگا تب اس ملک میں دہشت گردی کے خلاف اتحاد ہوگا اور ہم دہشت گردی کو شکست دینے میں کامیاب ہونگے۔ لیکن اگر ہم اسی طرح سے انہی پالیسیوں پر گامزن ہونگے تو ناکامی ہمارا مقدر ہوگی ۔ اب وقت آگیا ہے کہ حکمران اور اپوزیشن میں بیٹھے ہوئے تمام پارٹیاں اپنے ذاتی مفادات کوترک کرکے پاکستان کے مفاد میں سوچیں اور اپنی تمام توانائیاں پاکستان کی استحکام کے لئے خرچ کریں ملک میں سے سیکولر اور مذہبی جنگ کو خارج دفترکریں اور ملک کے تمام قوانین کو یہاں کے عوام کی خواہشات کے مطابق بنائیں ۔ ایک نظام تعلیم کا بندوبست کیا جائے ایک ہی زبان کو تعلیم میں رائج کریں اور قوم میں تعلیم کے ذریعے پاکستانیت اور اسلام کی محبت پیدا کریں ۔ اس ملک کی جدوجہد میں مسلماناں پاک و ہند نے جس جذبے کی وجہ سے شمولیت اختیار کی تھی اس کلمہ کو اس ملک کا سپریم قانون بنادیں تو ہم بہتر نتائج دے سکتے ہیں اور ہمارے سارے مسائل بھی حل ہوجائینگئے لیکن اگر حکمران اور سیاسی پارٹیاں اس طرح دست و گریباں رہے اسی طرح اپنے مفادات کے اسیر رہے تو نہ ہی ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی ہم ترقی کرسکتے ہیں باور حالات بدلنے کی کوشش نہ کی گئی تو ہمیں مزیداس قسم کے سانحات کے لئے تیار رہنا ہوگا ۔حکمرانوں کے لئے یہ دور امتحان کا دور ہے اس کا رزلٹ ان کی کارکردگی پر منحصر ہے کہ وہ معاملات کو کس طرح حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیا طریقہ اپنایا جاتا ہے اور ان پالیسیوں پر عمل درآمد کس طرح کیا جاتا ہے۔ خیبر پختونخواہ کی حکومت کے لئے خصوصاً اور مرکزی حکومت کےلئے عموماًیہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے اور دیکھنا ہوگا کہ وہ کس طرح سے اس مسئلے کو حل کرتی ہے اور اس کےلئے کیا کیا پالیسیاں اختیار کی جاتی ہیں ۔ سانحہ پشاور پاکستانیوں کے لئے بھی ایک چیلنج ہے دیکھیں وہ کس طرح سے اس چیلنج سے عہدہ براہ ہوتی ہیں شہدائ پشاور سانحہ کے لواحقین کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کرتے ہوئے آئیے سب ملکر دعا کریں کہ اللہ شہدائ کی ان شہادتوں کو قبول کرے ان کے لوحقین کو صبر جمیل عطا کرے اور پاکستان کو اس مصیبت سے نکالے. آمین