معاشرہ کی تشکیل میں مدارس دینیہ کا کردار
تحریر: حافظ محمدصدیق مدنی
مسلمانوں کے نئے نسل کی اس بگڑتی صورتحال کے پیش نظر اکابر علمائے امت نے اس فکری الحاد کے سامنے بند باندھے اور مسلمانوں کے دین وایمان کے تحفظ اور بقاء کی خاطر آزاد دینی مدارس کا جال بچھانے کا عزم کیا۔ جو مدرسہ دارالعلوم دیوبند سے لیکر آج کے ہزاروں دینی مدارس معاشرے کی تشکیل و امن میں ایم کردار ادا کر رہے ہیں۔
اسلام دشمن عناصراسلامی سیاسی پاکستان کے وجود ہی کے منکر ہیں اور پاکستان کی گاڑی کوگھسیٹ گھسیٹ کر سیکولر بنانے کی ہر کوشش کرتے رہتے ہیں۔
خاص کر ان کا نشانہ پاکستان کے دینی مدارس ہیں جہاں سے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کا نعرہ مستانہ بلند ہوتا ہے۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ دین کی پختہ تعلیم ہی پاکستان کی بقا کی ضامن ہے اور وہ دینی مدرسوں سے فارغ لوگوں کی وجہ سے ممکن ہے۔ مشنری اسکولوں کے فارغ شدہ لوگ جن کا مذہب تو تبدیل نہیں کیا جاتا مگر ان کی سوچ کا مرکزمکہ و مدینہ کی بجائے واشگٹن مغرب کی طرف کر دیا جاتا ہے وہ اپنی ہر مشکل کا حل انہیں کی فکر سے حاصل کرنے کی جد وجہد میں لگے رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ دنیا میں سیکولر حکومتیں قائم کئے ہوئے ہیں۔ جبکہ مدارس سے فارغ لوگوں کی سوچ کا مرکزمکہ و مدینہ ہے وہ ہر مسئلے کو اسلام کے بتائے ہوئے اصلوں کی روشنی میں دیکھتے ہیں اور مشکل کے وقت وہ اللہ اور رسول ؐ سے ہدایت حاصل کرنے کی جد و جہد کرتے ہیں۔
اس بنیادی اصول کو سامنے رکھ کرا ٓپ یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ پاکستان کے مدارس کے پیچھے دنیا کے صلیبی کیوں پڑے ہوئے ہیں۔ اس بات کو مذید سمجھنے کے لیے آپ غور کریں کہ مشنری اسکولوں سے فارغ ہونے والے اشخاص کے لیے اقتدار کا راستہ کس طرح ہموار کیا جاتا ہے۔ حکومتی عہدوں میں شامل ہونے کے لیے جو مقابلے کے امتحان کا طریقہ رکھا گیا ہے وہ انگریزی زبان میں ہے۔ انگلش میڈیا سے پڑھے ہوئے لوگ آسانی سے مقابلے کی امتحان میں پاس ہو جاتے ہیں اور عربی مدرسوں کے پڑھے ہوئے لوگ اس کے قریب بھی نہیں آ سکتے کیونکہ انہوں نے عربی میں تعلیم حاصل کی ہوتی ہے۔ اس سازشی طریقہ کو پاکستان بننے سے پہلے ہی صلیبیوں نے جاری کیا ہوا تھا لہٰذا جب سے پاکستان بنا ہے صلیبیوں کے انگلش میڈیا اسکولوں،کالجوں سے فارغ شدہ اشخاص حکومت میں شامل ہوتے ہیں۔
جو نظام حکومت چلاتے ہیں یہ تو ہوئے انتظامیہ کے لوگ جو مشنری اسکولوں سے پڑھ کر آتے ہیں جو پاکستان کی پارلیمنٹ میں لوگ جاتے ہیں ان میں بھی کافی تعداداپنی دولت کی بنیاد پر ان ہی مشنری اسکولوں سے ہی پڑھ کر آتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں جیت کے آنے والے پیسے کے زور پر جیت کر آتے ہیں پھر نفع بخش تجارت کے طور پر جائزو نا جائز طریقے سے پاکستان کی عوام کی دولت کوہڑپ کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ ان کی اکثریت قانون سازی میں سیکولر سوچ کے مددگار بنتی ہے اس اسکیم کو صلیبی ماہر تعلیم لارڈ میکالے نے اپنی محکوم نو آبادیوں کے لیے ترتیب دیا تھا۔ اس کے پیچھے انگریز کی سوچ تھی کہ جس اسلامی تعلیم سے اسلام نے دنیا کے ایک کثیر حصے پر حکومت کی تھی اس کی جڑ کاٹ دی جائے۔ چونانچہ اس اسکیم کے ذریعے دین سے غافل کلرک پیدا کیے گئے جو ایک طرف اپنی اصل سے دور ہوتے گئے تو دوسرے طرف قابض حکومت کے کل پرزے بنتے گئے۔ اسلامی تعلیم کے تمام راستے بند کر دیے گئے اور دنیوی تعلیم کے راستے کھول دیے گئے۔
اس سے مسلمان دو حصوں میں تقسیم ہو گئے۔ علمائے اسلام اس سازش کو سمجھ گئے تھے لہٰذا انہوں نے نامساحد حالات کے باجود دینی عربی تعلیم کو جاری رکھا، مدارس قائم کئے۔ حکومت کی طرف سے امداد نہ ملی تو مخیر حضرات کی مدد سے مدارس چلائے جو الحمد اللہ اب بھی پاکستان کے طول و عرض میں چل رہے ہیں۔ ان کی وجہ سے پاکستان کی مساجد آباد ہیں۔ ان ہی کی وجہ سے حفاظ تیار ہو رہے ہیں جو اللہ کے کلام کو اپنے سینوں میں سجائے ہوئے ہیں۔ ہر رمضان میں پاکستان کے قریہ قریہ میں قرآن سناتے ہیں ان ہی کی وجہ سے
پاکستان میں اسلام کا بول بھالا ہے۔ یہ ہی اسلام کے رکھوالے ہیں یہ ہی عوام کی دینی راہنماہی کرتے ہیں ۔
محمدصدیق مدنی کا کہنا ہے کہ یہ مدارس اسلام کے قلعے ہیں، علمائے اسلام کی محنت سے قائم کردہ اسلامی یونیورسٹیا ں اسلام کی چھاونیاں ہیں۔ مساجد کے مینار اسلام کے میزائل ہیں اور یہ مسلمان قوم کے دل میں اسلام کی نشاۃثانیہ کا موجب بن رہے ہیں۔ ان کو ہی دیکھ کر صلیبیوں کے دلوں میں اسلام کا خوف تاری رہتا ہے۔
جمعیت علماء اسلام پاکستان کے مرکزی امیر قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان مدظلہ نے کہا ہے کہ دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں ، ہم اسکے حفاظت خون کے قربانیوں سے کریں گے۔
پاکستان میں قائم ان اسلامی اداروں سے اسلامی دنیا سے طالب علم حصول علم کے لیے آتے ہیں جن کو ہماری حکومتیں اکثر تنگ کرتی رہتی ہیں۔ کبھی ان کو شدت پسند اور دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ کل ہی اخبار میں خبر لگی کہ باہر سے آئے ہوئے طلبا کو گرفتار کیا گیا اور ان کے ساتھ ہتک آمیز سکوک کردیا گیا۔ دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی کی گئی۔ اس میں رانا ثنا اللہ صاحب پیش پیش ہیں۔
وفاق المدارس العربیہ کے رہنماوں نے اس کی بھر پور مذمت کی۔ سابق وزیر داخلہ اور مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت صاحب نے کہا ہے کہ غیر ملکی طلبہ کو بغیر ثبوت کے گرفتار کرنا غلط ہے۔ اسلامی مدارس میں تخریب کاری کی تربیت نہیں دی جاتی۔ اسلامی ملکوں کے طلبہ تعلیم کے لیے آتے ہیں۔ انہوں نے کہا ڈکٹیٹر مشرف کے دور میں ہم نے اسلامی مدرسوں کی چھان بین کی تھی۔ پاکستان میں کوئی تخریب کاری کی تربیت نہیں دی جاتی نہ ہی کوئی تخریب کار مدرسوں میں زیر تعلیم ہیں۔ اسلامی ملکوں کے طالب علم پاکستان میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں لہٰٰذا ان پر شک کرنا اورناجائز طریقے سے تنگ کرنا درست نہیں۔ یہ طالب علم تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے اپنے اسلامی ملکوں میں پاکستان کا اچھا امیج پیش کرتے ہیں۔
سعودی وزیر عبدالعزیز بن عنداللہ العمار نے کہا ہے کہ پاکستانی مدارس دنیا کے لیے رول ماڈل ہیں ۔ جامعتہ بنوریہ العالمیہ کراچی کے مفتی محمد نعیم صاحب نے کہا ہے کہ عالمی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے مدارس کے خلاف کاروائی حکومت کو مہنگی پڑے گی۔ حکمرانوں سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں۔ آئین سے اسلامی شقوں کے خاتمے کی مزا حمت کی جائے گی۔ غیر ملکی طلبہ سے اگر قومی سلامتی کو کوئی مسئلہ ہے تو یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلبہ بھی یہ خطرہ ہو سکتا ہے۔ حکمران ہمیں حب الوطنی نہ سیکھائیں۔ قومی سلامتی کی آڑ میں مدارس کےخلاف کسی بھی کاروائی کی مزاحمت کی جائے گی۔ ہمیں ملک کی سلامتی ان حکمرانوں سے زیادہ عزیز ہے ۔
مدرسہ بحرالعلوم چمن کے مہتمم مولانا فتح محمد چمنی نے کہا ہے کہ دینی مدارس و مذہبی رہنما عصری تعلیم کے خلاف نہیں اگر کسی مدرسے میں دشہت گردی کی تربیت دی جارہی ہے تو حکومت نشان دہی کرے علماء اس مدرسے کے خلاف قانونی کاروائی کرنے میں حکومت کا ساتھ د یں گے۔