کالمز

پیرس حملے کا سبق 

جنوری کے پہلے ہفتے یورپ کے دل یعنی فرانس کے تاریخی شہر دارلحکومت پیرس میں ایک ہفت روزہ اخبار کے دفتر میں دو دہشتگرد داخل ہو کر فائرنگ کی جس میں پولیس اور اخبار کے عملے سمیت سترہ افراد ہلاک ہوئے اس حملے کے فوراََبعد فرانسیسی حکومت حرکت میں آئی کابینہ کا اجلاس طلب کیا حملے کو بربریت قرار دے کر اسکی بھر پور انداز سے مذمت کی گئی اس کے بعد عوام سمیت حکومت اور سول سوسائیٹی سراپا احتجاج ہے گزشتہ اتوار کو پورے ملک میں اس حملے میں ہلاک ہونے والوں کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے لئے ریلیوں کا انعقاد ہواجس میں فرانسیسی حکمرانوں سمیت دنیا بھر کے سربراہاں مملکت بھی شامل ہوئے.

کریم اللہ
کریم اللہ

ایک اندازے کے مطابق بیس لاکھ سے زائدافراد اس ریلی میں شریک ہوئے۔ ایک بات توطے ہے کہ ان ریلیوں سے مرنے والے کبھی واپس نہیں آئینگے لیکن لواحقین سمیت عوام کو احساس ہوا کہ مشکل کی اس گھڑی میں حکومت ان کیساتھ کھڑی ہے16دسمبر2014ء کو خیبر پختونخواہ کے صوبائی دارلحکومت پشاو رکے آرمی پبلک سکول پر طالبان دہشتگردوں نے حملہ کر کے 160کے قریب اسٹوڈنٹس اور اساتذہ کو شہید کر دیا تاریخ عالم میں اس قسم کے دلخراش واقعات خال خال ملتی ہے طالبان کے اس تباہ کن حملے نے ہلاکوخان کی ہلاکت خیزی اور غزنوی کی تباہ کاری کو بھی ماندکر دیا۔پاکستان میں بھی اس تباہ کن حادثے کے شہیدأ کے خاندانوں سے اظہارِ یک جہتی اور طالبان کے خلاف احتجاج ہوا لیکن احتجاجیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی سوشل ،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پربھی تبصروں اور تجزیوں میں واقعے کی مذمت تو کی گئی لیکن وہ جذبہ جو فرانس میں دیکھنے کو ملی وہ پشاور سانحے کے بعد ملک میں کہیں بھی نظر نہیں آیا.

حد تو یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کی آنکھوں کا تارا اسلام آبادکے سرکاری مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز نے ایک نجی ٹی وی پر آکر اس حملے کی مذمت کے بجائے نپی تلی الفاظ میں اسکی حمایت کر دی پھر سول سوسائیٹی کے اہلکاروں نے اس سرکاری مسجد (لال مسجد) میں اے پی ایس کے شہدا کے لئے غائبانہ نماز جنازہ اداکرنے کی کوشش کی تو نہ صرف انہیں روکا گیا بلکہ خطرناک نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئی. چھوٹی سی سول سوسائیٹی کا احتجا ج کم ہوتے ہوتے آخر کار ختم ہوگئی اور یوں اگلے کسی ناخوش گوار واقعے کی انتظار میں سب بیٹھ گئے.

حکومت کی جانب سے آل پارٹی کانفرنس کا ڈھونگ رچایا گیا جو طویل نشستہََ برخاستہََ کے بعد بالآخر دہشتگردوں سے نمٹنے کے لئے ملٹری کورٹس کی منظوری پر اختتام پزیر ہوئی ہمارے حکمرانوں کی قابلیت کا معیار ہے کہ برسوں کی اس ناسور کا علاج صرف ملٹری کورٹس میں ڈھونڈا گیا اسکے بعد زندگی یوں رواں دواں ہے ۔بیس دنوں کی چھٹیوں کے بعد تعلیمی ادارے دوبارہ کھل گئے جبکہ وزیرستان اور خیبر( ون) آپریشن سے متعلق افسانوی داستانیں تراش کر عوام کے دل بہلانے کا بندوبست کیا گیا ہے پیرس حملے کے بعدنہ فرانسیسی حکومت، اپوزیشن کی جماعتیں اور دانشور کسی تذبذ ب میں مبتلا نظر آئی اور نہ اس دہشتگردی کے لئے یہ جواز تلاش کیا گیا کہ چونکہ اخبار پیغمبر اسلام محمد ﷺکے نازیبا کارٹون شائع کرکے مسلمانوں کی دل آزاری کی تھی لہذا حملہ جائز ہے اس کے برعکس سب ایک ہی پیج میں نظر آئے حملے کو فرانس کے خلاف اعلان جنگ قراردے کر دہشتگردوں سے بھرپورطریقے سے نمٹنے کا فیصلہ کیا گیا.

سترہ افراد کے معاملے کو لیکر فرانسیسی حکومت اتنا سیخ پا ہے جبکہ دوسری طرف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمران ،نام نہاد دانشور اور عوام 60 ہزار انسانوں کے قتل کے بعد بھی اس کنفیوژن کا شکار ہے کہ دہشت گردی کے خلا ف جنگ ہماری نہیں بلکہ ہم امریکہ کی جنگ لڑرہے ہیں نہ کسی کو کھل طالبان دہشتگردوں کی مذمت کی توفیق ہوتی ہے اور نہ اس ناسور سے نمٹنے کے لئے واضح پالیسی نظر آئی.

حکومت کی ترجیحا ت کا مرکز میٹروبس یا پھر انڈر پاسز کی تعمیر ہے چین سے گوادر تک برق رفتار ٹرین سروس شروع کرنا ہی اصل ترقی اور حکمرانوں کی دانشمندی کا آخری معیار ٹہر چکا ہے آج بھی ہمارے حکمران اس مخمصے کا شکار ہے کہ کون اچھے طالبان ہے کون برے۔ دفاعی ادارے تزویراتی گہرائی Strategic Deptکے نام پر نان اسٹیٹ ایکٹر کو بھارت اور افعانستان کو پریشرائز کرنے کے لئے استعمال کررہے ہیں مذہبی اور بعض سیکولرسیاسی جماعتیں بشمول مسلم لیگ( ن) میدانی علاقوں میں نفرت و دہشت کے بیوپاریوں کو آثاثہ سمجھتی ہے ایک جانب مغربی ممالک جو دہشت گردی کے لئے کسی قسم کی جواز پیش کرنے کی بجائے دوٹوک الفاظ میں دہشتگردوں سے نمٹنے کا عزم کئے ہوئے ہیں جبکہ دوسری جانب ہم اور ہمارے حکمران سازشی تھیوریز سے عوام کو کنفیوژن میں مبتلا رکھنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے پیرس حملے کے بعد فرانس کی حکومت چوکس تو APS کی خونریزی کے بعد سے اب تک یعنی ایک ماہ کے اندر طالبان کے ہاتھوں کراچی ،لاہور، راولپنڈی اور اورکزئی ایجنسی میں درجنوں بے گناہ شہری اپنے جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے نہ ان کی صد ا میڈیا میں کہیں سنائی دی اور نہ کسی کو احتجاج کرنے کی توفیق ہوئی حکومت کی جانب سے ا ن حملوں کی روک تھام کے لئے کوئی موثر میکنزم نظر نہیں آرہاہے.

پیرس حملے کے بعد جس قسم کا ردعمل فرانسیسی حکومت اور عوام نے ظاہر کیا اس سے کہیں زیادہ ردعمل پشاور کے خونریز سانحے کے بعد پاکستانی حکومت اور عوام کو دیکھانے کی ضرورت تھی لیکن آفسوس کامقام یہ ہے کہ اندھیروں میں بھٹکنے والے لوگوں کا معیار اورترجیحات کچھ اور ہی ہوتا ہے کیا ایسے حالات میں پاکستان دہشتگردی کے اس ناسور کا خاتمہ کر پائے گی جبکہ قوم اور حکمران ہر دو کنفیوژن کا شکار ہے 9ستمبر 2001ء کو واشنگٹن اور نیویاک پرحملے ہوئے جس میں بھی سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن گئے امریکہ نے اپنے دشمن کو پہچان لیا ان حملوں کا بدلہ لینے کے لئے افعانستان پہنچ گئے طالبان کی طاقت کو تہس نہس کردیا گزشتہ چودہ سالوں سے امریکہ میں کوئی دوسرا 9/11رونمانہیں ہوا برطانیہ کے زیر زمین ریلوے کو دھماکوں سے اڑایا گیا برطانوی حکومت اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کی کمزوریوں کو دور کیا اب تک اس قسم کاکوئی دوسرا حملہ نہیں ہوا خیر وہ ترقی یافتہ ممالک ہے ۔چند سال پہلے تک سری لنکا جل رہا ہے تامل ٹائیگرز طالبان سے زیادہ طاقتور اور زیادہ خونریز حملے کر رہے تھے سری لنکن حکومت دہشت گردی کے خلاف ہر محاذ پر لڑا اور چوبیس سالوں کی خون ریزی کے بعد اب وہان امن وآشتی کا ماحول ہے پڑوسی ملک بھارت میں غربت کی شرح پاکستان سے بھی زیادہ ہے صرف چار پانچ سال قبل بھارت کے تاریخی شہر ممبئی کے تاج محل ہوٹل پر خوفنا ک حملے ہوئے بھارت اپنی ناکامیوں پر غور کیا اجمل قصاب کے لئے بھارت میں کہیں بھی جواز پیش نہیں کیا گیا انہیں سولی پر چڑھا دیا پالیسیوں کو درست کیا دوبارہ کوئی اس قسم کا واقعہ رونما نہیں ہوا یہی زندہ قوموں کا معیار ہوتا ہے قوموں سے خطائین ہوتی ہے لیکن ان خطاؤں کو دہرانے کے بجائے ان سے سبق سیکھ کر آئیندہ کے لئے ان کی روک تھا م ہی قوموں کو دنیا میں ممتا ز مقام دلاتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہم آ ج بھی اپنی ترجیحات کا تعین کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں جسکا خمیازہ خونریزی و بربادی کی صورت میں ہمیں بھگتنا پڑرہاہے اگر اس مخمصے کے عالم سے باہر نہ نکلے تو پھر شائد مکمل تباہی ہی ہمارا مقدر ٹہرے گی اب فیصلے کا وقت ہے کیا ہمیں تاریخ کے اوراق میں عبرت کا نشان بننا ہے یا زندہ قوم کی صورت میں دنیا کے لئے رول ماڈل ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button