کالمز

از خواب گراں خیز۔۔۔

مشہور مقولہ ہے کہ اگر کوئی انسان سو جائے تو پانی چھڑک کر اسے جگا یا جاتا ہے ، لیکن اگر کوئی قوم سو جائے ،اسے جگانے کیلئے شہدا کے خون چھڑکنا پڑتا ہے۔ یقیناًاقوام کی نیند ،لمحوں اور ساعات پر مشتمل نہیں ہوا کرتیں، بلکہ اس نیند کی خمار نسلیں صدیوں تک بھی نہیں پوری کرپاتیں۔ جب تاج برطانیہ کا راج تھا تب برصغیر سویا ہوا تھا، سوسال لگا اس قوم کو انگریزوں کی غلامی سے جگانے کیلئے۔عرب ممالک اب بھی بدترین آمریت کی زیر تسلط سورہے ہیں، نہایت افسوس ہوا گلگت بلتستان کے اخبارات میں سعودی آمر کی مرگ پر شایع مضامین پڑھ کر، وہی سابق آمر شاہ عبداللہ ابن عبد العزیز جو عمر بھر ایک طرف امریکی حکمرانوں کو پکا یار بنائے رکھا اور دوسری طرف خادم حرمین شریفین کے لقب کیساتھ پوری دنیا میں اسلام کے نام پر انتہاپسندی کو فروغ دینے والوں کو پالتے رہے(ایمنسٹی کے مطابق ثابت شدہ)، اب انکی رحلت پر لوگ انہیں خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔یقیناًجو لوگ سوئے ہوئے ہیں انہیں پتا نہیں ہوتا کہ دراصل خراٹے اور نیند کی خمار میں کراہتے ہوئے کیا کچھ کہہ جاتا ہے۔عمر بھر عرب اسرائیل تنازعہ پر کچھ نہیں کرسکا، مظلومین فلسطین کیلئے پوری دنیا ایک طرف تو شاہ صاحب اپنی ذاتی کینہ و امریکی احکام کے تحت فلسطینی رہنماوں پر نکتہ چینی کرنے میں گزار دیئے۔ پوری دنیا میں بھوت بنگلے بنانے میں معروف رہے(مراکش میں صرف ایک جگہ گیارہ مربع پر مشتمل گیسٹ ہاوٗس)، گیارہ شادیاں ،امیرترین امیر مملکت،اور نہ جانے کن کن امور میں دوسرے امرا سے کئی کئی گنا آگے رہے، لیکن واہ رے عوام، واہ رے حکومت قومی سوگ منایا گیا، بجائیکہ خوشی منایا جاتا، اور وہی آل سعود انکے نعش پر گریاں دکھائی دیئے،جو جنت البقیع کو مسمارکرکے آل نبی ؑ پر گریہ کرنیوالوں کو بدعتی کہتے تھے۔میر ثانی استاد قمر جلالوی کے بقول ؂

پڑھتا ہوں تو کہتی ہے یہ خالق کی کتاب ہے مثل یہودی یہ سعودی بھی عذاب۔

اس قوم کے بارے میں قمر کیا لکھئے؟ کعبہ کی کمائی سے جو پیتے ہیں شراب۔

از : شریف ولی کھرمنگی
از : شریف ولی کھرمنگی

بہر حال یہ تو ایک مجموعی سوئی ہوئی اسلامی دنیا کی دگرگونی کی کیفیت ہے کہ ایک طرف مغرب کی بے دام غلامی، ایک طرف مسلکی و مذہبی افراتفری، جن کی مثالوں کو بیان کرنے کیلئے کتابیں بھی کم پڑ جائے۔ سب سے بڑے فتنے جن میں ستر اسی کی دھائیوں میں بائی پولر ورلڈ سے یونی پولر ورلڈ کے سفر میں مسلم دنیا خصوصا پاکستان کا پیسٹری بننا اوراس میں عرب سعودی شاہوں کیساتھ پاکستانی ابن الوقت حکمرانوں کی ڈالر و ریال کے عوض عزتوں کے سودے، عرب و امریکہ نواز پالیسی سے لیکر اکیسویں صدی کے آغاز اور ۱۱ستمبر کاڈرمہ، پھر اسی اسلامی دنیا کے کاندھے پر رکھے اسلحے سے مسلم کشی،بنام انتہا پسندی و دھشت گردی کے خلاف جنگ، جن میں صدام و اسامہ سے پہلے دراصل انکو نابود کرنا چاھئے تھا جنہوں نے پہلے اسامہ کو پالا پوسا، پھر صدام کو ورغلا کرایک صدی تک ایران عراق جنگ کروایا،پھر اسی صدام کے شر سے بچنے کے بہانے حرمین شریفین کی حفاظت کیلئے یہودی و نصرانی فوج کو سرزمین وحی پر لے آئے۔دوسرا فتنہ عرب اسرائیل جنگ میں اسی سعودی منافقین کی منافقانہ روش کے تحت پسپائی اور اسرائیل وامریکہ کے ہاتھون بکنے والے جاہل عرب بدو حکمرانوں کی تذلیل سے عروج پانیوالے تکفیری فتنہ پروروں کی مسلم دنیا میں جاری کشت و خون ہے جو بنام بوکوہرام، القاعدہ، الشباب،داعش اور کئی دوسرے نام نہاد جلاد ،اسلحہ و ڈالر و دینار انہی امریکی واسرائیلی ایجنسیوں سے لیتے ہیں، اور اسلام کے نام پر لوٹ مار،قتل و خون ،جہاد النکاح کے نام پر اپنی ماں بہنوں سے زنا سمیت نت نئے فسق و فجور کو عام کرکے دنیا میں اسلام کو بدنام کر نے میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ باتیں شاید کوئی فرقہ پرستی کے زمرے میں ڈال دیں یا کوئی سعودی دشمنی و بغض کا نام دیں، لیکن جو کچھ اس وقت دنیا میں ہونیوالے سیاسی، سماجی،اقتصادی امور سے واقف ہیں ان کیلئے یہ حقیقت ہیں۔پہلے ان باتوں کو کھل کر بتاتے ہوئے ڈر لگتا تھا لیکن اب حقائق اسطرح طشت از بام ہیں کہ انکو ایک طرح سے یکجا کرکے صحیح جہت دینے کی ضرورت ہے، تاکہ سادہ لوح لوگ اپنی سادگی سے نکل کر سوچ سکے اور حقیقتوں کو سمجھ سکیں۔

کہنے کو تو ایسی ایسی نیندیں اس وقت طاری ہیں کہ ساری عمر لکھتا ہی رہوں، ملکی سیاست، مسائل کے انبار، جماعتی و غیر جماعتی طور پر لوٹ مار، کرپشن ،اقربا پرووری، رشوت و سفارش،اوران معاملات میں ہماری اجتماعی نیند، تعلیمی و سماجی امور میں پڑھے لکھوں کی خمار، دنیا چاند پر اور ہم ۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔

ایک بہت ہی اہم پہلو، اپنے علاقے گلگت بلتستان کے عوام اور خاص طو رپر پڑھے لکھوں کی نیند، ہر حوالے سے، خاندانی امور سے لیکر قومی امور تک، نیند کی خمار ہی سب مسائل کی روح دکھائی دیتے ہیں۔نئے الیکشن ہونیوالے ہیں،وفاقی حکمرانوں نے علاقے پر من پسند ۱۲افراد کو مسلط کردیا ہے کہ وہ اپنی نگرانی میں نئے حکمران آنے تک نظم و نسق سنبھالیں، کئی سابق سیاست دان ہیں تو کئی سیاست دانوں کے چہیتے،بعض ایسے ہیں کہ جنہیں سیٹ ملے تب ہی علاقے میٰں گھومنے پھرنے کیلئے آتے ہیں ، ورنہ شہروں میں عیاشی کی زندگی میں مگن پوری زندگی۔ان میں اور دیگر منتخب ہونیوالوں میں بھی حق حکمرانی کا معیارکوئی نہیں، خاندانی وراثت، شاہ ، میر ، راجہ و حاجی کہلانا ہی کافی ہے۔ضروری نہیں کہ کوئی اہلیت ہو، بلکہ کئی ایک ٹھیکیداروں سے اچھے روابط،کئی ایک مالدار خاندانوں سے رشتہ داری یا اچھا کاروبار کا ہونا ہی کافی ہے، جس کے بل بوتے وفاق میں قابض جماعت سے ملحق ہوجانا یا اگر وہ نہ ملے تو کسی بھی پارٹی جو اچھے پیسے دیں ، اس کا پرچم اور ترانہ کیساتھ عوام میں تقریریں کرناہی کافی ہے۔اگر سر پر سفید یاسیاہ موٹا سا عمامہ ہو تو اسکی عزت و تکریم اوربڑھ جاتی ہے،ساتھ میں کسی مسلکی و مذھبی سیاسی جماعت سے کچھ عرصہ کیلئے وفاداری شو کر کے چند لاکھ لے لینا بھی کوئی مشکل کام نہیں، چاھے جیتنے کے بعد کسی کے ساتھ بھی وفاداری جوڑ دی جائے۔اور ووٹ دینے کیلئے عوام ہی نہیں خواص کا بھی اب نوکریوں، کوہلوں کی مرمت،سڑکوں کی مرمت ،حتیٰ کہ روڈ کوہلی یا ڈسپنسری و اسکولوں وغیرہ میں چپراسی لگوانے کے وعدے سے بھی بہل جانا اور راضی بہ رضا ہونا کوئی انہونی بات نہیں۔

گو کہ ریگولر لکھاری نہیں ہوں لیکن جب بھی وقت ملا حقائق کو بیان کرنے کی کوشش کی کہ کیوں ہم اپنے ہی ملک میں اپنی شناخت سے محروم ہیں، کسطرح سے ہم اپنے حقوق کوحاصل کرسکتے ہیں ، کسطرح قوم پرستی ، وفاق پرستی کے نعروں سے نکل کر حق و سچ کیساتھ شعور و آگاہی کیلئے اٹھیں، لیکن خداجانے ہم کب اپنے گم گشتہ خوابوں و خیالوں اور نیند کی خماروں سے نکل پائیں گے۔ در اصل اس قوم میں صلاحیتوں کی کمی نہیں، نہ کہ تعلیم یافتہ لوگوں کی کمی ہے، پنچاب،سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے دیہی علاقوں کی نسبت ہمارا علاقہ بہت آگے ہے،لیکن مسئلہ جہت کا نہ ہونا، اتفاق و اتحاد کا نہ ہونا اور سب سے بڑھ کر اس جذبے کا نہ ہونا ہے جس کے تحت ہم اپنی ماضی سے سبق لیکر حال کو سدھارنے کی کوشش کریں تاکہ مستقبل کیلئے ہم اپنا لائحہ عمل طے کر سکیں۔وہ جگہے جہاں دشمن سے دو بدو آمنا سامنا رہتا ہے وہاں کے بچوں میں یہ جذبہ قائم ہوتا ہے کیونکہ وہ اس کیلئے زندگی و موت کا مسئلہ بن جاتا ہے،اگر وہ بروقت اپنی ذمہ داری کو نہ سمجھیں اور بڑوں کے تجربات سے فائدہ نہ اٹھا ئیں تو ممکن ہے کہ اسکا دشمن اس پر غالب آجائے۔لیکن گلگت بلتستان سمیت وہ علاقے جہاں رنگ و نسل،قوم قبیلہ،اور مذہبی طور پرسب تقریبا یکساں ہوں ، کوئی امن و امان کا مسئلہ نہ ہوں، کوئی دوبدو دشمن کا سامنا نہ ہوں وہاں لوگ ایک دوسرے سے ہی الجھتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے مسئلوں میں ہی لگے رہتے ہیں۔ یہی کچھ اس وقت اس علاقے میں ہورہا ہے اور اپنی وقتی و روزمرہ کے امور میں ہی کھو کر معاشرتی و قومی امور سے غافل ہیں۔

ہم بحیثیت قوم سورہے ہیں، کیونکہ جب کبھی ہمیں قومی ایشوز پر سوچ و بچار کرکے اپنی ذمہ داری کو پہچان کر عمل کرنے کا وقت آیا ہم سوتے رہے،بہت سے مخلص سیاسی، سماجی و مذہبی افراد وقتا فوقتا اس قوم کو جھنجھوڑنے کیلئے اٹھے ہم اپنی نیند کی خمارمیں ان سے کنارہ کش رہے۔نتیجہ یہ نکلا کہ یا تو فرد اپنی زندگی کے ایام پوری کرگئے یا وہ اتنے تنگ آگئے کہ ملک و قوم کے دکھ درد سے ہی کوسوں دور چلے گئے۔اب بھی پڑھے لکھے لوگ علاقہ و قوم کیلئے کٹ مرنے کے جذبے سے سرشار ہم میں موجود ہیں۔لیکن وقت کیساتھ انکو پہچان نہیں پا رہے اور انکی قدردانی نہیں کر رہے۔دوسرا یہ کہ جن کو اپنے لئے راہنما چن لیتے ہیں ان سے کام لیتے نہیں، بس منتخب ہوگیا تو ہوگیا، اس کے بعد اسی کوسب کچھ مان لیتے ہیں،چاہے کچھ کرے یا نہ کرے۔ الیکشن سے پہلے کے وعدے وعید سب بھول جاتے ہیں، حتیٰ کہ جن لوگوں کے گھروں میں ووٹ کی بھیک مانگنے کئی کئی با ر جاتے ہیں ان کو پہچاننا تک گوارا نہیں کرتے، لیکن لوگ اگلی بار بلکہ کئی کئی بار پھر انہیں کوسر پر بٹھاتے نہیں جھجکتے۔یہی وجہ ہے کہ سیاسی موروثیت اب عام ہے، کئی کئی افراد اسی کی دہائی سے بعض حلقوں پر قابض ہیں صرف اسی وجہ سے کہ وہاں کے عوام سورہے ہیں۔یہ خوابِ گراں گراں تر ہوگی اب بھی ہم نہ جاگے تو، اور اس کے نتائج جو سامنے آرہے ہیں وہ ہماری نسلیں بھگتیں گی۔اب دنیا بہت آگے نکل چکا ہے ، اب بھی ہم نہ جاگیں تو شاید ہمارے پاس جو کچھ ہیں وہ بھی نہ رہیں، جس طرح مسلمانوں پر پڑنے والے آلام سے دکھی اقبال فرمایا کرتے تھے ؂

؂ اے غنچہٗ خوابیدہ چو نرگس نگراں خیز،

کاشانہٗ ما ، رفت بہ تاراجِ غماں خیز،

از نالہٗ مرغِ چمن، از بانگِ اذاں خیز،

از گرمیِٗ ھنگامہٗ آتش نفساں خیز،

از خوابِ گراں ،خوابِ گراں،خوابِ گراں خیز۔

یعنی : اے سوئے ہوئے غنچے نرگس کے پھول کی طرف دیکھتے ہوئے جاگ جا، ہمارا گھر غموں اور مصیبتوں نے برباد کردیا ہے،اٹھ کہ چمن کے پرندے کی فریاد، اذان کی آواز،دلوں میں درد رکھنے والوں کی سانسوں کی گرمی، تمہیں اٹھانے کیلئے ہے، اٹھ اس گہری، بہت گہری اور بہت گہری نیند سے اٹھ۔

کیا خبر پھر ہمین کوئی اقبال کے لہجے میں بیدار کرنیوالا ملے بھی یا نہ، اسلئے ہمیں جاگنے کی ضرورت ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button